google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 لوگ ایماندار شخص کو جھوٹا اور جھوٹے کو قابل اعتماد کیوں سمجھنےلگیں گے؟ - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

منگل، 12 جنوری، 2021

لوگ ایماندار شخص کو جھوٹا اور جھوٹے کو قابل اعتماد کیوں سمجھنےلگیں گے؟

لوگ ایماندار شخص کو جھوٹا اور جھوٹے کو قابل اعتماد کیوں سمجھنے لگیں گے؟

 

محترم قارئین کرام!  آج جس موضوع پر بات کرنے جا رہا ہوں  وہ دیگر سابقہ موضوعات کی طرح قرب قیامت کی ان بہت ساری نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ " ایمانتدار شخص کو جھوٹا اور جھوٹے شخص کو قابل اعتماد سمجھا جانا "  حالانکہ یہ نشانی بھی اپنے دور میں پورے جوبن پر ہے ، آج اگر ایک شخص کوکسی کام کرنے سے منع کیا جائے تو وہ ایسی ایسی باتیں اور دلائل پیش کرے گا کہ دوسرا بالکل خاموش ہو جائے گا ، تعلیمات اسلامی ہونے کے ساتھ ساتھ ہم عملاَ بہت زیادہ کمزور ہیں اور اسی کمزوری کے باعث معاشرے میں اخلاقی،معاشرتی  ،سیاسی اور دیگر پھیلنے والی برائیوں کا سد باب بہت حد تک ناممکن ہوگیا ہے، کیونکہ لوگ گناہوں کو اتنا معمولی سمجھ لیتے ہیں  کہ گناہ کو گناہ کہنے میں بھی بُرا محسوس نہیں کرتے ، انہی بہت سارے گناہوں میں سے  خیانت بھی ایک ایسا گنا ہ ہے  جس کو لوگ اتنا معمولی سمجھ کر کبھی بھی کسی کا گلہ کاٹ لیتے ہیں۔

 


آپ ﷺ  نے اس بدترین گناہ کو منافق کی علامت قرار دیا اور فرمایاکہ منافق کی تین علامتیں ہیں " جب بات  کرے جھوٹ بولے،  وعدہ کرے تو خلاف کرے،امانت  دی جائے تو خیانت کرے"

آپ ﷺ نے فرمایا "جو اپنے بھائی کو کسی معاملے میں  مشورہ دے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ دُرستی اس کے علاوہ میں ہے اس نے اس کے ساتھ خیانت کی"

اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد نبوی ﷺ ہے " یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہوجائے تو وہ  خیانت کرنے والاہے"۔

آپ ﷺ نے فرمایا"ہم تم میں سے جسےکسی کام پر عامل بنائیں پھر وہ ہم سے سوئی یا اس سے زیادہ چھپالے تو یہ بھی خیانت ہے جسے وہ قیامت کے دن لائے گا"

یعنی پوشیدہ طور پرکسی کا حق مارنا خیانت کہلاتا ہے خواہ وہ اپنوں کا حق مارے یا اللہ اسکے  رسول کا یا  اسلام کا یا کسی بھی مسلمان بھائی  کا!اللہ رب العزت   سورۃ انفال میں فرماتےہیں"اللّٰہ اور  رسول سے دغانہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں دانستہ خیانت" 

 

ہمارے ہاں عام طور پر  خیانت کا مفہوم صرف مالی امانت کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے  کہ جب  کسی شخص کو معزز سمجھ کراس کے پاس مال بطور امانت رکھوایا  جائے اور وقت مقررہ پر وہ شخص دینے سے انکار کردے تو کہا یہ جاتا ہے کہ فلاں شخص نے مال میں خیانت کی ، یقینا ً یہ بھی خیانت ہی ہے  کیونکہ ہم نے خیانت کو صرف ایک حصے کے ساتھ تشبیہ دی لیکن درحقیقت  خیانت کا شرعی مفہوم بڑا وسیع ہے  علماء کے نزدیک  خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی،بلکہ راز، عزت، مشورے  ، لین دین اور  دیگر پہلوؤں میں بھی ہوتی ہے"۔

آپ ﷺ نے ہمیشہ اللہ سے خیانت کی پناہ مانگی اور اپنی امت کو بھی اس سے آگاہ کیا۔ خیانت چھوٹی ہو یا بڑی قیامت میں سزا اور ذلت و رسوائی کا باعث ہے، خاص کر کے جب خیانت عبادات میں کی جائے اوراسمیں لوگوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ اللہ کے کے حقوق بھی ادا نہ کئے جائیں۔

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا "قیامت کے دن اللہ پاک کے نزدیک سب سے بڑی خیانت یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کے پاس  جائے، بیوی اس کے پاس آئے اور پھر وہ اپنی بیوی کا راز ظاہر کردے"

اس حدیث کے مطابق آج ہمارے نوجوان مردوں اور عورتوں میں یہ برائی بڑی شدت سے پائی جاتی ہے ناصرف پائی جاتی ہے بلکہ باقاعدہ ویڈیوز بنا کر دوسروں کو شئیر کرنے میں ثواب سمجھا جاتا ہے اور جوانمردی کی علامت سمجھا جاتا ہے گویہ بیوی سے ہمبستری کرکے پہاڑ سر پہ اٹھا لیا ہو۔ ابھی میں اس ٹاپک کی گہرائی میں نہیں جا رہا صرف اپنے ٹاپک کو واضح کرنے کے لئے صرف حوالہ دے رہا ہوں کہ خیانت کہاں تک سفر کر رہی ہےجس کو ہم معمولی سمجھ کر روزمعمورہ میں کرتے چلے جاتے ہیں۔اللہ ہم سب کو ان گناہوں سے دور رکھے۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو ہلاکت میں ڈالنے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس سے حیا چھین لیتا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ لوگوں میں نفرت و بیزاری کا نشانہ بنتا ہے۔ جب وہ نفرت کا نشانہ بن جاتا ہے تو اس سے امانت چھین لیتا ہے۔ پھر وہ خائن بن جاتا ہے، اور جب خائن بن جائے تو اس سے ’’رحمت‘‘ کی صفت چھین لی جاتی ہے جس کے سبب وہ دھتکارا ہوا اور ملعون شخص بن جاتا ہے، اور جب ایسا ہوجائے تو اُس کے گلے سے اسلام کا ہار نکال لیا جاتا ہے"

ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں کچھ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک اعرابی آیا اور پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گفتگو جاری رکھی اور فوری جواب نہ دیا۔ بات مکمل کرنے کے بعد پوچھا: وہ سائل کہاں ہے؟ اعرابی نے کہا: میں یہاں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب امانت ضائع کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔‘‘ اعرابی نے پوچھا: ’’امانت کا ضیاع کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب معاملات، مناصب غیر اہل لوگوں کے سپرد کردیے جائیں"۔

آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم وہ باتیں جان لو جو میں جانتا ہوں تو زیادہ رویا کرو اور کم ہنسا کرو۔ نفاق ظاہر ہوجائے گا۔ امانت اٹھا لی جائے گی۔ رحم کا مادہ چھین لیا جائے گا۔ امانت دار لوگوں پر الزام لگائے جائیں گے اور خائن کو امین بنایا جائے گا۔ ایسے وقت میں تم پر فتنے اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح ٹوٹ پڑیں گے۔"

اس حدیث مبارکہ میں قیامت کی ہولناکیوں کی طرف اشارہ کیا گیا  کہ ہر طرف ظلمت کا دوردورہ ہوگا، ظلم کا نظام اور اس سےپھیلنے والا اندھیرہ ، معصیت اور گمراہی اپنے عروج پر ہوگی۔ تاحد نظر نفاق ہی نفاق ہوگا۔ لوگ بات کچھ کریں گے اور عمل کچھ اور ہوگا، دلوں میں کوئی بات ہوگی اور زبانوں پر کوئی اور، مطلب چہروں پہ چہرے لگائے ہونگے۔ امانتداری کا جو تصور اسلام نے دیا ہے وہ ظلمت کی عمیق گہرائیوں میں کہیں دم توڑتا ہوا نظر آئے گا۔ مناصب نااہل ، جاہل اور گھٹیا اور بازاری  لوگوں کو دیے جائیں گے۔ انسانوں کے دلوں سے محبت و الفت  کو ختم کر دیا جائے گا، نفسانفسی کےاس  عالم میں لوگوں کے خون سفید ہو تے جارہے ہیں ، نفرتیں پروان چڑھتی ہوئی نظر آ رہی  ہیں۔ ایک  دوسرے کے لیے خیرخواہی کا جذبہ نہ ہوگا۔ جو لوگ حقیقتاً معاشرے کے نیک ، معزز، سچے لوگ ہوں گے، امانت دار ہوں گے اُن پر طعنہ زنی، مکاری ،فریبی  اورجھوٹے  ہونے کے الزامات لگا کر دنیا کو اُن سے بدظن کیا جائے گا، اور ان کی جگہ جاہل ، کم عقل، بے وقوف، گھٹیا اور بازاری قسم کے لوگوں کو مناصب  دئیے جائیں گے۔ ایسے لوگ جب اقتدار میں آئیں گے تو ہر طرف حیوانیت سر اٹھائے گی اورنظام درہم برہم ہوتا جائے گا۔ ایسے لوگوں کے دلوں میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہوگی۔ ہر طرف سے کوئی نہ کوئی فتنہ و فساد سر اٹھاتا نظر آئے گا۔ ایسے حالات میں اپنی جان بچانا درکنار ایمان بچانا بھی مشکل ہوگا۔  

دوستو!   خیانت ہمارےمعاشرے کا وہ سرایت کرتا ہوا ناسُور ہے جس کے پنجوں سے شاید ہی کوئی شعبۂ  ہائے زندگی بچا ہو  مگرکم علمی  کی وجہ سے ہمیں اس کا شعور نہیں ہوتایا ہم جان بوجھ کر سچائی سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔بزنس ہو یا نوکری !روزمرہ معمولات ہویا وراثت کے مسائل !خیانت،فراڈ اور دھوکے  بازی کا بازار سرگرم ہے ، مثلاًلین دین کی اس دنیا میں٭ ناپ تول میں کمی بیشی ٭معیاری چیزدکھا کر گھٹیا اور کمتر چیز دے دینا٭جعلی دودھ، جعلی گھی یاآئل وغیرہ بنانا و بیچنا ٭مردہ و حرام جانور کا گوشت فروخت کرنا ٭جعلی ادویات کی خرید وفروخت کرنا٭اس طرح کی ہزاروں دیگر  مثالیں جو ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔کہنے کو ہم مسلمان ہیں لیکن ہمارے کاموں سے آج یہود وہنود بھی شرماتے ہیں ۔

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو