google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 حضرت عیسی ٰ ﷤ دوبارہ زمین پر کیوں تشریف لائیں گے؟ (حصہ اول) - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

منگل، 5 اکتوبر، 2021

حضرت عیسی ٰ ﷤ دوبارہ زمین پر کیوں تشریف لائیں گے؟ (حصہ اول)

 حضرت عیسی ٰ ﷤ دوبارہ زمین پر کیوں تشریف  لائیں گے؟ (حصہ اول)

دوستو! قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے دوسری بڑی نشانی حضرت عیسی ٰ﷤  کا دوبارہ زمین پر تشریف لانا ہے۔اس بات  میں کسی قسم کا شک نہیں کہ حضرت عیسیٰ ﷤ اللہ رب العزت کے بہت مقرب  نبی اور رسول ہیں۔ اللہ پاک نے آپ ﷤ کو بغیر باپ کے  محض ماں سے پیدا فرمایا۔ حضرت  مریم ﷥ اپنی نیکی اور عبادات کے باعث بہت ممتاز حیثیت رکھتی تھیں ۔  رب عظیم انھیں اپنے پاس سے پاکیزہ رزق عطافرماتے تھے۔ ارشاد ربانی ہے "





"زکریا جب بھی محراب  (عبادت خانے) میں داخل ہوتے تو اس کے پاس کچھ کھانے پینے کی چیزیں پاتے ، وہ کہتے : اےمریم! تیرے پاس یہ کہاں سے  آئیں؟ وہ کہتی: یہ اللہ کی طرف سے (آئی ) ہیں، بے شک اللہ جسے چاہے، بے حساب رزق دیتا ہے"۔

مریم ﷥مسجد کے ایک حجرےمیں عبادت میں مشغول رہتیں جہاں ان کے علاوہ کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہ ہوتی ۔ جب کبھی اللہ کے نبی حضرت زکریا  ﷤ اس عبادت والی جگہ میں جاتے تو حضرت مریم کے پاس بے موسمے پھل پاتے۔ آپ  ﷤ جب ان کے بارے میں پوچھتے اے مریم! یہ بے موسمے پھل کہاں سے آگئے؟ تو جواب میں کہتیں" یہ اللہ کی طرف سے ہے "۔

پھر جب فرشتوں نے آکر حضرت مریم ﷥ کو ایک خوشخبری سنائی  "اے مریم ! اللہ نے تجھے برگزیدہ کر لیا اور تجھے پاک کر دیا اور سارے جہان کی عورتوں میں سے تیرا انتخاب کر لیا۔ اے مریم!تو اپنے رب کی اطاعت کر اور سجدے کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر"۔اللہ پاک نے حضرت مریم  ﷥ کو اس زمانے کی تمام خواتین میں سب سے اعلیٰ مقام پر فائز کر دیا ہے اور اسے چن لیا ہے کہ اس کے ہاں بن خاوند کے ایک بیٹا پیدا ہوگا جو نبی ہو گا اور ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی دے دی  "اور وہ ماں کی گود میں اور پختہ عمر کا ہوکر (دونوں حالتوں میں) لوگوں سے  (یکساں) گفتگو کرے گا۔" یعنی وہ اپنے بچپن میں لوگوں کو اللہ وحدہ  لاشریک کی عبادت کی طرف دعوت دے گا۔ اسی طرح وہ بڑی عمر میں بھی انھیں عبادت الہیٰ کی طرف بلائے گا۔

ارشاد نبویﷺ "دنیابھر کی عورتوں میں چار عورتیں افضل ترین ہیں: مریم بنت عمران، آسیہ زوجہ فرعون، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمدﷺ۔"

جب یہ خوشخبری سنائی گئی تو سن کر مریم بہت متعجب ہوئیں کہ بغیر باپ کے بچہ کس طرح  پیدا ہوگا! ان کا کوئی شوہر ہی نہیں تو بچہ کیسے ہوگا! فرشتوں نے انھیں بتلایا کہ اللہ پاک ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ جب کسی کام کا ارادہ کر لیتا ہے تو فقط یہ کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔

مریم ﷥ نے اس پر سرِ خم تسلیم کر دیا، اللہ کی طرف متوجہ ہوئیں اور اس کے حکم کے سامنے سپر انداز ہوگئیں۔ انھیں اندازہ ہوگیا کہ اس کام میں وہ ایک بڑی کڑی آزمائش سے دو چار ہونے والی ہیں۔ لوگ ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کریں گے کیونکہ وہ حقیقت سے بے حبر ہوں گے اور بالاسوچے سمجھے ان کی نظر صرف ظاہری حالات ہی پر ہوگی۔ اسی طرح وقت گزرتا گیا وہ مسجد اور عبادت گاہ سے صرف اپنے ایام خاص میں باہر نکلتیں یا پھ اس وقت جب انھیں مسجد سے باہر پانی لینے یا غذا کے حصول جیسی کوئی ضرورت لاحق ہوتی۔

ایک روز وہ ایسی ہی کسی ضرورت کے تحت مسجد سے نکلیں  عین اسی وقت اللہ نے جبریل امین ﷤ کو بھیجا جو ان کے سامنے ایک آدمی کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ جیسے ہی ان کی نگاہ اس آدمی پر پڑی تو بے اختیار بول اٹھیں " میں تیرے شر سے رحمٰن کی پناہ چاہتی ہوں  "فرمایا:میں  تو اللہ کا بھیجا ہوا قاصد ہوں تاکہ میں تمھیں ایک پاک باز لڑکا عطا کروں" یعنی ڈرو نہیں، میں کوئی بشر نہیں ہوں بلکہ اللہ کا فرشتہ ہوں۔ مجھے اللہ نے تمھاری طرف بھیجا ہے۔ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دینے آیا ہوں۔ کہنے لگیں: بھلا میرے ہاں بچہ کیسے ہو سکتا ہے؟" مجھے تو کسی انسان نے ہاتھ تک نہیں لگایا اور نہ میں بدکار ہوں۔ اس نے کہا: بات تو یہی ہے لیکن تیرے پروردگار کا رشاد ہے کہ یہ مجھ پر بہت آسان ہے۔ ( یعنی یہ اللہ رب العزت کا وعدہ ہے کہ وہ تم سے ایک بیٹا پیدا کرے گا۔یہ کام اس کے لئے بہت معمولی ہے کیونکہ وہ ہر ایک چیز پر قادر ہے۔ یہاں ایک بات کہنا چاہوں گا

٭        اللہ ﷻ نے حضرت آدم ﷤ کو مرد و عورت کے بغیر پیدا کیا۔

٭        اللہ ﷻ نے حضرت حوا ﷥ کو عورت کے بغیر صرف مرد سے پیدا کیا۔

٭        اللہ ﷻ نے حضرت عیسیٰ﷤ کو عورت سے بلامرد کے پیدا کیا۔

٭        جبکہ باقی سب انسانوں کو مرد اور عورت دونوں سے پیدا فرمایا۔  ارشاد ربانی ہے  " اور (مثال بیان فرمائی) مریم بنت عمران کی جس نے اپنی ناموس کی حفاظت کی، پھر ہم نے اپنی طرف سے اس میں جان پھونک دی۔"  یعنی جبریل امین ﷤   نے حضرت مریم  ﷥ کے گریبان میں پھونک مار دی جس سے وہ فورا حاملہ ہوگئیں۔"تو ہم نے اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دی"۔ پھر آگے فرمایا " تو وہ اس (بچے) کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اور اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں"۔

اللہ رب العزت فرماتے ہیں " پھر دردزِہ  اسے ایک کھجور کے تنے کے پاس لے آیا اور وہ کہنے لگی: کاش! میں اس ے پہلے ہی مرگئی ہوتی اور (لوگوں کی یا د سے بھی) بھولی بسری ہو جاتی "۔مریم ﷥ کو اندیشہ تھا کہ لوگ ان کی بات کو سچ نہیں مانیں گے اور انھیں جھٹلائیں گے بلکہ جب وہ ان کے ہاتھوں میں نومولود کو دیکھیں گے تو اس پر بدکرداری کا الزام عائد کریں گے، حالانکہ وہ ان کے نزدیک مسجد میں رہنے والی ایک زاہدہ اور عابدہ خاتون تھیں۔ اور ان کا تعلق نبوت اور دیانت والے خاندان سے تھا۔ اس لئے وہ تمنا کرنے لگیں کہ اے کاش! وہ اس حال میں پہنچنے سے قبل ہی مرچکی ہوتیں یا پھر پیدا ہی نہ ہوئی ہوتیں۔ " فرشتے نے نیچے سے آواز دی " آزردہ خاطر نہ ہو، تیرے رب نے تیرے نیچے سے چشمہ جاری  کردیا ہے اور تو کھجور کا تنا اپنی طرف ہلا، وہ تجھ پر تازہ پکی ہوئی کھجوریں گرائے گا، چنانچہ تو کھا اور پی اور (اپنی) آنکھیں ٹھنڈی کر، پھر اگر تو انسانوں میں سے کسی کو دیکھے تو اس سے کہہ دینا: بے شک میں نے رحمٰن کے لئے (چپ کے) روزے کی نذر مانی ہے، لہذا آج میں کسی انسا ن سے ہرگز کلام نہیں کروں گی۔"

جب حضرت مریم ﷥ حضرت عیسیٰ ﷤    کو لے کر اپنی قوم کی طرف آئیں تو باتیں بہت شدت اختیار کر گئیں تو اللہ فرماتے ہیں کہ "مریم نے اس بچے کی طرف اشارہ کیا" یعنی مجھ سے سوال نہ کرو بلکہ اسی بچے سے پوچھ لو۔ تو وہ کہنے لگے" لو بھلا ہم گود کے بچے سے کیسے باتیں کریں؟ یعنی تم جواب کو اس بچے کے سپرد کر رہی ہو جو ابھی گود میں دودھ پیتا ہے اور کچھ نہیں جانتا۔ عین اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی ٰ﷤    کو قوت گویائی عطافرمائی" وہ (بچہ) بول اٹھامیں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا ہے۔ اور اس نے مجھے بابرکت بنایا جہاں بھی میں ہوں اور جب تک میں زندہ رہوں ، مجھے نماز اور رکوۃ کی پابندی کا حکم دیا ہے، اور اپنی والدہ سے نیکی کرنے والا بنایا ہے اور اس نے مجھے سرکش (اور) بدبخت نہیں بنایا، اور سلام  ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا اور جس دن میں زندہ (کرکے) اٹھایا جاؤں گا"۔ایک اور مقام پر اللہ نے یوں ارشاد فرمایا"بے شک اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے، اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا، پھر اس سے کہا کہ ہو جا، تو وہ ہوگیا۔"

حضرت عیسیٰ ﷤    نے حضرت محمد ﷺ  کے بارے میں بشارت دی۔ ارشاد الہی ٰ ہے " اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا: اے بنی  اسرائیل! بے شک میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اس (کتاب) تورات کی جو مجھ سے پہلے ہے، تصدیق کرنے والا ہوں اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو وہ میرے بعد آئے گا۔ اس کا نام احمد ہوگا۔ پھر جب وہ (رسول ) ان کے پاس کھلی نشانیوں کے ساتھ آیا تو وہ بولے یہ تو کھلا جادو ہے"۔

حضرت عیسیٰ ﷤    انبیائے بنی اسرائیل میں سے آخری نبی ہیں۔ تمام انبیاء نے اپنی اپنی قوم پر تمام حجت کے لئے اور اللہ کی طرف سے انعام کے طور پر انھیں خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کی بشارت سنائی ، آپ کا نام اور صفات اپنی قوم کو بتائیں تاکہ وہ جب بھی آپ کو دیکھیں تو پہچان سکیں، فوری ایمان لائیں اور آپ کی فرماں برداری کر سکیں۔

صحابہ کرام نے ایک روز عرض کی : یارسول اللہ ! ہمیں اپنے بارے میں کچھ بتلائیے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا "میں اپنے باپ ابراہیم ﷤     کی دعا کا نتیجہ ہوں۔ میں عیسیٰ ﷤   کی بشارت  اور اپنی والدہ کا خواب ہوں"۔

  

 

5 تبصرے:

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو