چاند
کا معمول سے بڑا نظر آنے پر آپ ﷺ نے کیا پیشین گوئی فرمائی؟
دوستو! قمری کیلنڈر مسلمانوں کے نزدیک بہت ہی اہمیت کا حامل
ہے ۔ اسلام کے ارکان میں سے دو کا اس کیلنڈر سے بہت گہرا تعلق ہے ، رمضان کے روزے رکھنا، عیدین ، یا پھر حرمت والے دن، یا دیگر معاملات غرض یہ
کہ چانددیکھ کر فرائض کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
لیکن جب بھی چاند دیکھنے کی تیاری کی جاتی ہے ہمارے ہاں یہ
روایات پائی جاتی ہیں کہ عام طور پر اختلاف رائے
یا پھر تنقید برائے تنقید کا ماحول پیدا کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ ہمیں نیا چاند دیکھنے اور سلامتی کی
دعائیں مانگنے کا حکم فرمایا گیا۔
آج کل ہم چاند کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی بجائے دوسروں کی
آنکھوں اور باتوں پر یقین کرتے ہیں۔ مختلف مقامات سے شہادتیں اکٹھی کی جاتی ہیں
اور پھر ایک جماعت کی مشترکہ رائے سے فیصلہ صادر کیا جاتا ہے۔
زیادہ تر لوگ علم نجوم سے رائے لینا شروع کر دیتے ہیں کہ
بتائیں جی ہمارا سال، مہینہ ، یا دن کیسے
گزرے گا اور یا لوگ اپنے ناقص علم اور رائے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پیشین گوئیاں
فرماتے دکھائی دیتے ہیں۔
بعض اوقات یہ پیشین گوئیاں سچ ہو جاتی ہیں لیکن اکثر اوقات
ان لوگوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ کیونکہ عالم الغیب تو صرف اللہ رب العزت کی ذات
اقدس ہے۔ اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ کب کیا ہوگا؟
زیادہ پڑھے لکھے لوگ ماہرین فلکیات کی رپورٹ کا انتظار کرتے
ہیں اور پھر اگلا قدم اٹھانے کا سوچتے ہیں۔ کیونکہ ماہر فلکیات چاند کی عمر، اس کی
چمک اور سورج اور چاند کے غروب ہونے کے
درمیانی وقفے کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں۔ ان کےمطابق جب چاند کی عمر اٹھارہ گھنٹے سے
زائد ہو جاتی ہے تو ایسی صورت میں چاند زیادہ روشن ہوتا ہے اور نظر آنے کے امکانات
بھی واضح ہو جاتے ہیں۔ اور اگر چاند کی عمر پندرہ گھنٹوں سے کم ہو تو چاند کے
امکانات کم ہوتے ہیں یا نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر انتیسویں کی رات اگر چاند نہیں دکھائی دیتا تو ہم لوگ
تیس دن پورے کرتے ہیں اور یہی حکم بھی دیا گیا ہے۔ جب چاندتیس دن پورے کرنے کے بعد
ظاہر ہوتا ہے تو وہ پہلے سے زیادہ روشن دکھائی دیتا ہے کیونکہ انتیسویں اور تیسویں
کی رات میں 24 گھنٹوں کا اضافہ ہوجاتا ہے جسکی وجہ سے چاند پوری آب وتاب کے ساتھ ظاہر
ہوتا ہے۔
چاند کے بارے میں اختلاف رائے صحابہ کرام کے دور میں بھی
تھا جیسا کہ روایت میں ہے کہ چند صحابہ کرام عمرہ کے لئے نکلے تو جب وہ وادی
نخلہ میں پہنچے تو انھوں نے چاند کو دیکھا، ان میں سے بعض نے کہا کہ یہ تیسری کا
چاند ہے اور کسی نے کہا کہ یہ دوسری رات کا چاند ہے۔ جب ان کی ملاقات حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے
ہوئی تو انھوں نے عرض کی کہ ہم نے چاند دیکھا ہے کوئی کہتا ہے کہ تیسری کا ہے تو
کوئی کہتا ہے دوسری کا ہے ۔ تو آپ نے فرمایا کہ تم نے کس رات چاند دیکھا تھا؟ تو
انھوں نے عرض کیا کہ فلاں فلاں رات کا تو
آپ نے فرمایا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ رب العزت نے دیکھنے کے لئے اسے
بڑھا دیا ہے ۔ درحقیقت اسی رات کا چاند ہے جس رات تم نے اسے دیکھا۔
یوں تو ہلال مہینے کے آغاز میں پہلی رات کے چاند کو کہتے
ہیں۔ یہ چاند قمری مہینے کی پہلی رات میں چھوٹا سا نظر آتا ہے، پھر مہینے کے نصف
تک بتدریج بڑھتا رہتا ہے، پھر مہینے کے نصف سے آخر تک تبدریج چھوٹا ہونا شروع ہو
جاتا ہے۔
علامات قیامت میں سے پہلی رات کے چاند کا بڑا نظر آنا بھی
ہے ، یعنی چاند ابتدائی رات ہی میں معمول سے بڑا نظر آنے لگے گا۔ لوگ پہلی رات کے
چاند کو دوسری رات کا چاند خیال کریں گے۔
جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا " قرب
قیامت چاند معمول سے بڑا نظر آئے گا۔ پہلی رات کا چاند دیکھ کر کہا جائے گا کہ یہ
تو دوسری رات کا چاند ہے"۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔