//gloorsie.com/4/6955992 //woafoame.net/4/6956026 //zeekaihu.net/4/6906862 قرب قیامت لوگوں کو میراث کی تقسیم اور مال ِ غنیمت پر خوشی کیوں نہ ہوگی؟

قرب قیامت لوگوں کو میراث کی تقسیم اور مال ِ غنیمت پر خوشی کیوں نہ ہوگی؟

قرب قیامت لوگوں کو میراث کی تقسیم اور  مال ِ غنیمت  پر خوشی کیوں نہ ہوگی؟

 

دوستو!  اللہ رب العزت نے جس قدر میراث کی منصافانہ تقسیم اور حقوق العباد   کے بارے میں جگہ جگہ  قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے ، قربان جائیں اللہ کے اس عدل و انصاف پر  کہ جس میں کسی بھی انسان کے ساتھ زیادتی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہی قوانین اور اللہ کے اس پیغام کو اللہ کے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفی ﷺ نے انسانیت تک عملی طور پر کر کے پہنچایا۔ تاکہ لوگ گمراہی اور انتشار کر شکار نہ ہوں۔

قیامت پر ایمان دینِ اسلام کا ناصرف اہم رکن ہے بلکہ بہت ہی اہم  ترین موضوع  بھی ہے۔ جب ہم اللہ  رب العزت کے بنائے ہوئے قوانین اور حدود کی پامالی کرکے  خود کی تسکین حاصل کرنے میں ساری توانائیاں صرف کرنے میں لگائیں گے تو محض تھکان کے کچھ حاصل نہ ہو سکے گا۔ یہ بات جتنی جلدی ہم سمجھ سکیں گے اتنی ہی ہماری زندگی کی تکالیفیں کم ہو سکیں گی۔



بھلاکبھی کسی کا گلاکاٹ کر یا میراث میں سے حق تلفی کرکے کسی کو سکون ملا ہے ، یقینا نہیں وقتی طور پر آپ کسی کی حق تلفی کرکے سکون حاصل کر لیں گے لیکن وہ دیر پا نہیں ہو گا بلکہ جزوی یا وقتی ہوگا۔لیکن اس سے معاشرےپر کیا اثر ہوگا ذرہ ایک نظر اس پہلو پر ڈالتے ہوئے بات آگے بڑھاتے ہیں۔

آپ ﷺ نے فرمایا " جو شخص ظلم و زیادتی کرتے ہوئے کسی شخص کی ایک بالشت جگہ غضب کرلے گا، تو کل قیامت کے دن اللہ پاک سات زمینوں کا طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دے گا۔"

مگر افسوس ! آج معاشرتی روایات کے برعکس   ہم اسے کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھتے، یا ہماری روح تک نہیں کانپتی کہ جگہ جگہ لوگوں کے  پلاٹوں اور گھروں پر قبضے ہو تے دکھائی دیتے ہیں وہ لوگ عدل وانصاف کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے دکھائی دے رہے ہوتے ہیں ۔ بھائی  بھائی کی زمین پر قبضہ کررہے  ہیں۔بہنوں کو میراث میں کچھ حصہ نہیں دیا جاتا یہ کہہ کر ان کے حصے میں جو میراث آتی تھی اس کے نعم البدل میں ان کی شادی کر دی گئی ہیں لہذا اب میراث میں ان کا کوئی حصہ نہیں بنتا۔ شادی کے موا قعوں پر خواتین کے لیے جو حق مہر لکھوایا جاتا ہے وہ بھی محض لوگوں کے دکھلاوے کے لئے ہوتا جسکاذکر صرف اس نکاح نامے تک محدود ہوتا ہے جبکہ عملی طور پر اس کو ادا نہیں کیا جاتا۔ بدنیتی یا سست روی  سے کام لیا جاتا ہے یا یہ کہہ کر چپ کروا دیا جاتا ہے کہ تمھارے حصے کی رقم کاروبار میں لگا دی گئی ہے اس طرح بڑی آسانی سے  خواتین اپنے  جائز حق سے محروم کر دی جاتی ہیں۔ کوئی خاتون جب اپنے اس حق کا تقاضا کرتی ہے تو محض حیلے بہانوں سے کام لیا جاتا ہے  یا پھر بیہودی سے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کر کے اسے تنگ کرنا شروع کردیتے ہیں، طعنہ زنی  و الزامات کی بارش کی جاتی ہے، ، لیکن  ان سب کے باوجود بھی اس کا حق ادا نہیں کیا جاتا۔

یہ ہمارے معاشرے کی ایک سفاک اور تلخ حقیقت ہے جو دن بدن کم ہونے کے مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے۔اور اس کے ساتھ بڑھنے والے جرائم کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا چلاجا رہا ہے۔مثلا اگر معاشرے میں دولت کی تقسیم منصافانہ نہ ہوگی تو  فرقہ واریت پیدا ہوگی جو کہ معاشرتی بحران کی ایک بڑی وجہ بنتی ہے جو کسی  بھی  آپسی اختلافات ، جھگڑے اور فسادات کی بنیادہوتی ہے۔

اجتماعی فسادات ، معاشی بحران، روحانیت کی کمی ، مجتمع  کی بے ترتیبی بھی اسی سلسلے کی کئی بڑی کڑیاں ہیں ۔ ذرہ نہیں پورے دھیان سے سوچیں کہ یہ تو محض دنیا داری ہے جس میں ہم حقوق العباد ادا کرنے سے قاصر ہیں۔

آئیے اب ہم اس آرٹیکل کا دوسرا رخ  دیکھتے ہیں جو کہ قرب قیامت کی نشانی بتائی گئی ہے۔ کہ لوگوں کو مالِ غنیمت حاصل کرنے کی خوشی نہ ہوگی اور میراث کی تقسیم رک جائے گی" اہل علم کہتے ہیں کہ یہ دونوں علامتیں آخری زمانے میں عین اس وقت واقع ہوں گی جب انسانیت کا قتل ِ عام ہونا شروع ہو جائے گا، اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین ہونے والی لڑائیاں بہت زیادہ شدت اختیار کر جائیں گی۔ یعنی کثرت سے لڑائیاں لڑی جائیں گی۔ جیسے میں اپنے سابقہ آرٹیکل " امام مہدی سے قبل کن جماعتوں  میں زبردست جنگ ہوگی" میں تفصیلا ذکر کر چکا ہوں۔

جیسا کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا " قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ میراث کی تقسیم نہ رک جائے گی اور مالِ غنیمت کے حصول پر خوشی نہ ہوگی۔

اس آرٹیکل کا مطالعہ کرنے کے بعد اس دی گئی حدیث کی اہمیت مزید واضح ہو جائے گی۔ کہ لڑی جانے والی جنگ کس قدر ہولناک ہوگی کہ اگر ایک شخص کے سو بیٹے جنگ لڑیں گے تو نناوے قتل ہو جائیں گے اور مخص ایک بیٹا باقی بچے گا۔ اب اس ضمن میں میراث کی تقسیم کن مابین ہو سکے گی اور جو باقی بچ جائیں گے وہ مالِ غنیمت لے کر بھی کہاں خرچ کریں گے۔ واللہ اعلم

وقت کا کھیل بھی کیا عجیب کھیل ہے ایک وہ زمانہ ہوگا کہ لوگوں کے پاس وافر مقدار میں مال و زر ہو گا اور سب کچھ ہونے کے بعد بھی دکھی ہونگے یعنی خوش نہیں ہونگے۔ اور میراث کی تقسیم بھی رک جائے گی شاید وارث بھی لاشوں کے ڈھیر میں کہیں دفن ہونگے۔

اور ایک وقت یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچایا گیا ہے کہ لوگوں کا حق مت مارو، یتیموں کا مال مت کھاؤ، زمین میں عدل وانصاف قائم رکھو، آپس میں اچھی معاشرت قائم کرو، حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا خاص خیال رکھو۔ لیکن مردہ دلی، سفاکی، ظلم وجبر، گمراہی کے اندھیروں میں ٹمٹماتا عدل کا بول بالا محض امیروں کو خوش کرنے اور غریبوں کا حق مارنے کے لئے قائم دائم ہے۔ جس انصاف سے آج کے لوگ خوش نہ ہیں تو آنے والے کل کے لوگ کیسے خوش ہونگے۔ سچ بات تو یہ کہ یہ محض دھوکے کا سامان ہے۔

 

  

0/Post a Comment/Comments

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔