اسلامی
معاشرت میں قبروں کی زیارت کا ایک خاص مقام ہے اور نبی کریم ﷺ نے اس کی اجازت دی
ہے، لیکن اس کے لیے شرعی حدود اور احکامات موجود ہیں۔ مردوں اور عورتوں کے لیے
قبروں پر جانے کا حکم، ائمہ کرام کے اقوال، بدعات جاہلیت اور معاشرتی نقصانات کے
بارے میں یہاں تفصیل دی جا رہی ہے۔
قرآن
مجید میں قبروں کی زیارت سے متعلق براہِ راست حکم نہیں آیا، لیکن قرآن نے ہمیں نصیحت
کے طور پر موت اور آخرت کو یاد رکھنے کا حکم دیا ہے: "تمہیں کثرت کی طلب نے غافل کر دیا، یہاں تک کہ تم نے قبریں
جا دیکھیں۔"
نبی
کریم ﷺ نے قبروں کی زیارت کی اجازت اس لیے دی تاکہ اس سے انسان کو آخرت کی یاد
حاصل ہو اور یہ دل کی نرمی کا سبب بنے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: "میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، اب تم زیارت کیا
کرو کیونکہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہے۔"
اسلامی
روایات میں مردوں کو قبروں کی زیارت کی ترغیب دی گئی ہے، لیکن عورتوں کے بارے میں
علماء نے مختلف آراء دی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو قبروں کی زیارت سے منع کیا،
اور بعض احادیث میں اس کی سختی سے ممانعت آئی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی۔"علماء
نے اس حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ عورتوں کے جذباتی ہونے کے باعث یہ حکم آیا۔
عورتیں عام طور پر جذباتی ہوتی ہیں اور روتی پیٹتی ہیں جس سے شرعی مسائل پیدا ہوتے
ہیں۔
چاروں
مکاتب فکر یعنی امام ابو حنیفہؒ، امام شافعیؒ، امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ
میں سے اکثر فقہاء نے عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت کو منع کیا ہے۔ اس ممانعت کا
سبب ان کے جذبات کا غالب آنا اور شرعی حدود کی خلاف ورزی کا اندیشہ ہے۔
امام ابو حنیفہؒ: قبروں کی زیارت کے لیے مردوں کو
اجازت دی گئی ہے، لیکن عورتوں کو مشروط اجازت ہے، یعنی وہ اگر خود کو قابو میں رکھ
سکیں تو زیارت کی جاسکتی ہے۔
امام مالکؒ: عورتوں کے لیے قبروں پر جانے کی اجازت محدود ہے، وہ بھی اس
شرط پر کہ وہ شرعی حدود کی پابند ہوں اور غیر ضروری کام نہ کریں۔
امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ: یہ دونوں ائمہ بھی عورتوں کی قبروں پر جانے کو مستحسن نہیں سمجھتے، خاص طور پر
اس صورت میں جب اس سے شرعی احکامات کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔
عہد
جاہلیت میں مردوں اور عورتوں کا قبروں پر جانا اکثر بدعات اور غیر شرعی رسومات کے
ساتھ منسلک تھا۔ اسلام نے ان روایات کی نفی کی اور مردوں کو قبروں کی زیارت کی
اجازت دی، لیکن اس کے ساتھ شرعی اصول بھی مقرر کیے گئے۔
آج
کے دور میں بھی بعض مقامات پر عورتیں قبروں پر مختلف بدعات انجام دیتی ہیں جیسے
چراغ جلانا، میلے سجانا اور قبروں کو چھونا وغیرہ۔ یہ تمام چیزیں اسلامی تعلیمات
سے منافی ہیں اور دین میں ان کی کوئی جگہ نہیں۔
عرب ممالک: عرب ممالک میں عورتوں کا قبروں پر جانا اکثر محدود ہوتا
ہے، اور وہاں اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
پاکستان اور ہندوستان: ان ممالک میں بعض خواتین قبروں پر جا کر بدعات انجام دیتی
ہیں، جیسے چادریں چڑھانا، دعا مانگنا، جو کہ شریعت میں ممانعت کے دائرے میں آتا
ہے۔
ترکی اور ایران: ان ممالک میں عورتوں کو قبروں پر جانے کی اجازت ہے، لیکن
وہاں بھی بعض بدعات کو فروغ دیا گیا ہے جیسے قبروں پر چادریں چڑھانا وغیرہ۔
عورتوں
کا قبروں پر جانا اور وہاں مختلف غیر شرعی کاموں کو انجام دینا ایک بدعت ہے جس کا
اسلامی تعلیمات میں کوئی ثبوت نہیں۔ بعض مواقع پر اس کا آغاز خرافات پر مبنی روایات
سے ہوا ہے جو لوگوں کو دین سے دور اور بدعات میں مبتلا کرتی ہیں۔
دین میں بگاڑ: لوگ سنت سے دور ہوتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کی بجائے
بدعات کو فروغ دیتے ہیں۔
خواتین کی بے حرمتی: بعض مقامات پر قبروں پر عورتوں کے ساتھ غیر مناسب سلوک
ہوتا ہے، جو کہ معاشرتی بگاڑ کا سبب ہے۔
شرعی احکامات کی خلاف ورزی: عورتیں جذبات میں آ کر گریہ و زاری کرتی ہیں اور بے جا
رسوم ادا کرتی ہیں، جو کہ شرعی اصولوں سے متصادم ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔