مصافحے سے منافقت تک: کیا مسلم رہنما سفارت کاری کے لیے اسلام سے سمجھوتہ کر رہے ہیں؟
Saturday, May 17, 2025
شرف
الدین طوسی مسلم تاریخ کے ان عظیم علماء میں سے ہیں جنہوں نے متعدد شعبہ جات میں
اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ ایک بہترین ریاضی دان، فلکیات دان، تاریخ دان،
اور فلسفی تھے۔ ان کے کاموں نے نہ صرف مسلم دنیا کو متاثر کیا بلکہ یورپ سمیت پوری
دنیا میں ان کے نظریات کو سراہا گیا۔ انہوں نے علم ریاضی اور فلکیات کو نئی بلندیوں
تک پہنچایا اور تاریخ نویسی میں بھی اپنا ایک منفرد مقام بنایا۔
شرف
الدین طوسی کا مکمل نام شرف الدین ابوالحسن علی بن محمد طوسی تھا۔ ان کی پیدائش 1165ء
میں طوس کے علاقے میں ہوئی۔ طوس ایک ایسا خطہ تھا جہاں علم و حکمت کی روایت بہت
پرانی تھی، اور یہی ماحول شرف الدین طوسی کی علمی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔
شرف
الدین طوسی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے طوس میں حاصل کی۔ انہوں نے قرآن، حدیث،
فقہ، اور عربی ادب کی بنیادی تعلیم یہیں حاصل کی۔ اس کے بعد وہ اعلی تعلیم کے حصول
کے لیے دیگر علمی مراکز کی طرف رخ کرتے ہیں۔ انہوں نے ریاضی، فلکیات، فلسفہ، اور
تاریخ جیسے مضامین میں مہارت حاصل کی۔ ان کے اساتذہ میں کئی نامور علماء شامل تھے،
جنہوں نے ان کی علمی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔
2تاریخ طوسی:
یہ کتاب تاریخ نویسی کے میدان میں ایک اہم اضافہ ہے، جس میں انہوں نے اپنے دور کے
واقعات کو تفصیل سے بیان کیا۔
3حکمت نامہ:
اس کتاب میں انہوں نے فلسفہ اور حکمت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
شرف
الدین طوسی نے تعلیم کے میدان میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے نہ صرف خود علم
حاصل کیا بلکہ دوسروں کو بھی علم سکھانے کا بیڑہ اٹھایا۔ انہوں نے کئی مدارس قائم
کیے، جہاں طلباء کو ریاضی، فلکیات، فلسفہ، اور تاریخ جیسے مضامین پڑھائے جاتے تھے۔
ان کے تعلیمی نظریات نے بعد کے دور میں بھی تعلیم کے نظام کو متاثر کیا۔
شرف
الدین طوسی کے ہم عصر اور دوست ابو نصر منصور بھی ایک عظیم عالم تھے۔ ابو نصر
منصور کا سیاست کے بارے میں تصور یہ تھا کہ حکمرانوں کو عوام کی بہتری کے لیے کام
کرنا چاہیے۔ ان کا ماننا تھا کہ سیاست کا مقصد صرف طاقت حاصل کرنا نہیں بلکہ
معاشرے کو بہتر بنانا ہے۔ شرف الدین طوسی بھی ابو نصر منصور کے ان خیالات سے متاثر
تھے اور انہوں نے اپنی تحریروں میں اس کی عکاسی کی۔
شرف
الدین طوسی نے انسان کے بارے میں اپنے نظریات میں یہ بیان کیا کہ انسان ایک ایسی
مخلوق ہے جو علم اور حکمت کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنا سکتا ہے۔ ان کا
ماننا تھا کہ انسان کو اپنی ذات پر غور و فکر کرنا چاہیے اور اپنے اندر موجود صلاحیتوں
کو بروئے کار لانا چاہیے۔
شرف
الدین طوسی کے کاموں کو دور حاضر میں بھی سراہا جاتا ہے۔ ان کی تصانیف کو جدید
سائنس اور تاریخ کے طلباء کے لیے اہم حوالہ جات کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان
کے ریاضیاتی اور فلکیاتی نظریات کو جدید تحقیق میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
شرف
الدین طوسی نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ علم و تحقیق میں گزارا۔ ان کی وفات 1244ء میں
ہوئی۔ ان کا انتقال بھی طوس کے علاقے میں ہوا، جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے بیشتر
سال گزارے تھے۔ ان کی وفات کے بعد بھی ان کے علمی کارنامے زندہ رہے اور آنے والی
نسلوں کے لیے راہنمائی کا ذریعہ بنے۔
0 Comments
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔