عدت
عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب "گنتی" یا "مدت" ہے۔ شریعتِ
اسلامیہ میں عدت سے مراد وہ مخصوص مدت ہے جو عورت کو شوہر کی وفات یا طلاق کے بعد
گزارنی ہوتی ہے۔ اس مدت کے دوران عورت کو کچھ پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے
کہ نئے نکاح سے پرہیز کرنا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"اور جو عورتیں تم میں سے بیوہ ہو جائیں، وہ اپنے آپ کو چار
ماہ دس دن تک روکے رکھیں۔" (البقرہ: 234)
عدت
کا مقصد کئی اہم شرعی اور معاشرتی فوائد پر مبنی ہے۔ پہلا مقصد یہ ہے کہ اگر عورت
حاملہ ہو تو حمل کی صحیح مدت کا تعین کیا جا سکے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ شوہر کی
وفات یا طلاق کے بعد عورت کو ذہنی اور جذباتی طور پر پرسکون ہونے کا موقع ملے۔ تیسرا
مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں خاندانی نظام کی حفاظت ہو اور نسب کے اختلاط کا امکان نہ
رہے۔
عدت
صرف شادی شدہ عورتوں پر لاگو ہوتی ہے، چاہے شادی کا تعلق نکاحِ صحیح سے ہو یا
نکاحِ فاسد سے۔ بیوہ عورتیں، مطلقہ عورتیں، اور وہ عورتیں جن کے شوہر فوت ہو گئے
ہوں، سب پر عدت واجب ہوتی ہے۔ البتہ، اگر نکاح ہی نہ ہوا ہو تو عدت واجب نہیں ہوتی۔
دورِ
جاہلیت میں عدت کا تصور موجود تھا، لیکن اس کی مدت اور احکامات شریعتِ اسلامیہ سے
مختلف تھے۔ عرب معاشرے میں عورت کو ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے تک عدت گزارنی پڑتی
تھی، اور بعض اوقات وہ سیاہ کپڑے پہن کر غم میں ڈوبی رہتی تھی۔ اسلام نے اس
ظالمانہ روایت کو ختم کر کے عدت کو معقول اور انسانی بنایا۔
عدت کی مدت کی تفصیل
1. اگر عورت حاملہ ہے تو اس کی عدت بچہ جننے
تک ہے.
2. اگر عورت حیض والی ہے تو اس کی عدت تین
مکمل حیض ہے.
3. اگر عورت کمر عمری یا بڑی عمر کی وجہ سے
حیض نہیں آتا یا عمر کے حساب سے بالغہ ہوئی اور ابھی تک حیض نہیں آیا تو عدت تین
مہینے ہے.
4. اگر قمری مہینے کی پہلی تاریخ کو طلاق ہوئی
تو تین مہینے عدت ہے.
5. اگر پہلی تاریخ کے علاوہ طلاق ہوئی تو 90
دن عدت ہوگی.
6. اگر فقط نکاح ہوا ہو اور ہمبستری یا خلوتِ
صحیحہ نہیں ہوئی تو طلاق یافتہ کی کوئی عدت نہیں.
عدت کے دوران نہ تمھیں یہ
حق حاصل ہے کہ ان کو گھر سے نکالو اور نہ بیوی کے لیے جائز ہے کہ وہ وہاں سے نکل
کھڑی ہوں.
عدت کے دوران عورت کو پردہ کرنے کے احکامات درج ذیل
ہیں:
1. غیر محرم مردوں سے پردہ: عدت کے دوران عورت کو غیر محرم مردوں سے پردہ کرنا ضروری
ہے۔ وہ اپنے چہرے اور جسم کو ڈھانپ کر رکھے، بالخصوص اگر وہ گھر سے باہر نکلے۔
2.محرم مردوں سے پردہ: محرم مردوں (جیسے باپ، بھائی، بیٹا وغیرہ) سے پردہ کرنا ضروری نہیں ہے، لیکن
عورت کو چاہیے کہ وہ معمول کے لباس میں رہے اور بے تکلفی سے بچے۔
3. سسرال والوں سے پردہ:اگر عدت طلاق کی وجہ سے ہو تو عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے سسرال
والوں (جیسے ساس، سسر، دیور، نند وغیرہ) سے پردہ کرے، کیونکہ اب وہ ان کے لیے غیر
محرم ہو گئی ہے۔
4.گھر میں رہنا:
عدت کے دوران عورت کو گھر میں رہنا چاہیے اور بلا ضرورت باہر نہیں نکلنا چاہیے۔
اگر باہر جانا ضروری ہو تو پردے کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔
5. زیب و زینت سے پرہیز: عدت کے دوران عورت کو زیب و زینت اور بناؤ سنگھار سے پرہیز کرنا چاہیے، کیونکہ
یہ زمانہ غم اور احتیاط کا ہوتا ہے۔
عدت کی تین اقسام ہیں:
1 عدتِ وفات:
شوہر کی وفات پر عورت کو چار ماہ دس دن کی عدت گزارنی ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ حاملہ
نہ ہو۔ اگر وہ حاملہ ہو تو عدت وضع حمل تک ہوتی ہے۔
2عدتِ طلاق: طلاق
کی صورت میں عورت کو تین حیض کی عدت گزارنی ہوتی ہے۔ اگر وہ حیض نہ دیکھتی ہو تو تین
ماہ کی عدت ہوتی ہے۔
3عدتِ حمل:اگر
عورت حاملہ ہو تو اس کی عدت بچے کی پیدائش تک ہوتی ہے، چاہے شوہر کی وفات ہو یا
طلاق۔
کن لوگوں کو شریعت نے عدت نہ کرنے کی اجازت دی ہے؟
شریعت
نے کچھ خاص حالات میں عورت کو عدت نہ کرنے کی اجازت دی ہے۔ مثلاً:
-1اگر نکاح ہی نہ ہوا ہو تو عدت واجب نہیں۔
-2 اگر عورت کا شوہر غائب ہو اور اس کی موت کا یقین نہ ہو تو
عدت واجب نہیں، جب تک کہ موت کی تصدیق نہ ہو جائے۔
-3 اگر عورت کا نکاح فاسد ہو تو عدت واجب نہیں۔
دورِ
حاضر میں بعض لوگ عدت کے احکامات کو ہلکے میں لے رہے ہیں۔ کچھ عورتیں عدت کی مدت
کو نظرانداز کر کے فوری طور پر نئے رشتے کر لیتی ہیں، جو شرعی طور پر ناجائز ہے۔
بعض معاشروں میں عدت کے احکامات کو فرسودہ قرار دے کر ان کی اہمیت کو کم کیا جا
رہا ہے۔ یہ رویہ شریعت کے خلاف ہے اور معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔
عدت
نہ کرنا شرعی طور پر گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عدت کے احکامات کو واضح فرمایا ہے،
اور ان کی خلاف ورزی کرنا اللہ کی نافرمانی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: "جو عورت عدت کی پابندی نہ کرے، وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گی۔"
اسلام
میں عدت کے دوران عورت کو کچھ خاص احکامات کا پابند بنایا گیا ہے:
-1 عورت کو گھر میں رہنا چاہیے، بلا ضرورت باہر نہ نکلے۔
-2 زیب و زینت اور خوشبو کا استعمال نہ کرے۔
-3 نئے نکاح سے پرہیز کرے۔
-4 اگر عدتِ وفات ہو تو عورت کو سوگ کے طور پر سادہ زندگی
گزارنی چاہیے۔
ائمہ
کرام کے نزدیک عدت کرنا فرض ہے، اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے پر گناہ ہوگا۔ امام
ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک عدت کی پابندی نہ کرنے والی عورت گناہگار ہوگی، اور
اسے توبہ کرنی چاہیے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک عدت نہ کرنے والی عورت کا نکاح
باطل ہوگا۔ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کے نزدیک عدت کی پابندی
کرنا عورت پر واجب ہے، اور اس کی خلاف ورزی کرنے والی عورت کو سزا دی جائے گی۔
دورِ
حاضر میں عدت سے متعلق کئی خرافات اور غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، جو شریعتِ اسلامیہ
کے واضح احکامات کے برعکس ہیں۔ یہ خرافات نہ صرف شرعی اصولوں کی خلاف ورزی ہیں،
بلکہ معاشرتی اور خاندانی نظام کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ درج ذیل کچھ اہم خرافات ہیں
جو دورِ حاضر میں عدت کے ساتھ کی جا رہی ہیں:
1.عدت کی اہمیت کو کم
سمجھنا
بعض لوگ عدت کو ایک فرسودہ روایت سمجھتے ہیں اور
اسے غیر ضروری قرار دیتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جدید دور میں عدت کی کوئی اہمیت
نہیں، حالانکہ عدت کا مقصد خاندانی نظام کی حفاظت اور نسب کے تحفظ جیسے اہم معاشرتی
فوائد ہیں۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے: "اور جو عورتیں تم میں سے بیوہ ہو جائیں،
وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن تک روکے رکھیں۔" اس آیت سے واضح ہے کہ عدت ایک شرعی حکم ہے،
نہ کہ محض ایک رسم۔
2. عدت کی مدت کو کم کرنا یا
نظرانداز کرنا
کچھ
لوگ عدت کی مدت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا اسے بالکل نظرانداز کر دیتے ہیں۔
مثلاً، بعض عورتیں شوہر کی وفات یا طلاق کے فوراً بعد نئے رشتے کر لیتی ہیں، جو
شرعی طور پر ناجائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو عورت عدت کی پابندی نہ کرے، وہ اللہ
اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گی۔"
3.عدت کے دوران زیب و زینت
اور معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لینا
بعض
عورتیں عدت کے دوران زیب و زینت، میک اپ، اور خوشبو کا استعمال کرتی ہیں، حالانکہ
شریعت میں اس سے منع کیا گیا ہے۔ عدت کا مقصد عورت کو ایک پرسکون اور سادہ زندگی
گزارنے کا موقع دینا ہے، نہ کہ معاشرتی تقریبات میں حصہ لینا۔اسی طرح، بعض عورتیں
عدت کے دوران سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر شیئر کرتی ہیں یا غیر مردوں سے بات چیت
کرتی ہیں، جو شرعی اصولوں کے خلاف ہے۔
4.عدت کے دوران نئے نکاح کی
اجازت سمجھنا
بعض
لوگ یہ غلط فہمی رکھتے ہیں کہ عدت کے دوران نئے نکاح کی اجازت ہے، حالانکہ یہ
بالکل غلط ہے۔ عدت کی مدت پوری ہونے سے پہلے کسی بھی قسم کا نکاح حرام ہے۔ -قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "اور تمہاری عورتیں جو عدت گزار رہی ہوں،
انہیں نکاح میں لانے کی کوشش نہ کرو جب تک کہ وہ اپنی عدت پوری نہ کر لیں۔"
5. عدت کو صرف بیوہ عورتوں
سے متعلق سمجھنا
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عدت صرف بیوہ عورتوں
کے لیے ہے، حالانکہ یہ تصور غلط ہے۔ عدت طلاق یافتہ عورتوں کے لیے بھی عدت اسلام
کا ایک اہم حکم ہے جو خاندانی نظام کی حفاظت اور نسب کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ اس
کی پابندی کرنا ہر مسلمان عورت پر فرض ہے، اور اس کی خلاف ورزی کرنا گناہ ہے۔ دورِ
حاضر میں عدت کے احکامات کو نظرانداز کرنا معاشرتی بگاڑ کا باعث بن رہا ہے، لہٰذا
ہمیں شریعت کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔