ٹک ٹاک اور ریلس کیا یہ زمانہ قریب ہو جانے کی جدید تفسیر ہے؟









آج کے ڈیجیٹل دور میں جہاں ٹیکنالوجی نے زندگی کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، وہیں ٹک ٹاک اور ریلس جیسے شارٹ ویڈیو پلیٹ فارمز نے نوجوان نسل کی توجہ کا مرکز بن کر ابھرے ہیں۔ یہ پلیٹ فارمز تفریح، معلومات اور اظہار رائے کا ایک نیا ذریعہ بن چکے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے معاشرتی اور اخلاقی اثرات پر بھی بحث جاری ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے "زمانہ قریب ہو جانا" کا تصور قیامت کی چھوٹی نشانیوں میں سے ایک ہے، جو وقت کی تیزی سے گزر جانے اور معاشرتی انحطاط کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ جدید ڈیجیٹل رجحانات، خاص طور پر ان کا منفی استعمال، اسلامی تعلیمات میں بیان کردہ "زمانہ قریب ہو جانا" کی ایک جدید تفسیر پیش کر رہے ہیں؟ آئیے اس پر گہرائی سے غور کرتے ہیں۔

چھوٹی قیامت کی نشانیاں اور موجودہ دور:


احادیث نبوی ﷺ میں چھوٹی قیامت کی کئی نشانیاں بیان کی گئی ہیں، جن میں وقت میں برکت کا ختم ہونا، علم کا اٹھ جانا، جہالت کا عام ہونا، فواحش کا پھیلنا، اور امانت کا اٹھ جانا شامل ہیں۔ اگر ہم ٹک ٹاک اور ریلس کے موجودہ استعمال کا جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ کس طرح ان پلیٹ فارمز کے ذریعے وقت کا بے تحاشا ضیاع ہو رہا ہے۔ نوجوان کئی گھنٹے ان ویڈیوز کو اسکرول کرتے گزار دیتے ہیں، جو انھیں تعلیمی اور مفید سرگرمیوں سے دور کر دیتا ہے۔ سطحی معلومات کی فراوانی اور گہرائی سے سوچ و بچار کا فقدان بھی علم کے اٹھ جانے کی ایک صورت ہے۔ اس کے علاوہ، ان پلیٹ فارمز پر فواحش، بیہودگی، اور غیر اخلاقی مواد کا پرچار اس قدر عام ہو چکا ہے کہ یہ معاشرتی اقدار کو تیزی سے پامال کر رہا ہے۔ یہ سب نشانیاں، اپنے اپنے انداز میں، "زمانہ قریب ہو جانا" کے تصور کی عکاسی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

فقہی مکاتب فکر کا تناظر


اسلامی فقہ میں لہو و لعب، فواحش اور وقت کے صحیح استعمال پر واضح تعلیمات موجود ہیں۔ ائمہ اربعہ، یعنی امام شافعی، امام مالکی، امام حنبلی، اور امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ نے اپنی فقہی آراء میں ان چیزوں کی ممانعت کی ہے جو انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کریں، معاشرتی بگاڑ کا باعث بنیں یا اس کے وقت کا ضیاع کریں۔ اگرچہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز ان کے دور میں موجود نہیں تھے، لیکن ان کے وضع کردہ اصول اور اجتہاد کے طریقے ہمیں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ان اصولوں کی روشنی میں، ایسے ڈیجیٹل مواد کا استعمال جو فحاشی، عریانیت، غیبت، جھوٹ، یا کسی بھی قسم کی اخلاقی گراوٹ کو فروغ دے، اسلامی اصولوں کے سراسر منافی ہے۔ وقت کو لایعنی سرگرمیوں میں صرف کرنا بھی "فضول خرچی" کے زمرے میں آ سکتا ہے، جس کی اسلام میں حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ ائمہ کا اجماع اس بات پر ہے کہ ہر وہ چیز جو معاشرے میں فتنہ و فساد کا باعث بنے یا دین اور اخلاق کو نقصان پہنچائے، اس سے اجتناب لازم ہے۔

معاشرتی حالت اور اخلاقی گراوٹ:


ٹک ٹاک اور ریلس نے ہماری معاشرتی اقدار کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان پلیٹ فارمز نے عریانیت اور بے حیائی کو اس قدر عام کر دیا ہے کہ اب شرم و حیا جیسی بنیادی اسلامی اقدار اپنی اہمیت کھوتی جا رہی ہیں۔ نامحرموں کے درمیان بے تکلفی، جسمانی نمائش، اور سستی شہرت کی ہوس نے معاشرتی تعلقات کو کمزور کیا ہے۔ اس کے علاوہ، ان پلیٹ فارمز پر دوسروں کی غیبت کرنا، حسد کا اظہار، اور منفی تبصرے عام ہو گئے ہیں، جو دلوں میں کدورت پیدا کرتے ہیں۔ یہ سب چیزیں ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہیں۔

نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت:


اس صورتحال میں والدین اور اساتذہ کا کردار نہایت اہم ہو جاتا ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ نوجوانوں کو ڈیجیٹل میڈیا کے منفی اثرات سے آگاہ کریں اور انہیں یہ سکھائیں کہ کس طرح ان پلیٹ فارمز کو ذمہ داری سے استعمال کیا جائے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں میڈیا لٹریسی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ضروری ہے تاکہ بچے اچھے اور برے مواد میں تمیز کر سکیں۔ اس کے علاوہ، نوجوانوں کو متبادل اور مثبت تفریحی سرگرمیوں کی طرف راغب کرنا چاہیے، جیسے کھیل، مطالعہ، فنون لطیفہ، اور سماجی خدمات۔ سب سے اہم یہ کہ ہمیں خود مثبت اور تعمیری مواد کی تیاری اور فروغ دینا چاہیے جو اسلامی اقدار کے مطابق ہو اور نوجوانوں کو صحیح سمت دکھا سکے۔

اسلامی ذمہ داریاں اور توازن:


ایک مسلمان کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا مثبت استعمال کریں۔ ان پلیٹ فارمز کو دعوت دین، علم کے فروغ، نیکی کی ترغیب، اور معاشرتی بھلائی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی ہمیں "اعتکاف" اور "انفرادی محاسبہ" کی اہمیت کو نہیں بھولنا چاہیے۔ روزمرہ کی زندگی میں کچھ وقت نکال کر اپنی ذات کا جائزہ لینا، اللہ کی عبادت کرنا، اور دنیاوی مشاغل سے کٹ کر آخرت پر غور کرنا ضروری ہے۔ دنیاوی ترقی کے ساتھ ساتھ اخروی کامیابی کے درمیان توازن قائم کرنا ہی ہمارے دین کا تقاضا ہے۔

 

کیا ٹک ٹاک اور ریلس واقعی "زمانہ قریب ہو جانا" کی عکاسی کر رہے ہیں؟ اس کا جواب شاید یہ ہے کہ یہ پلیٹ فارمز بذات خود برے نہیں، بلکہ ان کا غلط استعمال ہی ان کو اس سمت لے جاتا ہے۔ ان کا بے جا اور منفی استعمال یقیناً ان نشانیوں کی جھلک پیش کرتا ہے جو قیامت کے قریب ہونے کی دلیل ہیں۔ مسلمانوں کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ہوش مندی کا مظاہرہ کریں، اپنی اسلامی اقدار پر سختی سے قائم رہیں، اور جدیدیت کا سامنا کرتے ہوئے بھی اپنی روحانی اور اخلاقی بنیادوں کو مضبوط رکھیں۔ ڈیجیٹل دنیا کی چکا چوند میں ہمیں اپنی شناخت، اپنے مقاصد، اور اپنی آخرت کو نہیں بھولنا چاہیے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو اس سیلاب سے بچائیں اور انہیں ایک مضبوط اور باوقار مستقبل کی طرف رہنمائی دیں۔

  


0 Comments