علامہ محمد اقبال محض ایک
شاعر ہی نہیں، بلکہ ایک مفکر، مصلح اور نوجوان نسل کے لیے ایک رہنما ہیں۔ ان کی
شاعری اور فلسفہ محض الفاظ کا جادو نہیں، بلکہ ایک متحرک اور عمل پر زور دینے والی
تحریک ہے۔ اقبال نے نوجوانوں کو ہمیشہ "خودی"
(selfhood) کی تعمیر، علم کے حصول، اور عمل پیہم کی
تلقین کی۔ ان کے اقوال آج بھی اُسی طرح تازہ اور قابلِ عمل ہیں جیسے ایک صدی پہلے
تھے۔ یہ محض شعری اقوال نہیں بلکہ زندگی گزارنے کے اصول ہیں۔
1. خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے،
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔
یہ اقبال کے فلسفے کی بنیاد
ہے۔ "خودی" سے مراد خودشناسی، خود اعتمادی، اور اپنی انفرادیت اور قوتوں
کا احساس ہے۔ اقبال چاہتے ہیں کہ انسان اپنی شخصیت کو اس قدر بلند اور مضبوط بنائے
کہ وہ حالات کا رخ موڑ سکے، نہ کہ حالات کے رحم و کرم پر ہو۔
1. اعتماد کی تعمیر اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھیں۔
خود کو کم تر مت سمجھیں۔
2. مثبت سوچ مشکلات کو چیلنج سمجھ کر قبول کریں،
نہ کہ ناکامی کی وجہ۔
3. مقصد کی واضحیت اپنی زندگی کا مقصد طے کریں۔
جب آپ کو اپنی "رضا" (خواہش) کا پتہ ہوگا، تو فیصلہ سازی آسان ہو جائے گی۔
4. عمل صرف دعا پر انحصار نہ کریں، بلکہ اپنی
کوششوں پر یقین رکھتے ہوئے محنت کریں۔
2. ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں، ابھی عشق
کے امتحاں اور بھی ہیں۔
یہ
quote نوجوانوں کے لیے تساہل اور قناعت کے خلاف ایک
طاقتور دعوتِ عمل ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ تمہاری کامیابیاں چاہے کتنی ہی بڑی کیوں
نہ ہوں، تمہیں رکنا نہیں ہے۔ ہمیشہ بڑے خواب دیکھنے اور ان کے حصول کے لیے کوشاں
رہنے کی ضرورت ہے۔
1. مسلسل جدوجہد کسی ایک کامیابی پر مطمئن نہ
ہوں۔ اگلا ہدف طے کریں۔
2. بڑے خواب دیکھیں اپنے مقاصد کو وسعت دیں۔
ناممکن کو ممکن بنانے کا عزم رکھیں۔
3. چیلنجوں سے گھبرانا نہیں زندگی میں مشکلات
اور امتحان آتے رہیں گے۔ ان کا مقابلہ عزم و استقلال سے کریں۔
4. علم کی پیاس علم کا سفر کبھی ختم نہیں
ہوتا۔ ہمیشہ سیکھتے رہیں۔
3. یہاں نامہبر اور بھی ہیں، محمدؐ کے چاہنے
والے، تمہارے سوا، تمہیں خوش رہنا چاہیے اے قلبِ غمگین!
نوجوان اکثر مایوسی اور
تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ اکیلا ہے اور اس کی بات کوئی نہیں
سمجھتا۔ اقبال اس quote کے
ذریعے کہتے ہیں کہ تم اکیلے نہیں ہو۔ تمہاری طرح سوچنے والے اور بھی ہیں۔ مایوسی
کو چھوڑو اور اپنے جیسے لوگوں کو ڈھونڈو۔
1. مثبت حلقہ بنائیں اپنے اردگرد ایسے لوگوں کی
کمیونیٹی بنائیں جو آپ کے جذبات، مقاصد اور عزائم کا احترام کریں۔
2. مایوسی سے بچیں یہ سوچ کر مایوس نہ ہوں کہ
آپ کی آواز سنی نہیں جا رہی۔ مسلسل کوشش جاری رکھیں۔
3. امید کو قائم رکھیں یقین رکھیں کہ آپ کے جیسے
بہت سے نوجوان ہیں جو مثبت تبدیلی چاہتے ہیں۔
4. عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی، یہ
خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔
یہ
quote عملیت پسندی پر زور دیتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں
کہ صرف خیالات اور نیتوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ آپ کی زندگی کا معیار اور آخرت کا
انجام، دونوں آپ کے اعمال پر منحصر ہیں۔ انسان اپنے اعمال سے ہی فرشتہ یا شیطان
بنتا ہے۔
1. عمل پر توجہ خواب دیکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں
حقیقت میں بدلنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔
2. ذمہ داری اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کی
ذمہ داری قبول کریں۔ حالات یا دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے سے گریز کریں۔
3. ہر چھوٹا عمل اہم ہے یہ نہ سوچیں کہ صرف
بڑے کام ہی معنی رکھتے ہیں۔ ہر مثبت قدم آپ کو آپ کے مقصد کے قریب لے جاتا ہے۔
5. محنت کش ہے کون جہاں میں، کون ہے محرومِ
روزی؟ جو نہیں محنت کش، وہ کھاتا ہے حرامی کی روزی۔
اقبال محنت اور جائز روزی
کمانے کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ وہ سست اور کاہل انسان کو معاشرے پر بوجھ سمجھتے ہیں۔
یہ quote نوجوانوں
کو یہ سبق دیتی ہے کہ عزت اور خودداری کے ساتھ محنت کر کے کمانا ہی حقیقی کامیابی
ہے۔
1. محنت کی عادت چاہے پڑھائی ہو یا job، پورے خلوص اور محنت سے کام کریں۔
2. جائز روزی
shortcuts اور ناجائز طریقوں سے کمائی سے پرہیز کریں۔
ایمانداری کی کمائی میں برکت ہوتی ہے۔
3. خود انحصاری دوسروں پر انحصار کرنے کے
بجائے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں۔
6. نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر،
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں۔
شاہین (eagle) اقبال کا پسندیدہ استعارہ
ہے جو بلند پروازی، آزادی اور خودداری کی علامت ہے۔ وہ نوجوانوں سے کہتے ہیں کہ تم
شاہین ہو، عام پرندوں کی طرح آسانی اور آرام کے پنجرے میں قید مت ہو جاؤ۔ تمہاری
منزل بلند ہے اور تمہیں مشکلات کا مقابلہ کرنا ہے۔
1. آرام زون سے باہر نکلیں چیلنجز کو قبول کریں۔
آسان راستہ چننے کے بجائے وہ راستہ اختیار کریں جو آپ کی صلاحیتوں کو نکھارے۔
2. بلند
ambitions اپنے مقاصد کو معاشرتی دباؤ یا محدود سوچ کی
وجہ سے چھوٹا مت کریں۔
3. آزادیِ فکر دوسروں کے بنائے ہوئے frameworks میں قید مت رہیں۔ اپنی
سوچ کو آزاد رکھیں۔
7. مردِ مومن کی یہ پہچان ہے، خودی ہو جس کی ایمان،
زماں اور مکاں سے ماورا، زماں اور مکاں کا امام۔
ایک حقیقی مومن (believer) وہ ہے جس کی خودی اس کا ایمان
بن جاتی ہے۔ وہ وقت (زماں) اور مکان (مکاں) کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے۔ یعنی وہ
حالات کے دباؤ میں نہیں آتا اور نہ ہی کسی ایک جگہ تک محدود رہتا ہے۔ وہ تو خود
زمان و مکان کا رہنما (امام) بن جاتا ہے۔
1. اصول پر قائم رہنا مشکل حالات میں بھی اپنے
اصولوں اور ایمان پر ڈٹے رہیں۔
2. رہنمائی کا جذبہ اپنی مضبوط شخصیت کے ذریعے
دوسروں کے لیے رول ماڈل بننے کی کوشش کریں۔
3. وسعتِ نظری اپنی سوچ کو تنگ دائروں سے نکال
کر عالمگیر سطح پر سوچیں۔
8. علم میں بھی سرور ہے، جس طرح عشق میں لذت،
مسلماں کو مسلماں کر دیا ہے اس نے فلسفہ نے۔
اقبال علم کے بہت بڑے حامی
تھے، لیکن وہ وہ علم چاہتے تھے جو عمل پر ابھارے۔ وہ کہتے ہیں کہ حقیقی علم وہ ہے
جس میں وہی سرور اور لذت ہو جو عشق میں ہوتی ہے۔ اور یہی علم ہے جس نے مسلمان کو
حقیقی مسلمان بنایا (یعنی اندلس اور بغداد کے دورِ عروج میں)۔
1. علم کے لیے محبت علم حاصل کرنا صرف ڈگری کا
حصول نہیں، بلکہ ایک passion ہونا
چاہیے۔
2. تنقیدی سوچ روٹی رٹا
learning کے بجائے علم کو سمجھیں، اس پر غور کریں
اور اسے اپنی زندگی پر لاگو کریں۔
3. مقصدی علم ایسا علم حاصل کریں جو آپ کے اور
معاشرے کے لیے مفید ہو۔
9. غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں،
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں۔
غلامی صرف بیرونی نہیں
ہوتی۔ اقبال کہتے ہیں کہ اگر ذہن غلام ہو، خود اعتمادی نہ ہو، اور یقین (belief) کمزور ہو تو پھر چاہے آپ
کے پاس کتنی ہی طاقت (شمشیر) اور حکمتِ عملی (تدبیر) کیوں نہ ہو، وہ بے کار ہے۔ حقیقی
آزادی کے لیے اپنے اندر یقین کا ذوق (شوق) پیدا کرنا ہوگا۔
1. ذہنی آزادی مفروضوں، خوف، اور منفی سوچ کی
زنجیروں کو توڑیں۔
2. عزم کی طاقت اپنے مقصد پر پختہ یقین رکھیں۔
یہی یقین آپ کو ہر مشکل سے نکال سکتا ہے۔
3. دوسروں کی تقلید سے گریز اپنی راہ خود بنائیں۔
دوسروں کے نقشِ قدم پر چلنے کی بجائے اپنی پہچان بنائیں۔
10. قیامت ہے کہ ہر اک نفس ہے صاحبِ فکر،
خردمندوں کے لیے اس دور میں ہے یہی نشانی۔
آج کا دور معلومات کا دور
ہے، جہاں ہر کوئی اپنے آپ کو دانشور سمجھتا ہے۔ اقبال نے اس کی پیشینگائی کرتے
ہوئے کہا تھا کہ یہ قیامت کی نشانی ہے کہ ہر شخص اپنے آپ کو صاحبِ فکر سمجھنے لگے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی دانشوروں (خردمندوں) کے لیے یہی اس دور کی پہچان ہے یعنی
جعلی دانش اور حقیقی علم میں فرق کرنا۔
1. حقیقی علم کی تلاش سوشل میڈیا اور surface-level information پر
انحصار نہ کریں۔ گہرائی میں جاکر علم حاصل کریں۔
2. تنقیدی تجزیہ ہر سنی سنائی بات پر یقین نہ
کریں۔ اس کی تحقیق کریں، تنقیدی نظر سے دیکھیں اور پھر اسے قبول کریں۔
3. معیاری علم کو فروغ دیں خود بھی معیاری علم
حاصل کریں اور دوسروں میں بھی اس کی ترویج کریں۔
یاد رکھنے کے لیے اہم نکات (Points to Remember)
خودی کی تعمیر
اقبال کی تمام تعلیمات کا محور "خودی" ہے اپنی صلاحیتوں پر اعتماد،
خودشناسی اور خود اعتمادی۔
خواب اور خیالات
کو عمل کے بغیر کچھ حاصل نہیں۔ کامیابی کا راز مسلسل محنت اور عمل میں پنہاں ہے۔
بلند ہمتی کبھی بھی
چھوٹے مقاصد پر مطمئن نہ ہوں۔ ہمیشہ ستاروں سے آگے کے جہان کو دیکھنے اور پانے کا
عزم رکھیں۔
علم کی فراست علم
کو ڈگری تک محدود نہ رکھیں۔ اسے ایک passion کی
طرح حاصل کریں اور اسے معاشرے کی بہتری کے لیے استعمال کریں۔
ذہنی غلامی سے
آزادی سب سے بڑی آزادی دوسروں کی سوچ اور خوف سے آزادی ہے۔ اپنے یقین اور اصولوں
پر مضبوطی سے قائم رہیں۔
اقبال کے یہ اقوال محض
پڑھنے کے لیے نہیں، بلکہ انہیں اپنی روزمرہ زندگی
کا حصہ بنانے کے لیے ہیں۔ ان پر غور کریں، انہیں سمجھیں
اور پھر ان کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں۔ یہی اقبال کے فلسفے کو زندہ رکھنے اور
ایک بہتر فرد اور بہتر معاشرے کی تعمیر کی راہ ہے۔
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔