وقت ایک عظیم نعمت اور
اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی بنیادی سرمائے میں سے ہے۔ یہ زندگی کا وہ حصہ ہے جو ایک
بار گزر جائے تو کبھی واپس نہیں آتا۔ اس کی قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا
جا سکتا ہے کہ قرآن کریم نے مختلف مقامات پر وقت کی اہمیت پر زور دیا ہے اور نبی
اکرم ﷺ نے اپنی احادیث میں اسے غنیمت جاننے کا حکم دیا ہے۔ دورِ جدید میں یہ عمومی
شکایت عام ہے کہ وقت میں "برکت" ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کام پورے نہیں
ہوتے، دن، مہینے اور سال تیزی سے گزر جاتے ہیں، لیکن حاصلِ عمل بہت کم ہوتا ہے۔
لوگ اکثر کہتے سنائی دیتے ہیں کہ دن کا آغاز ہوتا ہے اور پلک جھپکتے شام ہو جاتی
ہے، مگر اہم کام تشنہ تکمیل رہتے ہیں۔
کیا واقعی وقت کی برکت
ختم ہو رہی ہے؟ یا یہ ہمارے اپنے اعمال، نفسیات اور معاشرتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جو غور و فکر کا متقاضی ہے۔ اس مضمون میں ہم قرآن و حدیث کی
روشنی میں اس تصور کا جائزہ لیں گے اور ائمہ اربعہ و دیگر علماء کرام کی آراء کی
روشنی میں اس کے اسباب اور تدارک پر بات کریں گے۔
برکت کے تصور کا فہم
لغوی اعتبار سے
"برکت" کا معنی ہے "افزونی، ثبوت، بڑھنا، پائیداری، مستقل نیکی اور
خیر کثیر"۔ شرعی اصطلاح میں برکت سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی چیز میں
غیر معمولی خیر، اضافہ اور پائیداری کا اِمتزاج ہے۔ یہ صرف مادی اضافہ نہیں ہوتا
بلکہ کیفیت اور اثرات میں بھی غیر معمولی مثبت تبدیلی لاتی ہے۔
قرآن مجید
میں برکت کا ذکر:
قرآن مجید میں برکت کا
ذکر ایک حقیقت کے طور پر کیا گیا ہے جو اللہ کے فضل سے نازل ہوتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے "اگر اہلِ
قریہ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول
دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کو ان کے کرتوتوں کی پاداش میں پکڑ لیا۔" (سورۃ الاعراف 96) یہ آیت واضح کرتی ہے کہ
برکت کا تعلق ایمان اور تقویٰ سے ہے۔
اسی طرح، رزق میں برکت کے حوالے سے فرمایا "اللہ رزق کو جس کے لیے چاہتا ہے کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ بھی کرتا
ہے اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔"
(سورۃ الرعد: 26) یعنی کشادگی اور تنگی دونوں
اللہ کے حکم سے ہوتی ہیں۔
احادیث مبارکہ میں وقت کی برکت:
نبی کریم ﷺ نے وقت میں برکت کے حصول کے لیے دعا فرمائی: "اَللَّهُمَّ بَارِكْ لِي
فِي وَقْتِي"
اے اللہ! میرے
وقت میں برکت عطا فرما۔ یہ دعا اس بات کی دلیل
ہے کہ وقت میں برکت ایک ایسی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ سے طلب کی جانی چاہیے۔ ابتدائی امت میں تھوڑے عمل پر زیادہ
ثواب ملنا برکت کی نشانی تھی، جسے "خیر القرون" (بہترین زمانے) سے تعبیر
کیا گیا۔ زمانہ کے قریب
ہونے کی پیش گوئی بھی احادیث میں موجود ہے، جسے بعض لوگ وقت کی تیزی سے تعبیر کرتے
ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "قریب ہے کہ زمانہ (ایسے) گزرے گا جیسے ایک
دن گزرتا ہے"
صحیح بخاری و مسلم۔ یہ حدیث وقت کی تیزی کی ایک علامت
بیان کرتی ہے جو قیامت کی نشانیوں میں سے ہے نہ کہ برکت کے خاتمے کی۔ برکت کے
خاتمے اور وقت کے تیز گزرنے میں فرق ہے؛ برکت کے خاتمے سے مراد اعمال کا بے ثمر
ہونا ہے جبکہ وقت کی تیزی فطری یا علامتی ہو سکتی ہے۔
وقت میں برکت ختم ہونے کے اسباب
علماء اسلام نے وقت میں
برکت کی کمی کے کئی اسباب بیان کیے ہیں جن کا تعلق فرد کے اعمال اور معاشرتی رویوں
سے ہے۔
گناہوں اور معاصی کا کثرت سے ارتکاب
گناہ اور نافرمانی برکت کے سلب ہونے کا سب سے بڑا سبب
ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ گناہوں کو رزق اور برکت میں کمی کا بنیادی سبب
قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک جب انسان اللہ کی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو اللہ اس کی
زندگی سے خیر و برکت کو اٹھا لیتا ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ معاشرے میں ظلم و
ناانصافی کے پھیلاؤ سے عام برکات اٹھا لی جاتی ہیں۔ جب معاشرہ حقوق اللہ اور حقوق
العباد کی پامالی کا شکار ہو جائے تو انفرادی اور اجتماعی زندگی سے سکون اور
اطمینان چھن جاتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
"اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ
تمہارے اپنے ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں کے سبب سے ہے، اور وہ بہت سی باتوں کو تو
معاف بھی فرما دیتا ہے۔" سورۃ
الشوریٰ 30
ایمان میں کمزوری اور اللہ پر توکل کی کمی:
ایمان کی مضبوطی اور اللہ پر کامل توکل برکت کے حصول کا
ذریعہ ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ عمل کی صحت اور اخلاص نیت کو برکت کا ذریعہ بتاتے
ہیں۔ ان کے نزدیک ریاکاری، دکھاوا اور دنیاوی مقاصد کے لیے کیے گئے کاموں میں برکت
نہیں ہوتی۔ نیت کا خالص ہونا ضروری ہے۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حلال رزق کھانے پر زور دیتے
تھے، کیونکہ حرام مال کھانے سے نہ صرف ایمان کمزور ہوتا ہے بلکہ عمل میں برکت بھی
ختم ہو جاتی ہے۔ مال حرام سے بننے والا جسم اور اس سے کی جانے والی عبادت میں
روحانیت نہیں رہتی۔
ناشکری اور احسان فراموشی
اللہ کی نعمتوں کی ناشکری برکت کو زائل کر دیتی ہے۔ جب
انسان اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو حقیر سمجھے یا ان پر شکر ادا نہ کرے تو وہ نعمتیں
چھن بھی سکتی ہیں یا ان کی برکت ختم ہو سکتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ "اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ
دوں گا، اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بہت سخت ہے۔" سورۃ
ابراہیم: 7یہ ایک قرآنی وعدہ ہے جو نعمتوں کے اضافے یا ان کے سلب ہونے کا سبب بیان
کرتا ہے۔
فتنوں اور اختلافات کا پھیلاؤ
علماء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ جب امت میں فتنے،
خانہ جنگیاں، باہمی اختلافات اور انتشار بڑھ جاتے ہیں تو اجتماعی برکت بھی چلی
جاتی ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتب میں اس بات پر زور دیا ہے کہ وحدت و
اتفاق میں اللہ کی رحمت اور برکت ہوتی ہے، جبکہ تفرقہ اور اختلاف اللہ کی ناراضگی
اور بے برکتی کا باعث بنتا ہے۔ اختلافات وقت اور توانائی کو منفی مقاصد میں ضائع
کرتے ہیں، جس سے حقیقی ترقی اور فلاح معدوم ہو جاتی ہے۔
دورِ جدید کے چیلنجز اور وقت کی
"برکت" کے حوالے سے غلط فہمیاں
دورِ حاضر میں وقت کی
برکت کے حوالے سے کچھ غلط فہمیاں بھی پیدا ہو گئی ہیں، جنہیں سمجھنا ضروری ہے۔
مادی نظریۂ زندگی:
جدید دور کا سب سے بڑا چیلنج مادی نظریۂ زندگی ہے۔
زندگی کے مقصد کو صرف مادی کامیابی، دولت کے حصول، اور دنیاوی آسائشوں تک محدود
سمجھ لینا انسان کو روحانیت اور اس کے حقیقی مقصد سے دور کر دیتا ہے۔ جب وقت صرف
دنیاوی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال ہو تو اس میں روحانی برکت ختم ہو جاتی ہے۔
غیر ضروری مصروفیات اور وقت کے ضیاع کے
جدید ذرائع
آج کے دور میں وقت کے ضیاع کے بے شمار جدید ذرائع موجود
ہیں۔ سوشل میڈیا پر بے مقصد سکرولنگ، لمبی ویڈیو گیمز یا ویڈیوز کے سیشنز، فضول
گفتگو اور بے کار مشاغل وقت کو "تیزی سے گزرتا" محسوس کراتے ہیں کیونکہ
اس دوران کوئی مفید یا بامعنی کام سرانجام نہیں دیا جاتا۔ یہ چیزیں انسان کو ظاہری
طور پر مصروف رکھتی ہیں مگر باطنی طور پر کھوکھلا کر دیتی ہیں اور وقت میں برکت
نہیں رہتی۔
فطری نظامِ زندگی سے دوری
اسلام نے انسان کے لیے ایک فطری نظامِ زندگی متعین کیا
ہے جس میں رات کو آرام اور دن کو کام کا حکم ہے۔ راتوں کو جاگنا، دن کو دیر تک
سونا، اور نمازوں کے اوقات کی پابندی نہ کرنا سنتِ الٰہی کے خلاف ہے۔ یہ غیر فطری
طرزِ زندگی انسان کی جسمانی، ذہنی اور روحانی صحت کو متاثر کرتا ہے، جس کا نتیجہ
بے برکتی کی صورت میں نکلتا ہے۔ فجر کے وقت کا مبارک ہونا احادیث سے ثابت ہے، مگر
آج کل اکثر لوگ اس وقت سوئے رہتے ہیں۔
نفسیاتی پہلو
جدید نفسیات کے مطابق،
عمر بڑھنے کے ساتھ، نئے تجربات کم ہوتے جاتے ہیں، جس سے وقت تیزی سے گزرتا محسوس
ہوتا ہے۔ جب انسان کی زندگی ایک روٹین میں ڈھل جاتی ہے اور نئی چیزیں سیکھنے یا
تجربہ کرنے کا عمل کم ہو جاتا ہے، تو دماغ وقت کی پیمائش مختلف انداز میں کرتا ہے۔
یہ ایک فطری عمل ہے جسے برکت کے ختم ہونے سے تعبیر کرنا درست نہیں۔ اگرچہ یہ ایک
نفسیاتی حقیقت ہے، تاہم اس کا روحانی برکت سے براہ راست تعلق نہیں ہے۔
وقت میں برکت کو واپس لانے کے شرعی اور
عملی طریقے
وقت میں برکت کو واپس
لانے کے لیے شرعی تعلیمات اور عملی اقدامات پر غور کرنا ضروری ہے۔
تقویٰ اور اخلاص نیت اختیار کرنا:ہر
کام اللہ کی رضا کے لیے شروع کیا جائے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہر عمل
کی قبولیت کا دارومدار نیت کی پاکیزگی پر ہے۔ جب نیت خالص ہو اور اللہ کا خوف دل
میں ہو تو وقت میں خود بخود برکت پیدا ہو جاتی ہے۔
نمازوں کی پابندی، خصوصاً فجر اور عشاء کی
جماعتنمازیں دن و رات کے اوقات کو منظم کرتی ہیں
اور برکت کا باعث بنتی ہیں۔ فجر کی نماز کے بعد اللہ تعالیٰ رزق تقسیم کرتے ہیں
اور دن کے آغاز میں برکت نازل ہوتی ہے۔ عشاء کی نماز کے بعد آرام کرنے سے اگلے دن
کے لیے توانائی ملتی ہے۔
حلال رزق کمانا اور کھانا:
حرام کی آمیزش سے بچنا ضروری ہے۔ امام ابو
حنیفہ رحمہ اللہ حلال روزی کو عبادت کی بنیاد قرار دیتے تھے۔ حلال رزق سے حاصل
ہونے والی قوت انسان کو نیک اعمال کی طرف راغب کرتی ہے اور اس کے وقت میں برکت
ڈالتی ہے۔
صبح کے اوقات کو غنیمت جاننا:نبی
اکرم ﷺ کی دعا ہے: "اَللَّهُمَّ
بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا"
اے اللہ! میری
امت کے صبح کے اوقات میں برکت عطا فرما۔سنن ابی داؤد۔ صبح کے وقت اٹھنا، نماز ادا
کرنا اور اپنے دن کا آغاز اللہ کے نام سے کرنا برکتوں کا باعث بنتا ہے۔
شکرگزاری کی عادت اپنانا چھوٹی چھوٹی
نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرنا برکتوں میں اضافہ کرتا ہے۔ جب انسان شکر گزار ہوتا
ہے تو اللہ اس پر مزید نعمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔
وقت کی تقسیم
(Time Management) اور اہداف کا تعین اسلام میں کام کو وقت پر
کرنے اور اسے بہتر طریقے سے انجام دینے پر زور دیا گیا ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ
نے وقت کی تقسیم اور ہر کام کے لیے مناسب وقت مقرر کرنے کو ایمان کا حصہ قرار دیا
ہے۔ روزانہ، ہفتہ وار اور ماہانہ اہداف مقرر کرنا، اور ان کے حصول کے لیے منصوبہ
بندی کرنا وقت کی برکت کو بڑھاتا ہے۔
تلاوتِ قرآن اور ذکرِ الٰہی تلاوتِ
قرآن اور ذکرِ الٰہی گھروں اور زندگیوں میں برکت کا ذریعہ ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے
فرمایا کہ جس گھر میں قرآن کی تلاوت ہوتی ہے وہاں برکت نازل ہوتی ہے۔
والدین کی خدمت، صلہ رحمی، اور صدقہ و خیرات یہ
اعمال رزق و عمر میں برکت کا باعث بنتے ہیں۔ صلہ رحمی سے رشتوں میں مضبوطی اور
زندگی میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ صدقہ و خیرات سے مال پاک ہوتا ہے اور اس میں برکت
آتی ہے۔
وقت میں "برکت"
کا ختم ہونا محض ایک احساس نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جس کی جڑیں ہمارے اجتماعی اور
انفرادی اعمال میں ہیں۔ یہ اللہ کے سنتی قانون
(Sunnatullah) کا حصہ ہے کہ نیکی اور تقویٰ میں برکت ہوتی
ہے اور گناہ و نافرمانی میں تنگی۔ جب ہم اللہ کے احکامات سے روگردانی کرتے ہیں،
گناہوں میں ملوث ہوتے ہیں، اور ناشکری کرتے ہیں تو ہماری زندگیوں سے برکت اٹھا لی
جاتی ہے۔
دورِ جدید کی مصروفیات
دراصل وقت کے ضیاع کا سبب ہیں، برکت کے ختم ہونے کا نہیں۔ جدید ٹیکنالوجی، سوشل
میڈیا اور بے مقصد تفریح نے انسان کو اس قدر الجھا دیا ہے کہ وہ اپنے بنیادی فرائض
سے بھی غافل ہو گیا ہے۔ برکت اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہے، جو اس کے احکامات پر عمل
کرنے اور اس کی رضا کے حصول کی کوشش سے ملتی ہے۔
وقت کی برکت کو واپس لانے
کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اعمال کا محاسبہ کریں، اپنی زندگیوں میں شرعی احکامات
کو مرکزی حیثیت دیں اور جدید چیلنجز کا مقابلہ سنتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں کریں۔
ہمیں اپنے اوقات کو منظم کرنا ہوگا، حلال رزق پر توجہ دینی ہوگی، اور گناہوں سے
اجتناب کرنا ہوگا۔
آخری کلمہ: حقیقی کامیابی
آخرت کی کامیابی ہے، اور وقت میں برکت درحقیقت وہ وقت ہے جو اللہ کی رضا کے حصول
میں گزارا جائے۔ جس وقت میں اللہ کی رضا شامل ہو، وہی وقت بامعنی اور بابرکت ہے۔
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔