جارج اور ویل کی لکھی ہوئی
کتاب افسانۂ حیوان ایک ایسی کہانی ہے جو ظاہری طور پر جانوروں کے ایک فارم کی کہانی
معلوم ہوتی ہے لیکن درحقیقت یہ سیاست طاقت اور انسانی نفسیات پر ایک گہری طنزیہ
نظر ہے یہ کتاب ہر اس معاشرے کے لیے ایک آئینہ ہے جہاں طاقت کے حصول کے لیے انقلابی
نظریات کو مسخ کر دیا جاتا ہے اور عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا
ہے پاکستانی سیاست کے تناظر میں اس کتاب کو پڑھنا ایک انتہائی دلچسپ اور فکر انگیز
تجربہ ہے کیونکہ یہاں بھی ہمیں وہ تمام کردار اور واقعات نظر آتے ہیں جنہوں نے اس
طنزیہ داستان کو امر بنا دیا۔
افسانۂ حیوان کا خلاصہ
کہانی ایک فارم میں رہنے
والے جانوروں سے شروع ہوتی ہے جو اپنے انسان مالک مسٹر جونز کے ظلم و استحصال سے
تنگ آچکے ہیں ایک بزرگ سور میجر وہم نامی ایک خواب دیکھتا ہے جس میں تمام جانور
آزاد ہیں اور انسانوں کے ظلم سے نجات پا چکے ہیں وہ تمام جانوروں کو جمع کر کے ایک
انقلابی نظریہ پیش کرتا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام انسان برے ہیں اور تمام
جانور اچھے ہیں اور انہیں انسانوں کے خلاف بغاوت کر کے اپنی حکومت قائم کرنی چاہیے
اس کا نعرہ ہے چار ٹانگیں اچھی دو ٹانگیں بری
میجر کی وفات کے بعد
بغاوت ہوتی ہے اور جانور فارم پر قبضہ کر لیتے ہیں ابتدائی طور پر ایک مثالی
معاشرہ قائم ہوتا ہے جہاں سب برابر ہیں اور سب مل کر کام کرتے ہیں سور جو سب سے ذہین
ہیں رہنمائی کرتے ہیں ان میں دو نمایاں کردار نپولین اور سنو بال ہیں دونوں میں
اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو جاتی ہے آخرکار نپولین سنو بال کو فارم سے بھگا دیتا ہے
اور مکمل طاقت اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔
آہستہ آہستہ وہ سات اصول
جن پر انقلاب کی بنیاد رکھی گئی تھی مسخ ہونا شروع ہو جاتے ہیں خاص طور پر سب سے
اہم اصول کہ تمام جانور برابر ہیں کو تبدیل کر دیا جاتا ہے اور اس کے آخر میں یہ
جملہ اضافی طور پر لگا دیا جاتا ہے کہ لیکن بعض جانور دوسروں سے زیادہ برابر ہیں
آخر میں سور انسان بن جاتے ہیں اور عام جانوروں میں اور انسانوں میں کوئی فرق نہیں
رہتا
پاکستانی سیاست کے ساتھ مماثلت
انقلاب کا خواب اور ابتدائی جوش
پاکستان کا قیام بھی ایک
انقلابی خواب کی مانند تھا مسلمانان برصغیر کے لیے ایک الگ وطن کا نظریہ ایک ایسی
جنت تھی جہاں وہ ہر قسم کے استحصال سے آزاد ہو کر اپنی زندگیاں گزار سکتے تھے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی تقاریر میں ملتا ہے ۔جو میجر کے خطاب کی طرح تھیں۔ جن
میں مساوات انصاف اور خود مختاری کے وعدے تھے ۔ابتدائی دنوں میں یہ جوش و خروش
واضح نظر آتا تھا۔
رہنماؤں کا آپس میں تصادم
افسانے میں نپولین اور
سنو بال کے درمیان اقتدار کی جنگ ہوتی ہے۔ پاکستانی سیاست میں بھی ہمیں یہ منظر
بار بار دیکھنے کو ملتا ہے ۔مختلف سیاسی رہنما جنہوں نے مل کر ایک بڑی سیاسی جماعت
بنائی یا ایک مشترکہ مقصد کے لیے کام کیا ان کے درمیان ذاتی اقتدار کی رسہ کشی شروع
ہو گئی۔ یہ تصادم کبھی نظریاتی نہیں رہا بلکہ محض طاقت کے حصول کے لیے تھا ۔جس کا
نتیجہ عوام کے مسائل کے حل میں تاخیر کی صورت میں نکلتا رہا۔
نظریات کو مسخ کرنا
افسانے میں سور سات
احکامات کو بار بار بدلتے ہیں۔ تاکہ اپنے مفادات کو جواز فراہم کیا جا سکے۔
پاکستانی سیاست میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ آئین کو بار بار معطل کیا جاتا ہے۔ ترامیم
کی جاتی ہیں اور تشریحات کی جاتی ہیں ۔تاکہ موجودہ حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ
کیا جا سکے ۔جمہوریت کے نام پر آمریت قائم کی جاتی ہے ۔اور عوامی مفاد کے نام پر
ذاتی مفادات کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔
عام عوام کی حالت
افسانے کا سب سے درد ناک
پہلو عام جانوروں کی حالت ہے۔ وہ سارا دن محنت مشقت کرتے ہیں لیکن ان کی زندگیوں میں
کوئی بہتری نہیں آتی وہ نپولین کے پراپیگنڈے سے اس قدر متاثر ہوتے ہیں ۔کہ وہ اپنی
آنکھوں سے دیکھی ہوئی حقیقت پر بھی یقین نہیں کرتے۔ پاکستانی عوام کی حالت بھی کچھ
ایسی ہی ہے وہ انتہائی محنت کرتے ہیں مہنگائی بے روزگاری اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
لیکن انہیں بار بار یہ بتایا جاتا ہے کہ دشمن قوتوں کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے۔ یا
پھر ماضی کی حکومتوں کی غلطیوں کی وجہ سے مسائل ہیں موجودہ حکمران خود کو عوام کا
مسیحا ثابت کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
پراپیگنڈے کا کردار
افسانے میں اسکوائر نام
کا ایک کوا ہوتا ہے ۔جو نپولین کے لیے پراپیگنڈا کرتا ہے وہ جھوٹی کہانیاں بناتا
ہے۔ اور سنو بال کو ہر برائی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے ۔پاکستانی میڈیا اور خاص طور
پر سوشل میڈیا پر بھی یہی صورتحال ہے۔ ایک مخصوص
Narrative قائم کیا جاتا ہے مخالفین کو غدار اور دشمن
کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ اور عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹا کر فرضی دشمنوں کی
طرف مبذول کرائی جاتی ہے۔
فوج اور اداروں کا کردار
اگرچہ افسانۂ حیوان میں
فوج کا براہ راست ذکر نہیں ہے ۔لیکن نپولین کے
trained dogs کی شکل میں ایک ایسی طاقت ضرور ہے جو اس کے
حکم پر کام کرتی ہے۔ اور مخالفین کو ختم کرتی ہے پاکستانی سیاست میں اداروں کا
کردار ہمیشہ سے ایک متنازعہ موضوع رہا ہے۔ کہیں کہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ جمہوری
عمل کو کسی نہ کسی طرح کنٹرول کیا جاتا ہے ۔تاکہ طاقت کا توازن برقرار رہے۔
خود غرض دانشور طبقہ
افسانے میں بعض جانور ایسے
ہیں جو نپولین کے ظلم کو سمجھتے ہیں۔ لیکن خاموش رہتے ہیں یا پھر اس کے ساتھ مل
جاتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں بھی دانشوروں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو حقائق کو
جانتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کر لیتا ہے یا پھر طاقت ور طبقے کی تعریف میں رطب
اللسان رہتا ہے۔ اس کی وجہ سے عوام میں شعور پیدا ہونے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
امید کی کرن
افسانے کا اختتام انتہائی
مایوس کن ہے لیکن پاکستانی قوم کے لیے ابھی بھی امید موجود ہے۔ ہماری نئی نسل زیادہ
بیدار ہے اور معلومات تک رسائی آسان ہونے کی وجہ سے وہ پراپیگنڈے سے کم متاثر ہوتی
ہے ۔مضبوط جمہوری ادارے قائم کر کے اور احتساب کا نظام نافذ کر کے ہم اس کہانی کے
انجام کو بدل سکتے ہیں۔
اقدار کو مضبوط کرنا
ہمیں اپنے قومی اور اخلاقی
اقدار کو مضبوط کرنا ہو گا ہمیں اپنی نئی نسل کو سچائی محنت اور انصاف کی اہمیت سے
آگاہ کرنا ہو گا تاکہ وہ جذباتی نعروں میں آکر اپنی عقل استعمال کرنا نہ بھولیں۔
آگے بڑھنے کا راستہ
افسانۂ حیوان ہمیں یہ سبق
دیتا ہے کہ طاقت ہمیشہ خراب کر دیتی ہے اور اسے متوازن رکھنے کے لیے مضبوط احتسابی
اداروں کی ضرورت ہوتی ہے پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے جمہوری اداروں کو
مضبوط کرے عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنائے میڈیا کو پراپیگنڈے کے بجائے حقیقت کی
عکاسی کرنی چاہیے اور عوام کو چاہیے کہ وہ جذباتی نعروں سے ہٹ کر اپنے ووٹ کا
استعمال کریں
آخر میں یہی کہا جا سکتا
ہے کہ افسانۂ حیوان کو پڑھنا اور پاکستانی سیاست پر اس کا اطلاق کرنا ایک آنکھیں
کھول دینے والا تجربہ ہے یہ کتاب ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمیشہ بیدار رہنا چاہیے اور
طاقت پر ہر وقت نظر رکھنی چاہیے کیونکہ طاقت کا بے جا استعمال کسی بھی معاشرے کو
تباہ کر سکتا ہے پاکستان کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے بشرطیکہ ہم اس داستان سے سبق سیکھیں
اور اپنے انقلابی نظریات یعنی مساوات انصاف اور جمہوریت کو دوبارہ زندہ کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔