شیکسپیئر کے ڈراموں میں انسانی فطرت کا نفسیاتی مطالعہ

0


 

انسانی فطرت کو سمجھنا ہمیشہ سے دانشوروں، ادیبوں اور فلسفیوں کے لیے ایک پرکشش موضوع رہا ہے۔ اس گہرے اور پیچیدہ مطالعے میں جہاں فلسفہ اور سائنس نے اپنا کردار ادا کیا وہیں ادب نے بھی انسانی جذبات، خیالات اور رویوں کو پرکھنے کا بہترین ذریعہ فراہم کیا ہے۔ ادب کی تاریخ میں اگر کوئی ایک نام اس میدان میں سب سے بلند اور نمایاں نظر آتا ہے تو وہ ولیم شیکسپیئر کا ہے۔ شیکسپیئر محض ایک ڈراما نگار نہ تھے بلکہ وہ انسان کے اندر کے انسان کو پہچاننے والے ایک غیر معمولی نفسیات دان تھے۔ ان کے کردار محض کہانیاں سنانے کا سامان نہیں ہیں بلکہ وہ انسانی ذات کے اس گہرے مطالعے کے نمونے ہیں جو ہر دور میں اپنی معنویت برقرار رکھتا ہے۔ ان کے ڈرامے انسان کی نفسیاتی کیفیات، اس کے داخلی تصادم، جذباتی اتار چڑھاؤ اور فطری خواہشات کا ایسا آئینہ ہیں جس میں ہر انسان اپنا ایک عکس ضرور دیکھ سکتا ہے۔ اس آرٹیکل میں ہم شیکسپیئر کے تین عظیم ترین tragedies یعنی ہیملیٹ، اوتھیلو اور کنگ لیئر کے مرکزی کرداروں کے ذریعے انسانی فطرت کے ان نفسیاتی پہلوؤں کا جائزہ لیں گے جو ان ڈراموں کو آج بھی زندہ و جاوید بنا رہے ہیں۔

 

ہیملیٹ ایک داخلی کشمکش کا شکار انسانی ذہن

 

شیکسپیئر کا عظیم ترین ڈرامہ ہیملیٹ کا مرکزی کردار شہزادہ ہیملیٹ انسانی تاریخ کے سب سے پیچیدہ اور گہرے کرداروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ ہیملیٹ کی کہانی انتقام کی ایک سادہ سی داستان سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ درحقیقت ایک ایسے نوجوان کی داستان ہے جو اچانک اپنے سامنے آنے والی ایک بھیانک حقیقت سے ٹکراتا ہے اور پھر اس کے ذہن میں ایک ایسی کشمکش شروع ہو جاتی ہے جو اسے تباہی کے کنارے پر لے جاتی ہے۔ ہیملیٹ کا کردار نفسیات کے میدان میں analysis paralysis یعنی تجزیہ کرتے کرتے عمل کرنے سے قاصر رہ جانے کی کیفیات کا بہترین افسانوی نمونہ ہے۔

 

ہیملیٹ کی نفسیاتی کیفیت کو سمجھنے کے لیے اس کے مشہور زمانہ جملے To be or not to be that is the question کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ جملہ محض خودکشی پر غور کرنے کا اظہار نہیں ہے بلکہ یہ وجودی بحران کا شکار ایک ذہن کی آواز ہے۔ ہیملیٹ اس بنیادی سوال سے جوجھ رہا ہے کہ آیا مصائب اور مشکلات سے بھرے ہوئے اس دنیا میں زندہ رہنا بہتر ہے یا موت کو گلے لگا لینا۔ یہاں وہ عمل اور رد عمل، وجود و عدم کے درمیان پھنسا ہوا ہے۔ اس کا ذہن اس قدر زیادہ سوچنے اور ہر عمل کے ممکنہ نتائج کا تجزیہ کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے کہ وہ حتمی عمل کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے۔

 

ہیملیٹ کی نفسیات میں ایک اہم پہلو اس کا اپنی ماں گرٹروڈ کے ساتھ پیچیدہ تعلق ہے۔ نفسیاتی اصطلاح میں Oedipus complex کی جو بات سیگمنڈ فرائیڈ نے کی ہے اس کا اظہار ہیملیٹ کے رویے میں صاف نظر آتا ہے۔ اپنے باپ کی موت کے بعد جب اس کی ماں فوری طور پر اس کے چچا کلودیئس سے شادی کر لیتی ہے تو ہیملیٹ کے اندر ماں کے خلاف ایک گہرا غصہ اور نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ عورت ذات ہی سے بیزار ہونے لگتا ہے جس کا اظہار اس کے اپنی محبوبہ اوفیلیا سے برتاؤ میں ہوتا ہے۔ اس کی ماں کی طرف سے ہونے والی بے وفائی دراصل ہیملیٹ کے ذہنی توازن بگڑنے کی ایک بڑی وجہ بنتی ہے۔

 

ہیملیٹ کا اپنے والد کی روح سے ملاقات اور پھر انتقام لینے کا عہد دراصل اس کے superego کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔ فرائیڈ کے نظریہ کے مطابق superego وہ اخلاقی ضابطہ ہے جو انسان کے اندر سے اسے صحیح اور غلط کا فرق سکھاتا ہے۔ ہیملیٹ کا superego اسے بار بار باپ کے انتقام کے لیے ابھارتا ہے لیکن اس کا ego یعنی اس کی حقیقت کو پرکھنے والا ذہن اسے احتیاط برتنے اور یقین کرنے سے پہلے ثبوت جمع کرنے کا کہتا ہے۔ یہی داخلی جنگ ہیملیٹ کو ٹھنڈے خون سے سوچنے سمجھنے کے بجائے دیوانہ وار رویے اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ہیملیٹ کی ڈرامائی نفسیات ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ضرورت سے زیادہ سوچ و بچار اور فیصلہ کرنے میں تاخیر انسان کو نا فقط اپنے مقصد سے دور کر سکتی ہے بلکہ اس کی ذات کو تباہی کے دہانے پر بھی پہنچا سکتی ہے۔

 

 اوتھیلو میں غیرت، شک اور احساس کمتری کا نفسیاتی تجزیہ

 

شیکسپیئر کا ڈراما اوتھیلو انسانی جذبات میں پیار، غیرت، شک اور احساس کمتری کی ایسی کہانی پیش کرتا ہے جس کا ہر پہلو نفسیاتی مطالعے کے لیے ایک نئی جہت کھولتا ہے۔ اوتھیلو ایک مورش کمانڈر ہے جو وینس کی فوج میں ایک عہدے پر فائز ہے۔ وہ ڈیزیڈیمونا نامی ایک خوبصورت وینیشین خاتون سے محبت کرتا ہے اور اس سے شادی کر لیتا ہے۔ یہاں سے وہ نفسیاتی سفر شروع ہوتا ہے جس میں ایک ذہین اور بہادر جنرل اپنے ہی ایک معتمد افسر ایاگو کے بھڑکائے ہوئے شک کی آگ میں جلتا ہوا اپنی محبوبہ بیوی کو قتل کر کے رکھ دیتا ہے۔

 

اوتھیلو کی نفسیاتی تحلیل کرنے کے لیے سب سے پہلے اس کے کردار میں موجود احساس کمتری کو سمجھنا ضروری ہے۔ اوتھیلو ایک اجنبی ہے۔ وہ رنگ اور نسل کے اعتبار سے وینس کے معاشرے میں ایک اقلیت کا فرد ہے۔ اگرچہ وہ اپنی بہادری کی وجہ سے معزز ہے لیکن اس کے اندر ایک گہرا احساس کمتری موجود ہے کہ وہ اس معاشرے کا حقیقی فرد نہیں ہے۔ وہ اپنی بیوی ڈیزیڈیمونا سے بے پناہ محبت کرتا ہے لیکن اس کے دل میں ہمیشہ یہ خدشہ موجود رہتا ہے کہ کہیں وہ ایک سیاہ فام شخص ہونے کی وجہ سے اس کے قابل نہیں ہے۔ یہی احساس کمتری ایاگو کے لیے وہ نفسیاتی دروازہ کھول دیتا ہے جس سے وہ اوتھیلو کے ذہن میں زہر گھول سکتا ہے۔

 

ایاگو دراصل اوتھیلو ڈرامے کا وہ مرکزی محرک ہے جو انسانی فطرت کی بدترین صفت یعنی حسد کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ ایاگو کا کردار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انسان کا مثبت ہونا اس کے منفی جذبات کی غیر موجودگی کی ضمانت نہیں دیتا۔ ایاگو خود کو اوتھیلو کا وفادار ساتھی ظاہر کرتا ہے لیکن درحقیقت وہ اس سے سخت حسد رکھتا ہے۔ وہ نہ صرف اوتھیلو کے عہدے سے محروم ہونے پر ناراض ہے بلکہ اسے یہ بھی شک ہے کہ اوتھیلو کی اس کی بیوی سے ناجائز تعلقات ہیں۔ یہی حسد اسے انتہائی سنگین اور خطرناک چالوں کی طرف لے جاتا ہے۔

 

اوتھیلو کے ذہن میں شک کا بیج بونے میں ایاگو کی مہارت دراصل انسانی نفسیات کی ایک گہری سچائی کو ظاہر کرتی ہے۔ ایاگو براہ راست الزام لگانے کے بجائے اشاروں کنایوں میں بات کرتا ہے۔ وہ اوتھیلو کو یقین دلاتا ہے کہ وہ اس کا خیر خواہ ہے اور محض اس کی فلاح چاہتا ہے۔ وہ ڈیزیڈیمونا کے معصوم رویوں کو مشتبہ طریقے سے پیش کرتا ہے۔ یہاں شیکسپیئر ہمیں دکھاتے ہیں کہ شک ایک ایسا زہر ہے جو اگر ایک بار ذہن میں داخل ہو جائے تو پھر ہر چیز کو زہر آلود بنا دیتا ہے۔ اوتھیلو کا شک اس کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے اور وہ ہر ثبوت کو اپنے شک کی تصدیق کے لیے استعمال کرنے لگتا ہے۔

 

اوتھیلو کی غیرت دراصل اس کے شک اور احساس کمتری کا ہی نتیجہ ہے۔ غیرت ایک فطری جذبہ ہے لیکن جب یہ شک کی بنیاد پر جنم لے تو تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ اوتھیلو اپنی غیرت میں ڈیزیڈیمونا کو قتل کر دیتا ہے اور جب اسے حقیقت کا علم ہوتا ہے تو وہ ندامت اور غم سے خودکشی کر لیتا ہے۔ اوتھیلو کی کہانی دراصل ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ احساس کمتری اور شک انسان کی عقل کو کس طرح مفلوج کر سکتے ہیں اور کیسے ایک مثبت اور مضبوط شخصیت بھی منفی جذبات کے آheadے میں بے بس ہو کر تباہی کا شکار ہو سکتی ہے۔

 

کنگ لیئر بزرگی، غرور اور فرزندان نا فرمانی کا نفسیاتی اظہار

 

کنگ لیئر شیکسپیئر کے ان ڈراموں میں سے ہے جو انسانی فطرت کے انتہائی بنیادی اور گہرے جذبات کو چھوتا ہے۔ یہ ڈراما ایک بادشاہ کی اپنی اولاد کے ہاتھوں ذہنی اور جذباتی اذیت سے گزرنے کی داستان ہے۔ کنگ لیئر کی کہانی میں ہم غرور، ناشکری، وفا، دیوانگی اور پچھتاوے جیسے جذبات کو انتہائی شدت کے ساتھ محسوس کر سکتے ہیں۔ اس ڈرامے کا نفسیاتی مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ کیسے ایک انسان اپنی ہی پیدا کی ہوئی مشکلات کا شکار ہو کر اپنے انجام کو خود دعوت دے دیتا ہے۔

 

کنگ لیئر کے کردار کی نفسیات سمجھنے کے لیے اس کی خود پسندی اور غرور کو دیکھنا ضروری ہے۔ کنگ لیئر ایک طاقتور بادشاہ ہے جو اپنے عہدے اور اختیار کا غرور رکھتا ہے۔ وہ اپنی بیٹیوں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اس کی تعریف میں رطب اللسان رہیں۔ وہ اپنی چھوٹی بیٹی کورڈیلیا سے اس لیے ناراض ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اسے سچی اور سادہ محبت پیش کرتی ہے بجائے اس کے کہ وہ بھی اپنی بہنوں کی طرح جھوٹی تعریفوں کے پل باندھے۔ کنگ لیئر کا یہ غرور دراصل اس کی نفسیاتی بصیرت میں کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ چاپلوسی اور سچائی میں فرق نہیں کر پاتا۔ یہی غرور اسے اس کے سب سے وفادار اور سچے ساتھی Earl of Kent کو جلا وطن کرنے پر بھی مجبور کر دیتا ہے۔

 

کنگ لیئر کی اولاد یعنی اس کی دو بڑی بیٹیاں گونریل اور ریگن انسانی فطرت میں لالچ، طاقت کی بھوک اور بے وفائی کی انتہائی مکروہ تصویر پیش کرتی ہیں۔ وہ اپنے باپ کے سامنے جھوٹی محبت کا اظہار کر کے اس کی سلطنت کا بڑا حصہ حاصل کر لیتی ہیں لیکن جب کنگ لیئر اپنا تخت چھوڑ کر ان پر انحصار کرتا ہے تو وہ اسے ذہنی اذیت دینے لگتی ہیں۔ یہاں شیکسپیئر والدین اور اولاد کے تعلق کے ایک انتہائی گہرے نفسیاتی پہلو کو چھوتے ہیں۔ اولاد کی طرف سے والدین کی بے قدری اور انہیں بوجھ سمجھنا دراصل جدید اور قدیم دونوں معاشروں میں ایک نفسیاتی المیہ ہے۔

 

کنگ لیئر کی دیوانگی اس ڈرامے کا سب سے اہم نفسیاتی پہلو ہے۔ جب کنگ لیئر کو اپنی بیٹیوں کی اصلیت کا پتہ چلتا ہے اور وہ اسے بے یار و مددگار چھوڑ دیتی ہیں تو وہ ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے۔ وہ ایک طوفانی رات میں جنگل میں پاگل پن کی حالت میں گھومتا ہے۔ اس کی دیوانگی دراصل اس کی عقل کا ہی ایک اور روپ ہے۔ دیوانگی کی حالت میں ہی وہ سماجی ناانصافی، حکمرانوں کے ظلم اور انسان کی خود غرضی پر گہری باتوں کا اظہار کرتا ہے۔ یہاں شیکسپیئر یہ بتاتے ہیں کہ کبھی کبھی پاگل پن ہی وہ واحد ذریعہ ہوتا ہے جس کے ذریعے انسان دردناک سچائیوں کو برداشت کر پاتا ہے اور درحقیقت یہی دیوانگی اس کے اندر کی صفائی کا باعث بنتی ہے۔

 

کنگ لیئر کا کردار آخر کار ایک ایسے انسان میں تبدیل ہو جاتا ہے جس کا غرور ٹوٹ چکا ہے اور جو اپنی غلطیوں پر پچھتا رہا ہے۔ جب وہ اپنی چھوٹی بیٹی کورڈیلیا سے معافی مانگتا ہے تو اس کے اندر کی خودغرضی ختم ہو چکی ہوتی ہے اور وہ سچے پیار کی اہمیت کو سمجھ پاتا ہے۔ کنگ لیئر کی کہانی ہمیں غرور کے خطرات، سچائی کی اہمیت اور اولاد کی طرف سے والدین کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے گہرے نفسیاتی اثرات کے بارے میں بتاتی ہے۔

 

شیکسپیئر کے ان تینوں عظیم ڈراموں ہیملیٹ، اوتھیلو اور کنگ لیئر میں پیش کیے گئے کردار محض کہانی کے لیے نہیں بنائے گئے تھے۔ یہ کردار دراصل انسانی فطرت کے ان گہرے نفسیاتی محرکات کی عکاسی کرते ہیں جو ہر زمانے اور ہر معاشرے میں موجود رہے ہیں۔ ہیملیٹ ہمیں بتاتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ سوچ و بچار انسان کو عمل سے روک کر تباہی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اوتھیلو ہمیں احساس کمتری اور شک کے ایسے طوفان دکھاتا ہے جو محبت جیسے پاکیزہ جذبے کو بھی تباہ کر سکتے ہیں۔ کنگ لیئر ہمیں غرور کی تباہ کاریوں اور اولاد کی ناشکری کے ان گہرے زخموں سے آگاہ کرتا ہے جو انسان کو دیوانگی کے کنارے پر لا کھڑا کر سکتے ہیں۔

 

شیکسپیئر درحقیقت ایک غیر معمولی نفسیات دان تھے جنہوں نے اپنے کرداروں کے ذریعے انسانی ذہن کی ان گہرائیوں کو چھوا جو ہر دور کے لیے ایک سبق ہیں۔ ان کے ڈرامے صرف تفریح کا سامان نہیں ہیں بلکہ وہ انسانی فطرت کے وہ آئینے ہیں جن میں دیکھ کر انسان اپنے آپ کو پہچان سکتا ہے اور اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کر سکتا ہے۔ شیکسپیئر کا فن آج بھی اس لیے زندہ ہے کہ وہ انسان کو انسان سے روشناس کراتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !