صرف
جان پہچان کے لوگوں کو سلام کرنے کے کیا نقصانات ہیں؟
دوستو! وقت گزرنے کے ساتھ
جیسے جیسے نت نئی ٹیکنالوجی کی ایجادات ہورہی ہیں اس سے صاف ظاہر ہو
رہا ہے کہ انسان تنہائی پسند ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی ارد گرد کی
دنیا بالکل ختم ہوتی جا رہی ہے نا تو اس میں رشتوں کو نبھانے
کی صلاحیت باقی رہ گئی ہے نہ وہ دین کا ہے نہ دنیا کا۔ اس ٹیکنالوجی نے جہاں
انسان کے کام کو تیز ، اور آسان بنایا ہے وہاں اس دنیا فانی میں انسان تو رہ
گئے ہیں لیکن انسانیت کی موت ہو گئی ہے۔
ایک فرد کی دن بھر کی اوسطاً
سرگرمیاں سمٹ کر موبائل فونز اور ٹیکنالوجی کی ڈیوائسز کے گرد
گھومتی نظر آتی ہے۔ بیٹا ایک کمرے میں بیٹھا اپنے ماں باپ ، بہن بھائی اور
رشتے داروں سے کوسوں دور ہے۔ یہ اور بات ہے کہ زمینی رابطے بحال ہوئے ہیں دور
بیٹھا انسان آج آرام سے اور آسانی بات کر سکتا ہے لیکن افسوس ! آج کا انسان خونی
رشتوں کی قدر و قیمت کی اہمیت سے بہت دور ہے۔ معاشرے میں صلہ
رحمی کی بجائے قطع رحمی بڑھتی چلی جارہی ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراضگی
اور ناراضگی رنجشوں اور دشمنیوں میں تبدیل ہو رہی ہے۔ خوامخوہ کی ناراضگی
اور گناہوں کے بوجھ کو سالہ سال پالتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اس با ت سے
بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج کا انسان خونی رشتوں کو چھوڑ کر اجنبی
رشتوں کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے جس کی وجہ سے وہ انہی لوگوں میں اٹھنا
بیٹھنا پسند کرتا ہے جو اس کی طبیعت اور مزاج کے مطابق ہوتے ہیں۔ اور اس بات
کو دیکھتے ہوئے اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ کی کہی ہوئی بات سچ ہوتی ہے۔ قیامت کی بہت
ساری نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ قرب قیامت لوگ صرف جان
پہچان والوں سے کلام کرنا پسند کریں گے اور انہی خاص لوگوں کو سلام کرنا اور میل
جول رکھنا پسند کیا جائے گا۔
ارشاد ربانی ہے"
جب تمہیں سلام کہا جائے تو تم اس سے اچھا سلام جواب میں کہو، یا وہی الفاظ لوٹا
دو، بیشک اللہ تعالی ہر چیز کا حساب رکھنے والا ہے "
جبکہ اللہ رب العزت
نے ہر خاص و عام کو سلام کہنے کا حکم اس لیے دیا
تاکہ یہ معاشرے میں موجود لوگوں کے درمیان محبت اور رابطے کی علامت بن
جائے ، حدیث نبوی ﷺ کے مطابق "
چھوٹا بڑے کو اور غنی فقیر کو سلام کرے "، سلام
کی اہمیت ہمیں ایک جگہ یوں بھی ملتی ہے "
ہر عرب و عجم اور سیاہ و سفید کو حکم دیا کہ وہ ہر شخص کو سلام کہے چاہے اس سے
واقفیت ہو یا نہ ہو"۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
"تم
لوگ جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک تم ایمان دار نہ ہو جاؤ اور تم ایمان
دار نہیں ہو سکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرنے لگ جاؤ ۔ کیا میں تمھیں ایک ایسی چیز
نہ بتلاؤں کہ جب تم اسے کروگے تو آپس میں محبت کرنے لگو گے؟ آپس میں سلام کو
پھیلاؤ"۔
اللہ تعالی نے سلام کو عام
کرنے کا حکم فرمایا ہے اور سلام کا جواب واجب قرار دیا ، بلکہ سلام کو
ایسے امور میں شامل فرمایا جن کی وجہ سے مسلمانوں میں محبت اور الفت پیدا ہو۔جبکہ آج کے اس دور
میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کا ایک شخص اپنے مراسم صرف اسی شخص سے
رکھتا ہے جس کو جانتا ہے جس سے واقفیت نہیں ہے اس سے سلام اور کلام کرنا پسند نہیں
کرتا ۔ جبکہ سنت یہ ہے کہ سلام ہر مسلمان کو کیا
جانا چاہیے ۔ آپ اسے جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں۔
ابو الجعد کہتے ہیں! عبداللہ
بن مسعود سے ایک شخص کی ملاقات ہوئی تو اس نے کہا: ابن مسعود : تم پر سلام ہو۔
حضرت عبداللہ نے کہا: سچ فرمایا اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے، میں نے اللہ کے نبی ﷺ
کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "قیامت کی علامات میں سے یہ
بھی ہے کہ آدمی مسجد میں داخل ہوگا، مگر اس میں دورکعات ادا نہیں کرے گا اور یہ
بھی کہ ایک شخص سلام صرف اسی کو کہے گا جس سے اس کی واقفیت ہو گی۔"
آج ہماری مساجد میں بالکل
ایسا ہی ہو رہا ہے یہاں تک کہ لوگ جمعہ کی نماز کے لئے عین اسی
وقت مسجد میں داخل ہوتے ہیں جب نماز ہونے والی ہوتی ہے اور اگر غلطی سے تھوڑا جلد
ی چلیں جائیں تو وضو کر کے خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں۔ جبکہ حکم یہ ہے کہ اس وقت تک
نہ بیٹھا جائے جب تک دو رکعات ادا نہ کر لے" اللہ ہم سب کو نیکی
کی توفیق ادا کرے اور ہم سب کے گناہ معاف فرمائے (آمین)
صحیحین میں روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ
سے پوچھا: کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: " کھانا کھلاؤ اور ہر شخص
کو سلام کرو خواہ تم اسے جانتے ہو یا نہ جانتے ہو۔"
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔