پچھلی امتوں کے طریقوں کی اندھی تقلید اور معاشرتی تباہ کاریاں
آپ ﷺ نے اپنی امت کو قیامت
کی بہت ساری نشانیاں بتائیں تاکہ لوگ ان کو جان کر اپنے آپ کو ان سے دور رکھ
سکیں۔اور اپنے ایمان کی حفاظت کر سکیں۔ ان بہت ساری نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ
بھی ہے کہ لوگ پچھلی امتوں کے طور طریقوں کی اندھی
تقلید کریں گے یعنی ہر وہ حرکت جو حرام کی گئی ہے وہ
اس کو اپنا لیں گے۔
آج امت مسلمہ ایک سے بڑھ کر ایک
بڑے فتنے میں مبتلا ہوچکی ہے اور اسے اس کی بالکل خبر نہیں ہے کہ وہ اس
طرح جکڑا جا چکا ہے ، ان میں سب سے بڑا فتنہ اندھی تقلید اور عیسائیوں اور یہودیوں
یا دیگر کفار کے اخلاق و عادات کی شرمناک ،قابل نفرت مشابہت اختیار
کرنا ہے۔
اور ہم
امت مسلمہ نعرہ کیا لگاتے ہیں کہ ہم بہت ماڈرن ، ترقی پسند امت ہیں ہمیں دور جدید
کے ساتھ ساتھ چلنا سیکھنا چاہیے۔آؤ دیکھتے ہیں کہ اللہ رب العزت ہم سے کیا کلام کر
رہے ہیں۔
"کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا
گیا، وہ بتوں اور شیطان کو مانتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ لوگ
ایمان لانے والوں سے زیادہ صحیح راستہ پر ہیں"
پھر ارشاد فرمایا "(اے محمدﷺ)آپ ان لوگوں سے کہہ دیں،
کیا تمھیں ان لوگوں کی نشان دہی کر دوں جن کا انجام اللہ کے ہاں، فاسقوں کے انجام
سے بھی بدتر ہے؟ وہ لوگ جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان پر اللہ کا غضب ہوا اور ان
میں سے بعض کو بندر اور خنزیر بنا دیا اور جنہوں نے طاغوت کی بندگی کی"
سورۃالکھف میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا نقشہ
کچھ اس طرح سے بیان فرمایا ہے“اور ان کے سرکردہ لوگوں نے کہا ہم تو ان کی غار
پر ضرور مسجد(عبادت گاہ)بنائیں گے (یعنی قبرپرستی)
اللہ کے نبی
حضرت محمد ﷺ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ میری امت کا ایک گروہ سابقہ گمراہ امتوں
یہود ونصاریٰ کی عادات و روایات کی تقلید کرے گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "قیامت
اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک میری امت پہلے لوگوں کے راستے پر من وعن قدم
بقدم نہ چلنے لگے۔
"عرض کیا گیا: یا رسول اللہ ! کیا پہلے
لوگوں سے آپ کی مراد فارس و روم ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا " تو اور
کون!"
جن چیزوں سے اللہ کے نبی ﷺ
نے اپنی امت کو ڈرایا تھاپہلے سے متنبہ کردیا ا ن میں سے زیادہ ترنشانیاں واقع ہو
چکی ہیں اور جو رہ گئی ہیں وہ بھی یقیناَ اپنے مقررہ وقت پر ضرورواقع ہوں گی،
ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ
نے فرمایا: " تم لوگ اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں
کی اس طرح پوری پوری پیروی کروگے جس طرح بالشت بالشت کے اور ہاتھ ہاتھ کے برابر
ہوتا ہے،
حتی کہ اگر وہ سانڈے کی بل
میں داخل ہوئے تو تم بھی ضرور ان کی پیروی کروگے۔ " ہم نے عرض کی : یا رسول
اللہ ! کیا آپ کی مراد یہود و نصاریٰ سے ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "
تو اور کون؟"
بعض جگہ کچھ یوں بھی بیان کئے گئے ہیں“تم پہلی امتوں کے
راستوں کی پیروی کرتے ہوئے یوں ان کی برابری کرو گے جیسے تیر کا ایک پر دوسرے پر
کے برابر ہوتا ہے۔
یہاں تک
کہ اگر وہ ضب(سانڈے)کے بل میں گھسے تو تم بھی جا گھسوگے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول! آپ کی مراد یہود و نصاری ہیں؟ آپ نے فرمایا: اور کون؟”
دوسری جگہ کچھ یوں
ارشاد فرمایا" اللہ تعالی نے میرے لیے زمین کو اس حد تک سمیٹ اور سکیٹر دیا کہ
میں نے اس کے مشرق و مغرب دیکھ لیے۔ میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک
زمین مجھے سمیٹ کر دکھائی گئی۔ اور مجھے سفید(چاندی)اور سرخ(سونا)دوخزانے عطا کیے
گئے۔
اور میں نے اپنی امت کے لیے اپنے رب سے دعا کی
کہ وہ عام قحط سالی سے اسے ہلاک نہ کرے۔ اور ان پر کوئی ایسا بیرونی دشمن بھی مسلط
نہ کرے جو نھیں تباہ کرکے رکھ دے۔ میرے رب نے فرمایا:
اے محمد(ﷺ) جب میں کوئی فیصلہ کردیتا ہوں تو اسے
ٹالا نہیں جاسکتا ۔میں آپ کی مت کے بارے میں آپ کی یہ دعا قبول کرتا ہوں کہ میں
انہیں عام قحط سالی سے ہلاک نہیں کروں گا اور ان پر کوئی ایسا بیرونی دشمن بھی
مسلط نہیں کروں گا،
جو انھیں تباہ کرکے رکھ دے اگرچہ سارے دشمن ان
کے خلاف متحد اور مجتمع کیوں نہ ہو جائیں۔ البتہ یہ خود آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک
کریں گے اور ایک دوسرے کو قیدی بھی بنائیں گے۔”
علماء کرام اس حدیث کی شرح
میں فرماتے ہیں کہ بالشت ، ہاتھ، تیر کے پر اور سانڈے کے بل کی تشبیہ ان اقوام کی
مکمل اقتدا اور اندھی تقلید کو واضح کرنے کے لئے دی گئی ہے۔
یا ان کے اس اقتصادی نظام کی پیروی کی جائے جو
ہمارے دین کی تعلیمات کے خلاف ہو، جیسے سودی لین دین ، زنا بے حیائی ، شراب، جوا،
خنزیر وغیرہ کا استعمال کرنا، قبرپرستی،
غیر اللہ کے نام نذرونیاز دینا، منیتں و مرادیں
مانگنا، قرآن واحادیث کے خلاف جانا، انبیااور کتب کا جھٹلانا، چڑہاوے چڑھانا،
توہمات پرستی، بدشگونی لینا، قومیت پر فخر کرنا، چھوت چھات، جھوٹ بولنا، ایک کو
اعلی ٰ اور دوسرے گھٹیا سمجھنا ،
حرام چیزوں کا استعمال کرنا، کا لاجادو، تعویز
گنڈے، اور دیگر مالی معاملات وغیرہ وغیرہ ان احادیث کی روشنی میں یہود ونصاریٰ کی
وہ اندھی پیروی/تقلید کی شدیدمذمت کی گئی ہے ،
ان احادیث کی روشنی میں یہ بات روزروشن کی طرح
عیاں ہیں ان میں کوئی چیز / کوئی کام ایسا نہیں چھوڑا گیا جو ہمارے دین کے خلاف نہ
ہوں،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔