لوگوں کے دلوں سے دیانتداری کا خاتمہ اور آپ ﷺ کی وعید
قیامت کی ڈھیر ساری نشانیوں میں سے
ایک نشانی یہ بھی ارشاد فرمائی گئی
کہ لوگوں کے دلوں سے دیانت داری نکال لی جائے گی ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جس
شخص کہ دل سے دیانت داری ختم ہو جائے تو بند ہ مومن نہیں رہتا یعنی ایمان کا خاتمہ
ہو جاتا ہے۔یہ نشانی دور حاضر میں اپنے عروج پر ہے اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہم میں سے ہر ایک
بندہ اس نشانی پر پورا اترے گا۔ دیانت
داری سے مراد صرف روپے پیسے کا لین دین نہیں ہوتا دیانت داری میں ہر ایک
لین دین شامل ہوتا ہے۔ مثال کے طور
پر آج کا ہر ایک نوجوان پڑھنے کے بعد نوکر ی کی تلاش میں در بدر کی
ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے مگر نوکر ی اسی کو
دی جاتی ہے جس کی اچھی سفارش ہو یا رشوت دی گئی ہو۔ ہم سب اسی معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ایک حق دار کو اس کا حق نہیں دیا جاتا
کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں لیکن کیا ہمارے کام مسلمانوں والے ہیں۔ یا د رکھیں جب امانتیں برباد ہونے لگتی ہیں تو
پیمانے یکسر بدل جایا کرتے ہیں جس سے نہ صرف لوگوں انتشار پیدا ہوتا بلکہ معاشرے
میں توازن برقرار نہیں رہتا۔ہم میں سے ہر ایک بندہ اپنا کام دیانت داری سے کرنے کی
بجائے دوسروں پر تنقید کرنے کا عادی ہے۔ اسی وجہ سے نااہل لوگ ہم پر حکمرانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک سے بڑھ
کر ایک حکمران جو کہنے سے تو مسلمان ہوتا
ہے لیکن عملا ایسا نہیں ہوتا وہ خود بھی بددیانت ہوتا ہے اور لوگوں کو بھی وہ کچھ شئیر کیا جاتا ہے جس
کے وہ حق دار ہوتے ہیں۔ ہمیں حکمران ویسا ہی دیا جاتا ہے جیسا کہ ہمارے اعمال ہوتے
ہیں۔ ارشاد نبوی ﷺ کہ "جس کے اندر امانت نہیں
اس کے اندر ایمان نہیں۔‘‘۔ گویا ایمانداری، دیانتداری ایمان کا لازمی جزو قرار
دیا گیا ہے۔ اور یقینا جو شخص اللہ تعالی اور آپ ﷺ پر ایمان لاتا ہے وہ کبھی بھی امانت میں خیانت کا نہیں سوچ سکتا۔ ہم کیسے
سوچ لیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم امانت
میں خیانت نہیں کرتے؟
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں:جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اسکے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔‘‘
حضرت حذیفہ بن یمان سے روایت ہے کہ نبی کریم
ﷺ نے فرمایا "
امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں نازل ہوئی تھی۔ پھر قرآن نازل ہوا اور لوگوں نے امانت کی
اہمیت قرآن سے اور سنت
سے معلوم کی"۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ" ایک ایسا وقت آئے گا جب امانت لوگوں کے
دلوں سے نکال لی جائے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: " آدمی رات کو سوئے گا تو اچانک اس
کے دل سے امانت قبض کر لی جائے گی مگر امانت کا کچھ نہ کچھ اثر ایک نقطے کی مانند
دل میں باقی رہ جائے گا۔ پھر اگلی رات وہ سوئے گا تو باقی امانت بھی قبض کر لی
جائے گی حتی کہ اس کا معمولی سا اثر باریک چھلکے کی طرح باقی رہ جائے گا۔ جس
طرح آپ دہکتے ہوئے انگارے کو اپنے پاؤں پر لڑھکا دیں تو اس پر چھالا پڑ جاتا ہے۔
امانت کا یہ اثر اس چھالے کے بیرونی چھلکے کی طرح نہایت کمزور ہوگا۔ آپ کو پاؤں کا
چھالا ابھرا ہوا نظر آتا ہے ، حالانکہ حقیقت کے اعتبار سے وہ کچھ بھی نہیں
ہوتا ( یہ کہہ کر آپ ﷺ نے بات سمجھانے کے لئے ایک کنکری پکڑ کر اپنے پاؤں پر لڑھکا
دی) پھر فرمایا: ایک وقت آئے گا لوگ خریدو فروخت کے لئے نکلیں گے، لیکن ڈھونڈنے کے
باوجود انہیں کوئی امانت دار آدمی نہیں ملے گا، حتی ٰ کہ یہ کہا جائے گا: فلاں
قبیلے میں ایک امانت دار شخص ہے۔ یہاں تک کہ کسی شخص کے بارے میں لوگوں کی رائے یہ
ہوگی کہ دیکھو وہ شخص کتنا بہادر ہے! کتنا خوش مزاج ہے! کتنا عقل مند ہے! حالانکہ
اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہو گا"۔
حضرت حذیفہ کہتے ہیں:" مجھ
پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میں خریدو فروخت کرتے وقت اس بات کی پروا نہیں
کرتا تھا کہ میں جس سے خریداری کررہا ہوں اس کا دین کیا ہے۔ اگر وہ مسلمان ہوگا تو
میرا حق ادا کرے گا اور اگر عیسائی یا یہودی ہو گا تو بھی اپنے وکیل کے ذریعے میر
ا حق ادا کردے گا۔ مگر آج میں فلاں اور فلاں آدمی کے سوا کسی اور سے خریدو فروخت
نہیں کرتا"۔ نبوت والی زبان سے نکلے ان الفاظوں کی اہمیت کو
صحابہ کرام نے اپنے اعمال سے سچ کر کے
دکھایا کہ دیانت داری ہوتی کیا ہے ؟ ایمان کسے کہتے ہیں؟ آج ہم بھی کاروبار کرتے
ہیں ، لین دین بھی کرتے ہیں کیا کبھی ہم نے اس بات کو سوچنا گوارا کیا ، اندر سے ایک ہی جواب آئے گا "ہرگز
نہیں"
ارشاد باری تعالی ہے: اے ایمان والو! اللہ اور رسول سے دغا نہ کرو اور اپنی امانتوں
میں(دانستہ) خیانت مت کرو۔‘‘
ارشاد باری تعالی ہے
"یقینا اللہ تبارک و تعالیٰ تمہیں اس بات کا حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں
ان کے اہل کی طرف لوٹا دو"
جب ہم قرآن
و سنت کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی بجائے اس میں سے عیب نکالنے
کی جستجو میں لگے رہیں گے اور قرآن کے
فیصلوں کو پس پشت ڈال کر اپنی من چاہی بات کو ترجیح دیں گے تو معاشرے میں بھونچال آئے گا۔ جب کثیر تعداد میں
لوگوں کے ضمیر کمزور اور بیمار ہوجائیں ، اور
معاملات کمتر، نااہل لوگوں کی طرف لوٹائے جائیں گے
کہ وہ ان میں فیصلہ فرما دیں ، جب امانتیں کی خیانت کی جائے گی تو قیامت قریب
آجائے گی۔
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ
ایک مجلس میں تشریف فرما تھے اور صحابہ کرام سے گفتگو فرما رہے تھے کہ ایک اعرابی
آیا اور اس نے پوچھا : اللہ کے رسول ! قیامت کب قائم ہو گی؟ رسول اللہ ﷺ نے اپنی
گفتگو جاری رکھی اور اعرابی کی طرف متوجہ نہ ہوئے ۔ بعض لوگوں نے کہا: آپ ﷺ
نے اعرابی کی بات تو سنی ہے مگر اس کے سوال کو پسند نہیں کیا، ( اس لئے جواب
دینے سے گریزفرمارہے ہیں) ۔ دوسروں نے کہا: آپ ﷺ نے بات سنی ہی نہیں جب آپ ﷺ
نے بات مکمل کر لی تو فرمایا: " وہ قیامت کے بارے میں سوال کرنے والا شخص
کہاں ہے؟ "اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! میں یہیں ہوں ۔ آپ ﷺ نے
فرمایا" سنو!
جب امانتیں ضائع کی جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔" اس نے عرض کیا:
امانتیں کیسے ضائع ہوں گی؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : " جب معاملات نااہل لوگوں کے
سپرد کر دئیے جائیں تو اس وقت قیامت کا انتظار کرو۔"
عبادات سے لے کر زندگی کے ہر شعبہ میں دیانت داری
کا دائرہ کار شامل ہے بندہ کہیں بھی ہو
زندگی کے کسی بھی شعبہ سے وابستہ ہو اسے اپنی دیانت داری پر آنچ نہیں آنے دینا
چاہیے ۔لیکن افسوس کہ قیامت کی یہ نشانی آج پورے جوبن پر ہے۔
جی ہاں ! " جب معاملات نااہل لوگوں
کے سپرد کر دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو"۔
True picture of the reality
جواب دیںحذف کریں