google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 آپ ﷺ نے حلال اور حرام مال کے بارے میں کیا فرمایا؟ - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

پیر، 8 جون، 2020

آپ ﷺ نے حلال اور حرام مال کے بارے میں کیا فرمایا؟

آپ نے حلال اور حرام مال کے بارے میں کیا فرمایا؟

جب مسلمان کی پرہیزگاری کم ہو جاتی ہے تو اس کے دین میں بھی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ جب اس کے دین میں نقص واقع ہوتا ہے تو وہ شبہات والی چیزوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ مرحلہ آتا ہے کہ وہ حرام کا ارتکاب کرنے لگتا ہے۔ حتی کہ کیفیت یہ ہو جاتی ہے کہ اسے اس امر کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ جو کچھ وہ کما رہا ہے اس کا ذریعہ حلال ہے یا حرام ، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے خبر دی تھی۔ یہ چیز موجودہ دور میں عملی طور پر واقع ہو چکی ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا "لوگوں پر ضرور ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی اس بات کی بالکل پروا نہیں کرے گا کہ جو مال وہ کما رہا ہے وہ حلال ہے یا حرام



آج اگر آپ لوگوں کے حالات پر غور کریں تو دیکھیں گے کہ لوگوں کی اکثریت ہر طرح مال جمع کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے اور انھیں اس بات کی ذرا پروا نہیں کہ یہ مال حلال ہے یا حرام ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں لوگ حرام کاروبار میں ملازمتیں حاصل کرنے اور حرام اشیاء کی تجارت کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے ، مثلا : سگریٹ، شراب یا خواتین کے لئے غیر سا تر لباس کی تجارت کرنا، یا سودی کاروبار کرنا، یا ایسے کاروبار کے لئے دکان کرائے پر دینا جو حرام ہو، اللہ تبارک و تعالیٰ  کا فرمان ہے " پاک اور حلال چیزیں کھاؤ"

اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیز ہی قبول فرماتا ہے۔ ہر وہ گوشت جو سود اور حرام کمائی سے پروان چڑھتا ہے اس کے لیے جہنم کی آگ ہی زیادہ مناسب ہے۔  جو شخص پرہیز گاری سے کام لیتا  اور شبہے والی چیزوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے وہ لوگوں میں ایک اجنبی شخص سمجھا جاتا ہے اور اسے ضرورت سے زیادہ محتاط ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ بلکہ اگر وہ رشوت قبول نہیں کرتا تو بعض اوقات اسے اپنے منصب یا ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑ جاتے ہیں، حالانکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: "جو شخص شبہے والی چیزوں سے بچے گا وہ اپنے دین اور آبرو کو (نقص سے) بچا لے گا اور جو شبہ والی چیزوں میں پڑ گیا ( وہ حرام میں مبتلا ہو گیا) اس چرواہے کی طرح جو کسی کی چراگاہ کے اردگرد اپنے جانور چراتا ہے قریب ہے کہ اس چراگاہ میں واقع ہو جائے"۔

اسی طرح اللہ کے نبی ﷺ نے امت کو  مالِ فے کے بارے میں بھی آگاہ فرمایا مال فے سے مراد وہ مال ہے جسے مجاہدین قتال کے بغیر ہی حاصل کر لیں۔ خواہ  دشمن میدان جنگ سے بھاگ گیا ہو یا اس نے شکست تسلیم کر کے ہتھیار ڈال دیے ہوں یا دشمن نے وہ   مال خود مسلمانوں کے سپرد کر دیا ہو۔ ایسے مال کو اسی طرح تقسیم کیا جائے گا جس طرح اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے "بستیوں والوں کا جو مال اللہ تعالیٰ تمھارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگا دے وہ اللہ کا اور رسول کا اور قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کا ہے تاکہ تمھارے دولت مندوں کے ہاتھ ہی میں یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے"۔

اللہ تعالیٰ نے اس مال کو اپنے فرمان کے مطابق تقسیم کرنے کا حکم دیا تاکہ غنی لوگ اس مال پر قابض ہو کر فقراء کو محروم نہ کر دیں۔ آخری زمانے میں لوگ اللہ کی بیان کردہ تقسیم کی مخالفت کریں گے۔ مال دار اور بڑے لوگ آپس ہی میں اس مال کی بند ر بانٹ کر لیں گے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہی بات بتلائی گئی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا "جب مال فے کو آپس ہی میں بانٹ لیا جائے اور امانت کو بوجھ سمجھا جائے۔۔۔۔

اللہ رب العزت نے اپنی مخلوق کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے آپ ﷺ کو امت کی راہنمائی کے لئے بھیجا آپ ﷺ نے امت کو ہر اس بات سے آگاہ فرمایا جس کے بارے  انسان نہیں جانتے تھے۔ اسی طرح آپ ﷺ نے امت کو آنے والے اس وقت سے بھی آگاہ کیا جس سے انسان غلفت  کی حالت میں گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا چلا جاتا ہے۔ آپ ﷺ امانتوں کی پاسداری کرنے والے تھے اور یہی پیغام آپ ﷺ نے امت کو بھی دیا۔ کہ امین بنو اور امانتوں کو امانت سمجھو۔  اللہ تعالیٰ نے امانت کی حفاظت کرنے اور اسے صحیح سلامت اس کے مالکوں کی طرف لوٹانے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: " اللہ تعالیٰ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انھیں پہنچا دیا کرو"۔

آپ ﷺ نے اس بات کی پیش گوئی فرمائی کہ آخری زمانے میں یہ ہو گا کہ کچھ مال امانت کے طور پر حفاظت کے لئے ایک شخص کے حوالے کیا جائے گا مگر وہ اسے غنیمت سمجھ کر اپنی ملکیت تصور کر لے گا اور جب مالک اپنا مال  واپس طلب کر ے گا تو وہ اسے واپس کرنے سے انکار کر دے گا۔(یعنی امانت کو مال غنیمت سمجھ کر استعمال کر لیا جائے گا اور جو حق دار ہوگا وہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرے گا ۔

آج اگر معاشرے میں ہم نظر دوڑائیں تو یہ پیشگوئی پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ اس میں مزید اضافہ ہوتا چلاجارہاہے۔انصاف کے تقاضے پورے کرنے والے انصاف ہی نہیں کر پاتے کہ مال کب دیا تھا کس کو دیا تھا اور کس کے سامنے دیا تھا اور یوں حقدار قصوروار کہلاتا ہے اور باطل انسان کا بول بالا ہوتا ہے، جھوٹ اور سچ کی لڑائی میں جھوٹ کی جیت ہوتی ہے اور سچ کو دبا لیا جاتا ہے اسی طرح دولت کی خاطر بھائی بھائی کا گلاکاٹتا دکھائی دیتا ہے ، رشتہ داروں میں قطع رحمی بڑھتی چلی جارہی ہے ایک دوسرے کو پیچھے دھکیلتے ہوئے حرام مال کمانے کی ایک ایسی لت لگ چکی ہے کہ آج کا انسان موت تک کو فراموش  کر چکا ہے کہ انجام کیا ہوگا۔ انسان چکاچوند روشنیوں اور بلند معیارات کی ان دیواروں کو اپنے اردگرد بڑھاتا دکھائی دیتا ہے جہاں سے غریب ، مفلس دکھائی دینا بند ہوجاتے ہیں ۔اور وہ بھول جاتا ہے کہ ایک دن سب کچھ چھوڑ کر اللہ کے دربار میں جانا ہے تو کیا جواب دوں گا کہ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کر کے آیا ہوں۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو