آپ ﷺ نے کن چھ چیزوں کو حلال سمجھنے پرامت
کو عذاب
ِ الہی
کی وعید سنائی؟
قارئین کرام! اسلام ایک امن وسلامتی کی بستی ہے جس میں
کسی بھی قسم کی زیادتی ، فحاشی وعریانی ، بدگوئی ، کے لئے جگہ نہیں ہے۔ اسی طرح
فحاشی(دلدلی، مخملی اور دنیاکی خوبصورتی مگرآخرت کی آگ)
ذلت و رسوائی کی طرف اٹھنے والا پہلا قدم ہے اور یہ سیڑھی محض گمراہی
کی طرف لے کر جاتی ہے اور ہر گمراہی کا ایک ہی ٹھکانہ بتایا گیا ہے اور وہ ہے
دوزخ۔
دین اسلام خیروبرکت کا دین ہے اس دین مبارک
میں کسی غلیظ کام سے کسی بھی معاشرے میں فحاشی و عریانی، ہیجان انگیزی، فحش
گوئی، فحش تصاویر، فحش ویڈیوز،فتنہ وفساد وغیرہ سے وہاں کے رہنے
والے لوگوں میں غلاظت پھیلائی جائے یا آنے والی نسل نو کے لئے کچھ
گندگی چھوڑی جائے جس سے پوری انسانیت بدبو دار اور غلاظت میں مبتلا ہوجائے ذرہ سی
بھی نہ گنجائش ہے اور نہ ایسے کاموں کے لئے اجازت ہے اور نہ ہی جگہ ہے۔
قیامت کی بہت ساری نشانیوں میں سے ایک نشانی
حضرت محمدﷺ نے بیان فرمائی ہے قرب قیامت " معاشرے میں فحاشی کا ہر سو پھیل جانا"
اس بات کی دلیل ہے کہ قیامت بہت ہی قریب ہے۔ بس ہم ہی خواب غفلت میں ہیں۔ارشاد
ربانی ہے۔،
"یقینا واقع ہونے والی
گھڑی کیا چیز ہے یقینا واقع ہونے والی گھڑی اور
آپ کو کس چیز نے خبردار کیا کہ یقینا واقع ہونے والی (قیامت) کیسی ہے
بس (ملامت و گرفت کی) راہ صرف اُن کے خلاف ہے جو
لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی و فساد پھیلاتے ہیں، ایسے ہی لوگوں
کے لیے دردناک عذاب ہے
تو اب یہ لوگ صرف قیامت ہی کا انتظار کر رہے ہیں
کہ وہ ان پر اچانک آ پہنچے؟ سو واقعی اس کی نشانیاں آ پہنچی ہیں، پھر انہیں ان کی
نصیحت کہاں ہو گی جب قیامت آ پہنچے گی
فحاشی سے مراد ظاہری، تنگ و چست لباس کا
استعمال اور ایسے الفاظ کا ادا کرنا جن میں فحاشی و بے حیائی کا عنصر پایا
جائے۔یا اسی طرح ایک دوسرے کا گالی دینا اور لعن طعن کرنا جس سے معاشرے میں
فتنہ و فساد برپا ہو، بھی فحاشی میں شامل ہے۔ رسول اللہ ﷺہرگز فحش گو نہ تھے
اور نہ گالی گلوچ اور لعن طعن کرتے تھے۔ امام الانبیاﷺ فرماتے ہیں: " اس
ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! قیامت
اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک کہ فحاشی عام نہ ہوجائے"۔
ایک روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: اس اُمت کے آخر میں ایسے لوگ ہوں گے جو مہنگی گاڑیوں کی مخملیں
گدیوں پر بیٹھ کر مسجدوں کے دروازوں تک پہنچا کریں گے، ان کی عورتیں لباس پہننے کےباوجود برہنہ ہوں گی۔
ایک اور مقام پر رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا: اس اُمت کے اندر زمین
میں دھنسنے، شکلیں بگڑنے اور آسمان سے پتھر برسنے کا عذاب نازل ہو گا۔ تو کسی
صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسا کب ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب گانے اور
ناچنے والی عورتیں اور گانے بجانے کا سامان عام ہو جائے گا اورجب شرابیں سرِ عام
پی جائیں گی"
ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ" جب میری اُمت چھ چیزوں
کو حلال سمجھنے لگے گی تو اُن پر تباہی نازل ہو گی۔ جب اُن میں باہمی لعنت
ملامت عام ہو جائے، لوگ کثرت سے شرابیں پینے لگیں، مرد ریشمی لباس پہننے
لگیں، لوگ گانے بجانے اور رقص کرنے والی عورتیں رکھنے لگیں، مرد، مردوں سے اور عورتیں، عورتوں سے جنسی
لذت حاصل کرنے لگیں اس وقت تباہی و بربادی ان کا مقدر ٹھہرے
گی"
آج ہمارا معاشرہ نت نئی بیماریوں سے دوچار
نظر آتا ہے جس کو پہلے نہ کسی نے سنا تھا اور نہ ہی اس کا شکار ہوا تھا لیکن
آج ہر چہرہ لاچار اور بیمار ہے کوئی کرونا کا مریض ہے تو کوئی بلڈ پریشر،
شوگر، کینسر، دل اور ایڈز جیسی مہلک بیماریوں کا شکار ہے۔ (ایڈزجو اس
آڑیکل کی ضرورت کو پورا کرتی ہے اور ان احادیث کو جو اوپر بیان کی گئی ہیں ایڈز
ایک ایسا غیر فطری عمل ہے جو معاشرے میں ایسے مردوں
سے پھیلتا ہے جو بغیر کسی امتیاز کے زیادہ عورتوں سے جنسی تعلقات قائم رکھتے
ہوں، نیز ایسی عورتوں کو جو زیادہ مردوں سے جنسی تعلقات استوار کرتی
ہوں" ذرہ
سوچیں !ایسا کیوں ہے؟ جب ہم
اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر کسی دوسرے در پر عاجزی اور
انکساری کا پروان چڑھانے لگتے ہیں تو نتیجہ ایسا ہی ہوتا ہے،: فرمان
ہےکہ”جب بھی کسی قوم میں فحاشی و عریانی کا رواج بڑھتا ہے؛ یہاں
تک کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کرنے پر تل جاتے ہیں تو ایسے لوگوں کے درمیان طاعون
اور اس جیسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے اسلاف کے زمانے میں
موجود نہیں تھیں۔“
آج یہ بیماریاں اتنی عام ہو گئیں ہیں کہ بیماریاں لاعلاج ہوتی چلی
جارہی ہیں۔ ڈراموں میں دکھائے جانے والے
کردار اور بیہودہ زبان اور آزاد خیالی ، اور تھیڑوں کی صورت پروان چڑھنے والی
بدکاری ، عریانی و فحاشی جوناصرف آنے والی نسلوں کے لئے بلکہ موجودہ
نسل کے لئے زہر ہے اور ایسا زہر ہے کہ
پینے والے کو علم ہی نہیں ہے کہ گناہ ہے
کیا اور فحاشی کس غلاظت کا نام ہے یا جس کو علم ہے بھی وہ پھر بھی اس زہر کو پینے
کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں کہ کہیں موقع ہاتھ سے نہ چلا جائے ۔ ہماری جامعات
میں علم کا حصول کم دکھائی دیتا ہے جبکہ باقی غلاظتوں کا حصول زیادہ دکھائی دیتا
ہے جبکہ معاشرے میں پھیلتی ہوئی یہ بیماریاں اور ان کے نہ ختم ہونے والے مضر اثرات
یقینا عذاب الہی کو دعوت دینے کے مترادف ہیں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں ان گندگیوں سے
بچائے جو ناصرف ہمارے لئے بلکہ ہماری وجہ سے اس معاشرے میں رہنے والے تمام لوگوں
کے لئے مضر ہے۔ جب تک زندگی ہے اللہ رب العزت ہمیں عزت اور دین اسلام کے نقش قدم
پر چلنے کی توفیق ادا فرمائے۔۔۔۔آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔