آپ ﷺ نے والدین سے دوری اور
اجنبی لوگوں سے قربت والوں کے لئے کیا حکم فرمایا؟
قارئین کرام ! والدین کی عزت
و تکریم کا ذکر جتنا دین اسلام نے بیان کیا ہے شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے مذاہب
میں بیان کیا گیا ہو۔ والدین اللہ رب العزت کی عظیم نعمتوں میں سے ایک عظیم
نعمت ہیں، والدین پناہ ہیں، امان ہیں، گھنی چھاؤں، شجر سایہ دار، آغوش
رحمت ہیں، حفاظتوں کا حصال ہیں ، مشکلات ، تنگی و مصائب ، آلات کے
راستے میں ایک چٹان اور مضبوط ڈھال ہیں۔
اولاد کی خیر خواہی اور
محبت کا جذبہ والدین کےسینوں میں رکھا گیا ہے کسی اور میں نہیں رکھا گیا، یہ
ایک ایسا مبارک اور پاکیزہ وجود ہے جو اپنی اولاد کو ہمیشہ اپنے سے آگے
دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور اس محبت و الفت کا یقین اسے تب ہوتا ہے جب وہ خود باپ بنتا
ہے اور ایک لڑکی ماں بنتی ہے تب اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ رشتہ کتنا گہرا ہوتا ہے۔
اللہ رب العزت نے والدین کی
صورت میں جو رحمت رکھی ہےاور ساتھ ہی اولاد کو تلقین کی کہ ان کی عزت وتکریم کریں۔
ان کے پاکیزہ سایے کی قدر کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا " اللہ کی رضا والدین کی رضا
میں ہے، اللہ کی ناراضگی والدین کی نارضگی میں ہے" اگر کوئی
شخص اپنے والدین کو راضی کرلیتا ہے تو اس کو اللہ کی معرفت ملتی ہے اور اگر
والدین ناراض ہوں تو اللہ رب العزت بھی اس شخص سے ناراض ہوتے ہیں۔صرف ایک
جگہ فرمایا گیا کہ اگر والدین میں سے کوئی ایک اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں تو اس
صورت میں کہاگیا کہ ان کا کہنا نہ مانیں۔
اولاد کو پابند کیا گیا کہ
والدین کی ہر بات کو سرخم تسلیم کریں اسی میں ہی ان کی بھلائی ہے کیونکہ والدین کی
عزت سعادت مندی ہے ان کی خدمت بجا لانا ہمارے لیے باعث نجات ہے ،اولاد کے
ذمہ ہے ان کی خدمت کرنا اگرچہ والدین کی دی گئی بہت سی خدمتوں میں سے ایک تو
ہو سکتی ہے لیکن ان کا نعم البدل ہرگز نہیں ہو سکتا۔ کہیں اولاد یہ نہ سمجھ لے کہ
انھوں نے میری خدمت کی تھی لہذا اب میں نے ان کی خدمت کی ہے۔۔۔لیکن بہرحال
اگر انھوں نے آپ کی خدمت کی تو آپ سب کا بھی حق ہے کہ آپ بھی ان کی خدمت کو
اسی طرح بجا لائیں جس طرح خدمت کرنے کا کہا گیا ہے، اگرچہ انھوں نے آپ کی خدمت نہ
بھی کی ہوتی تو بھی والدین ہونے کے ناطے ہم سب پر لازم ہےکہ ان کی خدمت کریں۔ یہ
ہمارے لئے دنیا و آخرت کے لئے بہتر ہے کبھی بھولے سے بھی ان کی نافرمانی نہ کریں
ان کا دل نہ دکھائیں، تنگ نہ کریں، گالم گلوچ نہ بکیں،
ایک شخص اپنے باپ کے آگے چل
رہاتھا تو آپ ﷺ نے فرمایا " اپنے باپ کے آگے نہ چلو اس کو ادب سکھایا، باپ کے
آگے چلنے سے روکا۔ اسی طرح ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا اےاللہ کے
رسولﷺ "میرا بیٹا اپنی چیزوں کو مجھے ہاتھ نہیں لگانے دیتا !" آپ ﷺ نے
فرمایا اس کو بلاؤ جب پوچھا گیا تو" اس
نے بتایا کہ یہ میری چیزیں خراب کر دیتا ہے بوڑھا ہوگیا ہے اس لئے پتہ نہیں
چلتا "۔۔ آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
آپ ﷺ نے فرمایا"تو بھی اس کا ہے تیرا مال بھی اس کا ہے"
ایک وقت تھا جب تو اس کی چیزوں کو خراب کرتا تھا پر اس نے کبھی ماتھے پر بل نہیں
ڈالےآج یہ تیری چیزیں خراب کرتا ہے تو تو بے چین ہوگیا ہے۔
خوش دلی اور حسن سلوک کے
ساتھ والدین سےگفتگو کریں ۔ ایک والدین کتنے بچوں کا اکیلا پیٹ پال رہا ہوتا ہے آج
جب وہی بچے بڑے ہوکر ان بوڑھے والدین کا خیال رکھنا ، دو وقت کی روٹی کھلانا تو
درکنا ر ،ان کی نافرمانی کرتا ہے، گالم گلوچ، جائیداد کی لالچ میں قتل
وغارت، دھکے دیتا ہے، اپنے گھر سے باہر نکال دیتا ہے، اور وہ بوڑھاپے میں در در کی
ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جو سلوک انھوں
نے آج اپنے والدین کے ساتھ کیا ہے کل ان کے ساتھ بھی ہونا ہے یہ تو ادھا ر ہےکسی
نہ کسی دن تو چکانا ہوتا ہے یہاں نہیں تو آخرت میں۔
آپ ﷺ نے قیامت کی بہت ساری
نشانیاں اپنی امت کی خیر خواہی کے بتلائی انہی میں سے ایک نشانی یہ بتائی کہ قرب
قیامت لوگ" ماں باپ سے دوری اور اجنبی لوگوں سے محبت وقربت " زیادہ دکھائیں گے۔ اور آپ
ﷺ کی نبوت والی زبان سے نکلی ہر بات حق اور سچ ہے۔
جیسے جیسے ٹیکنالوجی
کا استعمال بڑھتا جارہاہے ویسے ویسے لوگ اپنوں سے دور ہوتے جارہے ہیں
اعتماد اوربھروسےختم ، کھوکھلےرشتوں کی بنیادیں ،دھوکہ دہی،بے نام سایے،
الجھنیں ، پریشانیاں، دکھ تکالیف، اور اجنبیوں اور غیرمحرم کے ساتھ ہم
نشینی ، الفت اور گرمجوشی دوستوں اور ساتھیوں کے لیے تو ہو جبکہ
ماں باپ کو نظر انداز کر دیں ، نئے دوست
بنانا ، ان سے بات کرنا، فحش مواد کی ترسیل کرنا، بعض
اوقات ہمارے نوجوان اپنے والد سے بڑھ کر دوستوں کے ساتھ انس و محبت دکھاتے ہیں اور
ان کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا زیادہ ہوتا ہے۔ خصوصا اس وقت جب باپ بوڑھا ہو اور
وہ اولاد کے ساتھ روزمرہ کے معاملات میں روک ٹوک اور ڈانٹ ڈپٹ سے کام لے۔ مگر اس
کے باوجود اولاد کے لئے اپنے والد کا حق پہچانناضروری ہے۔ ارشاد باری
تعالیٰ ہے "اور والدین کے ساتھ احسان (حسن سلوک ) کا
رویہ اختیار کرو"
یہ سب اسی دور حاضر کی
نشانی ہے جو اس وقت پورے عروج پر دکھائی دے رہی ہے۔ذرہ سوچیے گا کہ جب کبھی رات
گئے آپ کام کررہے ہوتے ہیں تو والد اکثر آپ کا انتظار کرتی رہتی ہے جب تک کہ آپ
گھر نہ آ جائیں اور کھانا نہ کھالیں ۔ وہ بھی اتنی ہی پریشان ہوتی ہے جتنے آپ ہوتے
ہیں وہ بھی ویسے روتی ہے جیسے آپ روتے ہیں ان عظیم ہستیوں کی قد
ر کریں ۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے والدین کی عزت و تکریم کرنے
کی استطاعت فرمائے جیسے کہ حکم دیا گیا ہے اطاعت اور فرمانبرداری کا۔۔۔آمین۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔