وہ کون سے چار حرام کام
ہیں جو امت محمدیہ ﷺحلال سمجھ لے گی؟
قارئین کرام! دین اسلام امن
اور سلامتی کا دین ہے اس سلامتی کو برقرار رکھنے کے لئے اللہ رب العزت
نے پیغمبروں اور انبیاء کرام کا سلسلہ جاری رکھا تاکہ وہ لوگوں کو اللہ کی
توحید ، وحدانیت کا درس دیتے رہیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
کے تقاضوں کو پورا کر تے ہوئے لوگوں کو ڈرائیں اور سمجھائیں اورپھر وقت
مقررہ تک اللہ کے حکم سے یہ سلسلہ بند کیا گیا لیکن ایک بات تو روز
روشن کی طرح عیاں ہے کہ جن کاموں کو کرنے سے اللہ نے منع کیا ہے ان سے رک
جانا ہی سلامتی ہے اور جن کاموں کو کرنے کی اللہ نے اجازت دی ہے ان کو
بھی ایک حد تک کرنے کو اجازت دی گئی ہے۔ مثلا شادی کرنے کی اجازت دی
گئی ہے لیکن اس میں اسراف کا ناپسند فرمایا گیا ہے۔
قیامت کی بہت ساری نشانیوں
میں سے ایک نشانی آپ ﷺ نے اپنی امت کو یہ بھی بتلائی گئی کہ قرب قیامت
لوگ "آلاتِ موسیقی ، زنا، ریشم اور شراب کو جائز
اور حلال سمجھیں گے"
ہمارے معاشرے میں ایسے
نمایاں حرام کام جو کہ کھلے عام چل رہا ہےاور جن کی حرمت اور پلیدگی سے آج کا
مسلمان بے خبر نہیں وہ زنا، شراب
نوشی، بیہودہ آلات موسیقی اور مردوں
کے لئے ریشم کا استعمال ہے غرض یہ کہ اس کی کوئی بھی
قسم یا طریقہ کا استعمال کیا جاناہے۔۔ آپ ﷺ نے اپنی امت کو خبر دی ہے "کہ
میری امت کا ایک گروہ آخری زمانے میں ان حرام چیزوں کو حلال کر لے گا اور آپ ﷺ نے
اسکو قربِ قیامت کی علامات میں شمار کیا ہے"۔ ان
حرام کردہ کاموں کو حلال سمجھ لینے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں جن کا آپ ﷺ نے اشارہ
فرمایا: اگر ہم اپنے اردگرد معاشرے میں نظردوڑائیں تو ہمیں کچھ ایسی ہی ذہنیت کے
لوگ ملیں گے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ ﷺ کی بات کس قدر سچ اور
حق ہے۔
o پہلی
صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ایسے لو گوں کا اپنے ذہن میں بناکسی ریسرچ کے
یہ اعتقاد قائم کرلینا کہ یہ حلال ہے
یا حرام ، اگر
حلال ہے تو کیوں ؟ اور اگر
حرام ہے تو کیوں؟ ( ایسی صورت کے لوگوں سے ہمارا معاشرہ بھرا
پڑا ہے کیونکہ جہالت بہت زیادہ ہوگی ہے اور ریسرچ کا تو نام ونشان ہی
نہیں ہے)
o دوسری
صوت یہ ہو سکتی ہے جو کہ بہت زیادہ عام ہوتی جار ہی ہے کہ لوگوں
میں ان حرام کردہ اشیاء کا استعمال اس قدر زیادہ ہو جانا کہ لوگ دیکھتے ہوئے بھی اپنے
زبان یا دل سے انھیں برا تک نہ کہے مطلب جو جیسے کر رہا ہے اسے کرنے دیا
جائے ۔ لوگ بے خوف خطر / بلاجھجک ان اشیاء کو بے دھڑک استعمال کریں اور ان
کے حرام یا حلال ہونے کا احساس تک نہ ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا " میری امت میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے
جو زنا، ریشم ، شراب اور آلات
موسیقی کو حلال سمجھیں گے۔ اور کچھ لوگ اپنی بکریوں کو
لے کر سستانے کے لئے ایک بلند پہاڑ کے دامن میں ٹھہریں گے ۔ اسی دوران میں ان کے
پاس ایک حاجت مند شحص آکر کچھ مانگے گا۔ یہ کہیں گے ہمارے پاس کل آنا۔ مگر رات ہی
میں اللہ تعالیٰ کا عذاب انھیں آپکڑے گا۔ پہاڑ ان کے اوپر آ گرے گا اور (کچھ
تو ہلاک ہو جائیں گے اور جو باقی بچیں گے) انھیں قیامت تک کے لئے بندر اور خنزیر
بنا دیا جائے گا"
یہ چاروں نشانیاں دور حاضر
میں اپنے پورے جوبن پر ہیں ناصرف جوبن پر ہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں
جس طرح ان چاروں کا ذکر ایک ساتھ فرمایا گیا ہے اسی طرح معاشرے میں بھی ایک
ساتھ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ صرف مسلم ممالک میں ہی نہیں بلکہ دنیا
کا کوئی ملک اس حرام کردہ بیماری سے پاک اور محفوظ نہیں ہے۔ اگر
میں آلات موسیقی کو لوں تو آج ٹی وی پر دکھائے جانے والے پروگرام اتنی تیزی سے
ابھر کر دکھائے جارہے ہیں کہ گھر میں بیٹھے کوئی شخص بوڑھا ہویا بچہ عورت ہو یا
لڑکی اس مرض میں مبتلا ہے بجائے دین سیکھنے اور سکھانے کے وہ لوگ میوزک کی
تربیت لے رہے ہیں اور ناسمجھی کی وجہ سے ہر مسلم گھر انے سے لوگ موسیقی کی دنیا میں
قدم جمانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں دوستوں، قریبی رشتہ داروں اور گھر کے بڑے بزرگ
اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو جہنم کا ایندھن بنانے میں لگے ہوتے ہیں۔
لوگوں نکاح کو آسان
بناؤ اور زنا کاری سے بچو! لیکن ہمارے معاشرے میں اعلیٰ
عہدیداروں اور حکومتی نمائندوں نے اس بات کو ہمیشہ الٹ ہی سمجھا تبھی تو ملک
کے ہر طبقہ کے صاحب استظاعت لو گ بھی اس بیماری میں ملوث ہوتے ہیں اور ایک
عام غریب طبقہ کا فرد میں اس بیماری میں ملوث پایا جاتا ہے ملک میں ذریعہ
معاش نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ پیٹ بھرنے کی غرض سے اسی حرام کاری کی طرف مائل
ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ آسان کام ہے بانسبت محنت مزدوری کرنے کے: بہت سے
مسلم ممالک کے لوگ زنا کاری اور شراب نوشی کے معاملات میں عادی ہو کر
بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ زنا کاری اور عصمت فروشی کو باقاعدہ قانونی تحفظ فراہم
کیا جاتا ہے ۔بالکل اسی طرح جیسے سود کا نام تبدیل کر لینے سے سود ختم نہیں ہوتا
اسی طرح زناکاری کی شکلیں اور نام تبدیل کرنے سے حرام کاری ختم نہیں ہوتی بلکہ اب
تو نت نئے طریقوں سے حرام کاری ہوتی جارہی ہے موبائل فونز اور مختلف اپیلی
کیشنز کی مدد سے زنا کو فروغ دیا جارہا ہے طوائفوں اور حیا باختہ عورتوں کو
باقاعدہ سرکاری سطح پر اجازت نامے جاری کئے جاتے ہیں، رہی سہی کسر میڈیا نے پوری
کر دی ہے۔
شراب پینا اور شراب
بیچنا اور اس کی سپلائی کرنا صرف غیرمسلم ممالک تک محدود نہیں رہی
بلکہ مسلمان ممالک میں بھی زورو شور سے پی جاتی ہے، بنائی جاتی ہے اور
ترسیل بھی کی جاتی ہے اور اس کے اجازت نامے سرکاری سطح سے جاری کیے
جاتے ہیں ۔آج پاکستان میں اگر کسی بڑے عہدیدار ، نواب ، جاگیردار، وزراء یا
حکومتی نمائندے کے گھر شادی یا پارٹی کی تقریب منعقد کی جائے تو شراب کو پانی کی
جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ شراب کے ساتھ رقص وسرود اور زنا کاری کی محفل
منعقد نہ ہو یہ ہو نہیں سکتا ، کھلے عام شراب کی ترسیل ہوتی ہے لیکن ملک کے محافظ
پولیس بھی اس کام کو سرانجام دینے میں پوری طرح سے سرگرم رہتی ہے۔ جس ملک کی
عوام ہی جوتوں کے لائق ہو وہاں ایسے ہی حکمران لائے جاتے ہیں جو پہلے سے ہی گمراہ
ٹولوں سے نکل کر آیا ہوتا ہے وہ خود بھی گمراہی کے اندھیروں میں دربدر ہوتا ہے وہ
اپنی عوام کو بھی اسی اندھیروں میں دھکیلنے میں پورے مواقع فراہم کرتا چلاجاتا ہے
اور عوام اندھوں کی طرح اسی ماحول کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔حکومت چاہے تو
کیا کچھ نہیں ہوسکتا اس کی روک تھا م کے لئے۔۔۔۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "
میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے اور اس کو کسی دوسرے نام سے موسوم کریں
گے۔ ان کے سروں پر گانے والی عورتیں آلات موسیقی کے ساتھ گیت گائیں گی۔ اللہ
تعالیٰ انھیں زمین میں دھنسا دے گا اور بعض کو بند ر اور خنزیر بنا دے گا"
موسیقی کے آلات کا بے
تحاشا استعمال اور گانے سننا ہے۔ یہ گانا بجانا دل کے امراض پیدا کرنے، اللہ کے
ذکر اور نماز سے غافل کرنے اور قرآن مجید کےسننے اور اس سے فائدہ اٹھانے سے روکنے
کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے
" اور
لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو لغو باتیں خریدتے ہیں تاکہ بے علمی سے لوگوں کو
اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے
والا عذاب ہے"
دورِ حاضر میں موسیقی ،
زنا اور شراب کے ساتھ ساتھ ایک اور حرام کردہ بیماری بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہے اور
وہ ہے مردوں کا ریشم استعمال کرنا (ریشمی لباس) پہننا وغیرہ۔ آپ ﷺ نے فرمایا
"میری امت کے مردوں کے لئے ریشم اور سونا حرام ہے" پھر
ایک اور جگہ فرمایا "جس مرد نے دنیا میں ریشم
پہنا گویا آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں" اسی طرح پھر فرمایا "جس
مرد نے سونا پہنا گویا اس نے جہنم کا انگارہ اپنے ہاتھوں میں لیا ہو"
آج افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ
آج کی نوجوان نسل اس سے بالکل نابلد ہے کچھ بھی نہیں جانتی باقاعدہ کرتوں پر سلک
کی سلائی کی جارہی ہے نت نئے ڈیزائنوں میں فروخت ہو رہی ہے اور لوگ بلاجھجک
خریدو فروخت کرتے ہیں۔ آج کا میڈیا ہر وہ غلط کام دکھاتا ہے جو درحقیقت پردے میں
رہنے کے ہی کیوں نہ ہوں لیکن اپنے چینلز سے وہ ہرگز ایسے پروگرام نہیں
دکھائے گا جن سے امت کو منع کیا گیا ہو۔ میں صرف ایک ہی مثال دیتا ہوں باقی آپ خود
دیکھیں اور سمجھیں حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ آلات موسیقی حرام ہے
لیکن میڈیا یہ پیغام لوگوں کو نہیں پہنچائے گا کیونکہ وہ خود ہی تو ایسے پروگرام
دکھا رہا ہے اور دنیا کی دولت نے ایسے لوگوں کو اندھا کر دیا ہے اور ایسے لوگ حق
بات کو چھپاتے ہیں اور باطل کو ظاہر کرتے ہیں۔ جبکہ
بعض دوسرے چینلز کا کام صرف یہ کہ وہ چوبیس گھنٹے پاپ میوزک اور عیاشی و
فحاشی کے پروگرام ہی پیش کرتے رہیں۔ ان میں خبروں یا تلاوت قرآن کریم کے لیے
معمولی وقفہ بھی نہیں کیا جاتا۔ یہ صورت حال قیامت کی نشانیوں میں سے ہے اور نبی
کریم ﷺ کی پیشین گوئی کی صداقت کی دلیل ہے۔ ایک بندہ مسلم کے لئے ان سے بچنا واجب
ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:"گانا
اس طرح دل میں نفاق پیدا کرتا ہے جس طرح پانی سے کھیتی اگتی ہے"۔
لوگو! اپنے گھر کے افراد کی
تربیت کریں ابھی سے چھوٹے بچوں کو سمجھائیں اور بچائیں ان کو اور خود کو
بھی۔۔۔۔۔آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔