قرب قیامت ایک شخص صبح کو مومن اور شام کو کافر کیوں ہو جائے گا؟
قارئین کرام! آخرت پر ایمان لانا
ایمان کا ایک بنیادی جزو ہے۔ اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ کے
رسول حضرت محمدﷺ ایک سچے اور آخری نبی ہیں۔ اور اس بات پر بھی کوئی شک نہیں کہ
قیامت آنے والی ہے کب آنی ہے؟ کس وقت آنی ہے؟ اس کا علم صرف اور صرف اللہ رب
العزت ہی بہتر جانتے ہیں کیونکہ عالم الغیب اللہ کی ذات اقدس ہے، لیکن اللہ نے جو
بھی امت کی بھلائی کے لئے اپنے پیغمبر کے ذریعے ہم تک تعلیمات پہنچائی ہیں
وہ سب کی سب برحق اور سچی ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنی امت کو جو نشانیاں بتلائی ہیں ان میں
سے ایک نشانی یہ بتلائی کہ "ایک وقت ایسا آئے گا کہ ایک شخص اگر صبح کے وقت
مومن ہے تو شام کو کافر ہو جائے گا"۔
فتنوں کا تیزی سےظہور
ہونا اور خواہشوں
کی کثرت کا ہوجانا اور اہل
خیروصلاح کی شدید کمی اور قلت کے باعث لوگوں کے
حالات وواقعات ، طورطریقوں ، اتار چڑھاؤ میں بہت تیزی سے تبدیلی ، تذبذب اور
اختلاف کا ہوتے چلے جانااس بات کی دلیل ہے کہ ایک شخص اگر صبح کے وقت مومن ہے تو
شام کو کافر ہو جائے گا ، یعنی ایک حال پر برقرار نہیں رہے گا۔ یہ نشانی بھی اپنے
دور میں پورے جوبن پر ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید شدت ہوتی جا رہی ہے۔دنیا
کے چند ٹکوں کے باعث بھائی بھائی کی جان کا پیاسا بن جاتا ہے، قول وفعل میں
تضاد ہورہا ہے، وعدہ خلافی ، امانتوں کا ضیاع، حقوق کی پامالی، حق تلفی، ناجائز
تعلقات، رشوت زنی، غرض ہر وہ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام جن کا
تعلق انسان کے ایمان سے ہےوہ اس زمرے میں شامل ہے۔
آپ ﷺ
نے فرمایا"اندھیری شب کے ٹکڑوں جیسے فتنوں کے سیلاب سے
پہلے پہلے نیک اعمال کر لو۔ آدمی صبح کے وقت تو مومن ہو گا لیکن شام ہونے سے پہلے
کافر ہوجائے گا یا شام کے وقت تو مومن ہوگا مگر صبح ہونے سے قبل کافر ہوچکا ہو گا۔
آدمی معمولی سے دنیاوی فائدے کے عوض اپنا دین فروخت کردے گا"۔
اس حدیث سے کئی اشارے ملتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ:
o فتنوں
کی شدت اور سنگینی اس قد ر زیادہ ہوگی کہ باہمی قتل وقتال اور
خونریزی کے باعث دین و اسلام تاریکی میں ڈوبتے نظر آئیں گے۔دین کی
دعوت ، دین کی اشاعت اور اصلاح کرنے والے بہت کم رہ گئے ہوں گے جس کی وجہ سے وہ
خود بھی بہت کم اعمال کرنے والے ہوں گے یا ان کا ایمان بھی کمزور ہو چکا
ہوگا، جس کی وجہ سے وہ اپنی آنکھوں سے برائی ہوتا تو دیکھ رہے ہوں گے لیکن
اس برائی کو روکنے کی ہمت نہیں ہوگی نا ہی اسے دل میں بُرا جانتے ہوں گے جس
کی وجہ سے معاشرے میں انتشار پھیلتا جائے گا۔
o یہ
بھی ممکن ہے کہ اس وقت اچھائی وبرائی ، حرام وحلال ، نیکی بدی، حق و باطل کے
درمیان فرق کرنا اس قدر مشکل ہوجائے جیسے اندھیری رات میں کسی کو شناخت کرنا ممکن
نہیں ہوتا ۔
o اس
وقت سے پہلے نیک عمل کرنا انتہائی مشکل اور دشوار گزارہو جائے گا ، ،
پے در پے روز افزوں فتنوں کے اس دور میں جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح ہو ں گے
اور چاندنی کا اس میں نشان تک نہیں ہو گا۔
o یہ
فتنے اس قدر عظیم اور ہولناک ہوں گے کہ انسان میں ایک ہی دن میں اتنی بڑی تبدیلی
رونما ہو جائے گی، گویا لوگوں کے عقائد ونظریات، قول و فعل،طورطریقوں ، رہن سہن ،
چال چلن ، لین دین، ناپ تول میں تبدیلی آ جائے گی۔
o یہ اس
زمانے کا حال ہے جس میں انسان کا دین بے حد کمزور ہوگا ۔ دین کے بارے میں اسے بہت
سے شک و شبہات ہوں گے۔ دین کی قطعا کوئی واقفیت نہ ہوگی یعنی دین اتنی دوری ہوچکی
ہوگی کہ دین نام کا مطلب تک لوگوں کو یاد نہیں ہوگا اور وہ گمراہی کے عمیق
اندھیروں میں دھنستے چلے جائیں گے۔یا لوگ دین کو جانتے ہوئے بھی دین کو ترک
کردیں گے دین کے بتائے ہوئے اصول اور تعلیمات کو فراموش کر دیں گے۔ یا کسی دنیوی
مفاد اور ذاتی مصلحت کی وجہ سے دین کے بارے میں اس کے پایہ ثبات ( ثابت قدم/مستقل
مزاجی) میں ڈگمگاہٹ پیدا ہو جائے گی۔ ہمارا موجودہ دور بھی اس حدیث کا مصداق ہے۔
o یا اس زمانے میں
لوگوں کی حالت ایسی ہو گی کہ نہ تووہ دین کے رہیں گے اور نا دنیا کے،کبھی دینداری
اور راست بازی پر چلنے کو ترجیح دیں گے تو کبھی بددیانتی اور بداعمالی کر ترجیح
دیں گے، کبھی بدعت کی راہ اپنا لیں گے تو کبھی سنت پر عمل پیرا ہونے کو ترجیح دیں
گے۔کبھی شک و شبہات اور گمراہی میں بھٹکیں گے تو کبھی ایمان کی دولت
سے مالامال ہونگے۔غرض یہ کہ انسانی زندگی غیر یقینی کیفیت سے دوچار ہوگی ہر
گھڑی ہر لمحہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہوا دکھائی دے گا اس کو خود بھی
نہیں پتہ ہوگا کہ اسکی زندگی کا اصل مقصد ہے کیا ؟ اور وہ کس کیفیت و واقعات سے
گزر رہا ہے۔
o خوش قسمت ہو گا وہ شخص
جو اس دور میں ان فتنوں سے جتنازیادہ دور ہوگا بانسبت اس شخص کے جو ان فتنوں
کے زیادہ قریب ہوگا۔، لوگوں کے معاملات و کاروبار سے لاتعلقی اور
علیحدگی اختیار کرلینا اور گوشہ نشینی میں پڑے رہ کر اپنے دین کی حفاظت
کرنا، اس وقت نجات کی سب سے بہترین راہ ہوگی جب کہ مسلمانوں کے باہمی قتل و
قتال، خونریزی ، انتشار و فسادات ، اور فنافقت کا فتنہ پھیل چکا ہو
گا۔
یہ تو تشریحات اور کچھ اشارات کو بیان کیا
گیا ہے لیکن اس حدیث کو میں اگر کچ سمجھا ہوں تو وہ اس طرح کہ آج ہر
گھر کے فرد کے پاس موبائل فونز ہیں ، موبائل فون رکھنا کوئی بری بات نہیں لیکن اس
کا غلط اور بےجا استعمال بہت برا ہے مثلا آج کی نوجوان نسل رات گئے تک انٹرنیٹ اور
ویڈیوز کلپ اور دوستوں سے چیٹ کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں اور تہجد تو چھوڑ دو صبح کی
نماز تک نہیں پڑھتے، کیونکہ گھر کے بزرگ خود نہیں پڑھتے تو بچوں کو کیا سمجھائیں
گے۔ یہی سے اس حدیث کو سمجھیں کہ انسان جب اچھے کام کرتا ہے تو وہ مومن ہوتا
ہے لیکن جیسے ہی وہ ٹی وی ڈرامےیا دیگر پرواگرمز میں مصروف ہوکر اللہ کی یاد سے
غافل ہوتا ہے تو وہ کفر کی زمرے میں چلا جاتا ہے۔قسم کھائی ہے کہ قرآن کو ہم نے
رمضان کے مہینے میں کھولنا ہے اس کے علاوہ نہیں کھولنا، ہماری سکول کی کتب میں سے
اسلامیات کو اختیاری مضمون جیسی حیثیت دی جاتی ہے وہ بھی نہ ہونے کے برابر، جب
ہمارے نصاب میں سے ہی دین اور حق کی باتوں کو الگ کیا جاتا ہے تو پارلیمنٹ میں
بیٹھے دین کے ٹھیکدار نیند کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں۔۔ان کو اس سے کوئی غرض نہیں
ہوتا ہے کہ آج جو وہ بو رہے ہیں کل آنے والی نسلوں کے لئے وہ کتنا سود مند ہے یا
نہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔