آپ ﷺ کا اس دنیا میں تشریف لانا
محترم قارئین کرام !بنی اسرائیل
ہمیشہ ہی اپنے نبیوں کو قتل کرتا آیا ہے اپنی عادت کے پیش نظر یہی روایت جب
انھوں نے حضرت عیسی ٰ ؑ کے ساتھ برتنا چاہی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ
کو زندہ آسمان پر اُٹھا لیا اورعیسائیت میں رفتہ رفتہ ہدایت کی روشنی دم
توڑنے لگی ۔
تودین کے ٹھیکداروں نے شرعی تعلیم کو
اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیاحق بات کو چھپانا، جھوٹی
گواہی دینا، شراب پینا ، زنا، جوا غرض ہر اس کام سے منع کرنے کے باوجود بھی
انھوں حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیا تو نتیجہ صرف اور صرف گمراہی ہی تھا۔
ہوسکتا ہے اللہ پاک نے انسانوں کی بھلائی
کے لئے کئی ہدایت دینے والے بھیجے ہو "واللہ اعلم "
لیکن انسان تھے کہ مسلسل خرافات اور گمراہی کا شکار تھے۔ اگر ہم اسلام
سے پہلے عرب کی سرسری حالت کا جائزہ لیں تو اس سے ہمیں اتنا اندازہ تو ضرور
ہو گا کہ یہ لوگ کس قدر گمراہ ہوچکے تھے ایسا لگتا ہے کہ کبھی ان کے درمیان کوئی
سمجھانے والا آیا ہی نہ ہو۔
عرب قبائل میں رہتے تھے ان
کی معاشرتی ، معاشی ، مذہبی ،اخلاقی طرز زندگی سے ایسا لگتا ہے جیسے اقدار
ان کےپاس چھو کر بھی نہیں گزرے تھے۔ حالانکہ اسی سرزمین سےکئی اچھے ادب سے دلچسپی
رکھنے لوگ بھی پید ا ہوئے۔
لیکن شاید ان کے کلام میں اتنا دم نہیں تھا کہ
وہ لوگوں کے طرز روایات تبدیل کر سکتے۔ یہ قبائل چھوٹی چھوٹی وجوہات کی
بنا پر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے تھے اور ایک دوسرے کو ہلاک کرتے تھےاور کئی کئی
سال تک رنجشیں اور لڑائیاں جاری و ساری رہتی ان سب
کے باوجود بھی بت پرستی ، بدعنوانی ، وسوسے ، توہمات پرستی ، وحشی پن،اپنے عروج پر تھا۔
ایک عورت کئی مردوں کے نکاح میں ہوتی اور مردوں کی کئی کئی
عورتیں ہونے کے باوجود بھی عرب میں زنا کا زوروشور تھا۔ سوتیلی مائیں اپنے
سوتیلوں سے نہ صرف یہ کہ شادی کرسکتی تھی بلکہ بھائی بہنوں میں شادی کا رواج
عام تھا ۔
مردوں اور عورتوں کو
پوری آزادی حاصل تھی۔ اپنے آقاوں/ خداوں کو خوش کرنے کے لئے انسانوں کی قربانی عام
تھی۔ باپ اپنے بچوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں کی بناء پر قتل کیا کرتے تھے
، غربت یا ہٹ دھرمی کے عوض خواتین کے ساتھ توہین آمیز سلوک عام تھا انہیں
ہمیشہ ہی حقارت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
اور عورتوں کو معاشرے
میں کوئی حیثیت حاصل نہیں تھی اور نہ ہی وراثت میں اس کا کوئی حق ہوتا۔ لڑکی کی
پیدائش کو لعنت سمجھا جاتا تھا اور اسے زندہ دفن کیا جارہا تھا ، غلامی بدترین شکل
میں مسلسل پروان چڑھ رہی تھی کیونکہ مالک کو پورا حق حاصل تھا چاہیے وہ اسے
موت کے گھاٹ ہی کیوں نہ اتار دے۔
ان سب برائیوں کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ
کو کچھ اور ہی منظور تھا اللہ پاک نے ساڑھے چھ سو سال بعدیعنی حضرت عیسیٰؑ کے بعد
آخری نبی حضرت محمد ﷺ خاتم النبیین کو ان لوگوں میں معبوث فرمایا۔
اور
قیامت تک کے آنے والے انسانوں کے لئے رہنمابنا کر بھیجا۔ نبوت کا سلسلہ مکمل ہوا،
قرآنی تعلیمات مکمل ہوگئی، اور دین اسلام کو اللہ نے چن لیا اور مکمل کردیا۔قیامت
تک شریعت محمد ی پر ہی چلنا ہے ۔ اطاعت نبی ہی دراصل اطاعت اللہ ہے جو بھی
اس سے منہ موڑتا ہے وہ واضع گمراہی میں ہے۔
آپ ﷺ کی بعثت ہی قیامت صغری ٰ کی پہلی نشانی ہے
نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو
آگاہ فرمایا ہے کہ آپﷺ کی بعثت قربِ قیامت کی دلیل اور نشانی ہے۔ یہ قیامت کی چھوٹی نشانیوں میں سب سے پہلی نشانی ہے۔
ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی انگشت
شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا " مجھے اور قیامت کو اس طرح ایک ساتھ بھیجا گیا ہے جس
طرح یہ دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں
آپ نے یہ بھی فرمایا کہ" مجھے قیامت کے آغاز
میں بھیجا گیا ہے"۔
علماء کرام
فرماتے ہیں " قیامت کی پہلی نشانی نبی کریم ﷺ کا
تشریف لانا ہے کیونکہ آپ ﷺ نبی آخر الزماں ہیں اور آپ ﷺ کے اور قیامت کے
درمیان کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے۔
مزیدآرٹیکل پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
Bohat behtreen
جواب دیںحذف کریںAllah hum sub ko Akmal ki tufeeq farmay
جواب دیںحذف کریںSubhanallah
جواب دیںحذف کریںSubhan Allah ❤️❤️
جواب دیںحذف کریں