google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 آپ ﷺ کی وفات کے سات سال بعدعمواس کے لوگوں پر کیسا عذاب نازل ہوا؟ - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

منگل، 28 جولائی، 2020

آپ ﷺ کی وفات کے سات سال بعدعمواس کے لوگوں پر کیسا عذاب نازل ہوا؟

آپ ﷺ کی وفات کے سات سال  بعدعمواس کے لوگوں پر کیسا عذاب نازل ہوا؟

 یہ علامت قیامت کی ان بہت ساری چھوٹی نشانیوں میں سے ایک ہے جس کا آپ ﷺ نے اپنی حدیث مبارکہ میں نشاندہی کی یہ نشانی حضرت عمرفاروق ﷜ کے دور خلافت میں واقع ہو چکی ہے۔  جس حدیث میں اس کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اس حدیث میں موجود لفظ مُوتَانُُ، مبالغے کا صیغہ ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ بہت زیادہ لوگوں کی موت واقع ہوگی۔ جس طرح کسی  بھی ملک میں وبائی امراض  کی وجہ سے  لوگ ، ہزاروں اور لاکھوں  کی تعداد میں لقمہ اجل ہوجاتے ہیں۔کہاجاتا ہے کہ اس بیماری سے لگ بھگ کوئی پچیس ہزار مسلمان موت کا لقمہ بنے۔





عمواس (عمواس قبلہ اول (بیت المقدس )کے قریب فلسطین میں ایک چھوٹی سی  بستی کا نام ہےعام طور  "ایمواس"  بولاجاتا ہے ، عربی زبان میں "ایموس" کہا جاتا ہے ، لگ بھگ   پہلی صدی عیسوی میں یہ ایریا رومی فوج کے تسلط میں رہا اور ایک مضبوط کیمپ کے طور پر استعمال ہوتا رہا تھا رومیوں کے نزدیک یہ جگہ" نک پولس" کے نام سے جانی جاتی تھی ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غالباِِ تیسری صدی کے آغاز میں یہ بستی چھوٹے سے شہر میں تبدیل ہوچکی تھی۔ جنگ  یرموک کی لڑائی کے بعد مسلمانوں نے بازنطینیوں سے اس پر قبضہ کرلیا۔  جب اس  جگہ طاعون  کا مرض پھوٹا ،  تو اس جگہ کو بطور مسلم کیمپ  استعما ل کیا گیا جہاں مال ِ غنیمت کی تقسیم  سے لیکر فوجیوں کی تنخواہوں تک کا کام کیا جانے لگا۔)   طاعون جو کہ ایک وبائی بیماری ہے۔ علامتی صورت میں  ایک پھوڑا / گلٹی یا سوزش جسم کے کسی حصے میں نمودار  ہوتی ہے اور اس کے ساتھ مریض کو شدید درد اور بے چینی ہوتی ہے۔اس پھوڑے سےبہنے والا زہریلامواد  جسم میں تیزی سے سرایت  کرتا چلاجاتا ہے جس سے  انسا ن کی موت واقع ہوتی ہے۔یہ مرض حد درجہ مہلک ترین ہے۔

اگرچہ اس وبائی بیماری کی مخصوص علا مات کے بارے میں تفصیلا بیا ن نہیں کیا گیا  صرف اتنا ہی سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ یہ بیماری  جانور کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، اس کے نتھنوں  سے ایک زہریلا مادہ خارج ہونے لگتا ہے اور وہ مادہ جسم میں اتنی تیزی سے سرایت کرتا ہے جسم نڈھال ہوتا چلاجاتا ہے حتی کہ موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے  اس کثرت موت  کو "قُعَاصُ الْغَنَمْ سے تشبیہ دی ہے کیونکہ اس متعدی مرض  سے  بھی بدن میں ایک ایسا ہی زخم  / پھوڑا / گلٹی نمودار ہوتی ہے۔ جس سے ایک گاڑا زہریلا  مادہ خارج ہوتا ہے اور مریض اس کے باعث موت کے شکار ہوجاتا ہے

ایک روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "قیامت سے پہلے چھ چیزیں شمار کر لینا" اور آپ ﷺ نے ان میں  سے وبائی امراض سے کثرت اموات کا ذکر بھی فرمایا کہ جس طرح سے بکریوں کے ریوڑ کے ریوڑ متعدی بیماری کی نذر ہو جاتے ہیں ، اسی طرح انسانوں کی اموات ہوں گی۔

اس وبائی مرض کی نظرمیں  بہت سے جلیل القدر صحابہ کرام ﷡بھی  اس کی لپیٹ میں آ کر اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ان  میں سیدنا  حضرت معاذ بن جبل (معاذ﷛ کی دو بیویاں اور ان کا  بیٹا )، حضرت سہیل بن ہشام ، حضرت ابوعبیدہ  بن جراح،  حضرت حرث بن ہشام ﷛ اور انکے خاندان کے ستر افراد جو ملک شام میں مقیم تھے، حضرت شرحبیل بن حسنہ ،  (معاذ  ﷛کے جانشین حضرت یزید بن ابی سفیانحضرت فضل بن عباس بن عبد المطلب     (حضرت سہیل ابن عمرو  ،   حضرت سہیل    کا بیٹا ابو جندال  ﷛)،  اور بعض دوسرے حضرات بھی شامل تھے۔ 

اس موذی مرض سے شام کے مقامی لوگ (عیسائیوں، یہودیوں) میں کافی جانی ، مالی نقصان ہوا  ہر طرف لوگ بے سروسامانی جان بچانے کے لئے ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مار تے رہے۔ہر طرف موت ہی موت دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے باوجود اشیاء خوردونوش  کی قیمتوں میں اضافے اور ذخیرہ اندوزی  کی روایات برقرار رکھی گئی  خوراک کے ان ذخائر کی موجودگی  میں چوہوں  کے راج اور چوہوں سے پھیلنے والے طاعون نے انسانوں کی آبادی کو موت کی ابدی نیند سلادی۔ جس پر سیدنا حضرت عمر بن خطاب  ﷛ نے  سختی سے ذخیرہ اندوزی پر پابندی لگا دی۔

آپ ﷺ کے وفات کے لگ بھگ  7سال بعد یہ پہلی قدرتی  آفت طاعون کی صورت میں "عمواس" میں پیش آئی ۔اس کے بعد شدید قحط پڑا، جس سے مسلمانوں کو بہت زیادہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ وبائی مرض  (جدید سویز ) کے نزدیک سے شروع ہوتا ہوا۔ قسطنظنیہ  پہنچنے سے پہلے اور اسی طرح  فلسطین کا مشرقی حصہ اور اسکندریہ  (مصر) کے  مغربی  حصے تک تیزی سے پھیل چکا تھا۔ صرف عرب قبائل جو کے تیزی سے نقل مکانی کرتے جارہے تھے مشرقی صوبہ خراسان کے طرف وہی اس متعدی اور مہلک ترین مرض سے بچ گئے تھے۔ 

آج کل میڈیکل سائنس  نےکافی ترقی کر لی ہے اور کافی حد ایسی وبائی امراض کا علاج کیا جاسکتا ہے اور کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ لیکن بات ایمان کی ہے جب اللہ کی ناراضگی آتی ہے تو وہاں سب کی سب کوششیں بیکار ہو جاتی ہے۔  اور وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔

اللہ رب العزت سے استدعا ہے کہ وہ ایسی مہلک بیماریوں سے ہم سب کو بچائے ۔۔ آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو