آپ ﷺ نے بازاروں پر قبضہ کرنےاور تجارت کے وسیع ہونے پر کیا پیشنگوئی فرمائی؟
دوستو! آپ نے وہ حدیث تو سنی
ہو گی جس میں آپ ﷺ نے فرمایا " کہ روئے زمین پر سب سے
خوبصورت جگہ مسجد ہے اور سب سے بد ترین جگہ بازار ہے"۔
آج کے اس آرٹیکل میں ہم بات کریں گے قیامت کی ان بے شمار نشانیوں میں
سے ایک نشانی جس کا ذکر آپ ﷺ نے فرمایا کہ قرب قیامت خاوند کے کاروبار میں بیوی
حصہ دار ہوگی، تجارت کا عروج اور دائرہ کار بہت وسیع ہو جائے گا اوراس کے ساتھ
ساتھ بازار تنگ ہوتے جائیں گے ، اور سرغنہ لوگ قابض ہوتے جائیں گے۔
خاوند کے کاروبار میں بیوی کی شراکت کوئی بُری
بات نہیں اگر اللہ نے مال ودولت سے نوازا ہے اور وہ اچھے مقاصد کے تحت
ایمانداری سے کام کریں تو کوئی بری بات نہیں۔تاریخ اسلام میں جھانک کر دیکھیں تو
حضرت خدیجہ سمیت کئی دیگر صحابیہ کاروبار کیا کرتی تھیں لیکن اللہ کی بتائی
ہوئی حدود میں رہتے ہوئے وہ یہ کام سرانجام دیتی تھیں۔ یہی بات اللہ نے قرآن
مجید کی سورۃ نساہ میں کچھ اس طرح سے فرمائی۔" مردوں کے لیے اس میں سے
حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے
کمایا"
آج کہ اس بےہنگم دور میں جس طریقے سے عورت کا استعمال کیا جارہا ہے
قابل افسوس ہے جس کا ہمارا دین قطعی اجازت نہیں دیتا۔حرام حلال کی پرواہ کیے
بغیرآج کے ادارے ،کمپنیاں، فیکڑیاں عورت کی آڑھ میں دھوکے اور فریب کا سامان بیچتے
اور خریدتے ہیں۔ہائے افسوس کہ آج کی عورت بھی جہالت کے عوض اسے ماڈرن ازم سمجھتی
ہوئی نیم عریاں لباس زیب تن کئے ہوئے لوگوں کے سامنے اشیاء کی خریدوفروخت میں ملوث
نظر آتی ہے۔یہ غلط ہے جس کا ہمیں اشارہ دیا گیا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے
دور میں تجارت کے کام میں آسانیاں پیدا ہونے کے
باعث اکثر لوگ اس پیشے کو اختیار کر رہے ہیں، حتی کہ بیوی اپنے شوہر کی
تجارت کے انتظام میں شریک ہو تی ہی نظر آتی ہے۔ ان دونوں علامتوں کا ذکر حدیث میں
ایک ساتھ آیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: " قیامت
کے قریب خاص خاص لوگوں کو سلام کیا جائے گا، تجارت بہت پھیل جائے گی حتی ٰ کہ عورت
اپنے خاوند کی تجارت میں مددگار بنے کی۔ قطع رحمی کی جائے گی، جھوٹی گواہی دی جائے
گی، سچی گواہی چھپائی جائے گی اور قلمی تحریروں کا دور دورہ ہو گا۔"
اگر اس حدیث کو دیکھتے ہیں تو بالکل ایک ایک
بات سچی ہو چکی ہے کوئی شک باقی نہیں رہ گیا کیونکہ آج لوگ کہیں بھی بیٹھ کر
کاروبار کر رہے ہیں نت نئے طریقے ایجاد ہوتے جارہے ہیں لوگ گھر بیٹھے چیزیں
منگوا رہے ہیں تجارتی لین دین روزبروز نئی شکل اختیار کرتا جار ہا ہے، اشیاء کی
خریدوفروخت میں جس قدر جھوٹ، جعلسازی، مکاری، عیاری اور فریب کا
استعمال کیا جارہا ہے ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے۔ایک
دوسرے پر بھروسہ ہی ختم ہو گیا ہے، زبان کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے، رشوت کا بازار
گرم ہےپیسہ پھینک کر ایمان بھیجا اور خریدا جاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قیامت سے پہلے ایسے ایسے فتنے ہوں گے جیسے سیاہ (تاریک) رات کے حصے۔ اس وقت آدمی صبح کے وقت
مومن ہوگا اور شام کے وقت کافر ہوگا اور اگر شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کافر
ہوگا ۔ایسے وقت میں جو بیٹھا ہے وہ کھڑے ہوئے شخص سے بہتر ہوگا اور جو
چل رہا ہے وہ دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ پس تم اپنی کمانیں توڑ دینا اور کمان کی
تانت کاٹ دینا اور اپنی تلواریں پتھروں پر مار دینا (تاکہ یہ چیزیں کسی فتنہ میں
استعمال نہ ہوسکیں) پس اگر کسی شخص کو تمہارے پاس بھیجا جائے تو پھر ابن آدم کے
اچھے بیٹے کی طرح ہونا (یعنی ہاتھ نہ اٹھانا)
ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے
فرمایا"قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ مال کی بہت کثرت
ہو جائے گی، تجارت عام ہو جائے گی۔ جہالت کا دوردورہ ہو گا، ایک آدمی مال فروخت
کرے گا مگر کہے گا: ٹھہرو! میں فلاں قبیلے کے تاجر سے مشورہ کر لوں اور پھر ایک
بڑی آبادی میں لکھنے والے کاتب کو تلاش کیا جائے گا مگر وہ نہیں مل سکے گا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ
"آدمی مال بیچے کا مگر کہے گا: ٹھہرو! مجھے بنو فلاں کے تاجر سے مشورہ کر
لینے دو اور ایک عثیم آبادی میں ایک بھی کاتب نہ ہو گا" اس کا معنی ومفہوم یہ
ہے کہ بڑے بڑے تاجر جو غالباَ راس المال کے مالک ہوں گے، یا پھر ایجنٹ ہوں گے جن
پر سامان کی درآمد و برآمد کے لئے انحصار کیا جائے گا، شاید انھی لوگوں کا بازار
پر کنڑول ہو گا اور یہی لوگ اپنی مرضی کے نرخ مقر کریں گے۔ چھوٹے تاجر، ان
بڑوں کی مرضی اور اجازت کے بغیر خریدوفروخت نہیں کر سکیں گے یا پھر مطلب یہ ہے کہ
سودا کرتے وقت بیع کے انعقاد کو کسی دوسرے تاجر کی رضامند ی سے مشروط کر دیا جائے
گا۔
آپ ﷺ کے فرمان کے مطابق
" ایک آدمی بڑی آبادی میں ایک بھی کاتب نہ ہوگا"
جبکہ آپ ﷺ نے دوسری جگہ یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ قرب
قیامت میں کتابت عام ہو جائے گی، کا مفہوم یہ ہے کہ جدید
آلات کتابت عام ہو جائیں گے۔ مثلا کمپیوٹر ، موبائل فونز، ایسے آلات جو آواز سن کر
اس کو تحریر میں بدل دیں گے اور اسی طرح کے دیگر الیکٹرانک ایپلی کیشنز یا
جدید ترین (جیسے آج ہم موبائل فونز میں بولو ایس ایم ایس
/ میسنجرز/ کا استعمال کررہے ہیں )آلات کی کثرت ہو جائے گی۔
اس کے نتیجے میں ایک ایسی نسل پروان چڑھے گی جو ہاتھ سے لکھنا جانتی ہی نہ ہو گی
یا پھر لکھنا تو جانتی ہو گی مگر ان کی لکھائی اچھی نہ ہوگی۔(ہمارا
تعلیمی نظام ویسے ہی بدترین حالات کا شکار ہے اوررہی سہی کسر کرونا کی وجہ سے پوری
ہوگی یہ موجودہ سال 2020 ایک لمبی چُھٹی کی نظر ہو گیا
اور ہمارے لوگ افسوس کرنے کی بجائے خوشیاں منا رہے ہیں ۔ سکولوں کی کارکردگی سے لے
کر یونیورسٹی تک تعلیمی حالت انتہائی افسوس ناک ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ لکھنے
اور سمجھنے کی بجائے کالز کر کے اور مشینوں کا استعمال کر کے کام چلارہے ہیں ) یہ
مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ یہاں کاتب سے مراد ایسا شخص ہے جو تجارت کا معاہدہ قلم بند
کر سکے اور جسے خریدوفرخت کے قوانین و احکام کا ٹھیک سے علم ہو اور وہ لوگوں کے
درمیان ان کے تجارتی معاملات کو بغیر کسی معاوضے کے ضبط تحریر میں لائے۔
اس ٹاپک کا آخری حصہ
جس میں لوگوں کا بازاروں پر قابض ہوجانا آج کے دور میں کوئی بڑی بات
نہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مارکیٹیں چند لوگوں کے رحم کرم اور ان کے ہاتھوں مفلوج
ہو کہ رہ گئے ہیں۔ جو بڑا تاجر ہے وہ چھوٹے تاجر کو جینے نہیں دیتا ، حسد، کینہ، بغض،
عداوت جیسی بیماریوں میں مبتلا ہیں آج کے کاروباری حضرات اور یہ مخض پیسہ کمانے کی
ہوس نہیں بلکہ اللہ کی بنائی ہوئی حدود کو توڑنا، اللہ پر کامل یقین کا نہ
ہونا اور آپ ﷺ کے بتائے ہوئے راستے کو چھوڑ دینے کے عوض ہے۔ ( اللہ تعالی ٰ
ہم سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔