google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 مسلمانوں نے اپنا وقار کیسے کھویا؟ - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

جمعرات، 10 دسمبر، 2020

مسلمانوں نے اپنا وقار کیسے کھویا؟

مسلمانوں نے اپنا وقار کیسے کھویا؟

قارئین کرام !   ہمیں اس بات کا فخر کرنا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں، مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ماننے والے ہیں۔ ایک پیاری بات یہ ہے کہ اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ  نے اپنی امت کو ہر وہ چھوٹی سے چھوٹی بات بھی بتائی جس میں امت کی بھلائی اور بہتری پوشیدہ تھی۔ فخر ہے مجھے اس امتی کا پیروکار ہونے کے ناطے کہ جس کی پہلی وحی اور پہلا لفظ ہی "اقراء"  ہے یعنی علم حاصل کرنے کی اہمیت بتائی "ماں کی گود سے لے کر قبر تک  علم حاصل کرنا، اسی طرح علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے وغیرہ وغیرہ۔صفائی کو نصف ایمان کہا گیا مسلمان دن  میں پانچ بار نماز کے لئے وضو کرتے ہیں، جسم کی صفائی، محلے کی صفائی ، گھر کی صفائی غرض یہ کہ ہر ایک چیز جو امت کو بتلا ئی گئی اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ نے پہلے خود عمل کر کے دکھایا اور پھر امت پر لاگو کیا گیا۔ یہ آرٹیکل اس لئے لکھ رہا ہوں کہ ہماری آج کی نوجوان نسل جو ان احکامات کو فرسودہ اور پرانا سمجھ کر اہل یورپ کو اپنا نجات دہندہ سمجھتی ہے۔ کچھ لوگوں کا تو ماننا ہے کہ جو احکامات بتلائے گئے تھے وہ صرف اسی دور پر لاگو ہوتے تھےجو اسی دور میں موجود تھے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے آپ ﷺ کی بتائی ہوئی ایک ایک بات سچی  ہے اور قیامت تک کے آنے والے لوگوں تک کی رہنمائی  موجودہے۔





تاریخی کتب گواہ ہیں اور چیخ چیخ کر حال یورپ بیان کرتی ہیں کہ ایک دور تھا جب فرانس کا بادشاہ دربار میں ننگا ہی چلا آیا کرتا تھا۔ کیونکہ جینے کا ڈھنگ ، طریقہ سلیقہ  اور تہذیب و تمیز سے خالی لوگ تھے  یہ، ان کے وزراء ، مشیر ، اعلیٰ عہدیدار سب قضائے حاجت  کے لئے دربار میں موجود پردوں کے پیچھے پیشاپ کیا کرتے تھے۔ انہی بدبوؤں اور تعفن کے عوض ہی خوشبوؤں پر کام کیا گیا۔ جیسے میں ذکر کر چکا ہوں کہ جینے کا ڈھنگ  نہیں تھا لہذا اہل یورپ میں نہانے کو کفر سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے یورپین لوگوں  سے سخت  بدبو آتی تھی ، تازہ ترین صورتحال  کے حوالے سے ڈنمارک کے دارلخلافہ کوپن ہینگن  میں آج بھی نہانے کو کفر سمجھا جاتا ہے  یہاں تک کہ نہانے کے لئے گھروں میں حمام تک موجود نہیں ہیں۔

اسی طرح روس کے لوگ بھی صفائی پسند نہیں تھے مشہور سیاح ابن الفضلان  نے اپنے سفر نامے میں روس کے کچھ اس طرح حالات بیان کئے( احمد بن فضلان جو کہ غالبا عرب سفیر کا سیکرٹری تھا اور دسوی صدی عیسوی  میں عباسی خلیفہ کے کہنے پر بغداد سے روس روانہ ہوا اور اس کے سفرنامہ سے قدیم روس کے کافی حالات وواقعات منظر عام پر آئے)   " کہ روس کا بادشاہ پیشاپ آنے پر مہمانوں کے سامنے کھڑے کھڑے شاہی محل کی دیواروں پر  پیشاپ کرتا تھا اور بول وبراز کرنے کے بعد کوئی استنجاء   نہیں کرتا تھا  ایسی گندی مخلوق میں نے آج تک کہیں نہیں دیکھی" اسی طرح ازابیلا جس نے اندلس کے مسلمانوں کے بے دریغ قتل کروایا اپنی پوری لائف میں صرف 2 بار نہائی مسلمان چونکہ ہر روز نہاتے تھے اس لئے اس کو جسم کی یہ صفائی اچھی نہیں لگتی تھی لہذا اس نے مسلمانوں کے قتل کے ساتھ ساتھ ان کے بنائے ہوئے تمام حماموں کو بھی گروا دیا تھا۔

سپین کے بادشاہ فلپ دوئم نے  اپنے ملک میں نہانے پر مکمل پابندی عائد کردی تھی۔ اس کی بیٹی ازابیل دوئم نے تو یہ قسم کھائی تھی کہ جب تک شہروں کا محاصرہ ختم نہیں ہوجاتا تب تک اپنا داخلی لباس تبدیل نہیں کرے گی۔ البتہ شہروں کا محاصرہ ختم ہوتے ہوتے  لگ بھگ 3 سال لگ گئے  اور اسی گندگی کے اثرات کے عوض  ازابیل کی موت واقع ہوئی۔ یہ رعایا کے حالات و معمولات نہیں بتا رہا بلکہ اہل یورپ کے شاہی گھرانوں، حکمرانوں ، اعلیٰ عہدیداروں کے معمولات ذکر ہو رہے ہیں۔جو روزِ روشن کی طرح تاریخ کے سینوں میں ہمیشہ کے کئے محفوظ ہیں۔

جب مسلما ن سیاح کتابیں لکھنے میں مشغول تھے ، جب ہمارے سائنسدان نظام شمسی پر تحقیقات کر رہے تھے تب اہل یورپ کے بادشاہ نہانے کو کفر قرار دیتے ہوئے ان کو موت کے گھاٹ اتار رہے تھے۔ جب لندن اور پیرس کی آبادیاں لگ بھگ 30 سے 40 ہزار  تھیں اس وقت  مسلم بادشاہ کی جانب سے فرانس کے بادشاہ لوئیس چہارم کے پاس  بھیجے گئے نمائندے نے لکھا کہ بادشاہ کے جسم کی بدبو اور اس سے اٹھنے والا تعفن کسی بھی درندے کی بدبو سے زیادہ تعفن آمیز تھی۔ اس کی ایک لونڈی جس کا نام مونٹیئس باؤنڈ تھا بادشاہ کی بدبو سے بچنے کے لئے ہمیشہ اپنے اوپر پرفیومز کا استعمال کیا کرتی تھی"فرانسیسی پرفیومز کی وجہ شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس دور میں پیرس میں گھومنا  پرفیومز کے بغیر  انتہائی دشوار گزار تھا۔

ریڈانڈین جب جب اہل یورپ سے قتال کرتے تھے تو اپنے ناک کے نتھنوں میں گلاپ کی پتیاں ٹھونس دیا کرتے تھے کیونکہ اہل یورپ کی تلواروں سے تیز ان کے جسم سے اٹھنے والاتعفن اور گندگی ، بدبو زیادہ تیز ہوا کرتی تھی۔ فرانسیسی مؤرخ درِبارلکھتا ہےکہ " ہم یورپ والے مسلمانوں کے مقروض ہیں کہ انہوں نے ہمیں جینے کا ڈھنگ، صفائی  کرنا سکھایا، انہوں نے ہمیں نہانا، لباس تبدیل کرنا سکھایا، جب ہم ننگے گھوما کرتے تھے اس وقت مسلمان اپنے کپڑوں کو زمرد ، یاقوت،اور مرجان سے سجایا کرتے تھے، جب یورپی کلیسا لوگوں کو تبلیغ کر کے یہ کہہ رہے تھے کہ نہانا کفر ہے اس دور میں بھی قرطبہ شہر میں 300 عوامی حمام ہوا کرتے تھے"

سفر نامہ ڈنمارک میں محمد اسلم علی پوری بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے یورپی دوست کے ہاں تشریف فرماتھا تو میں نے اسے بتایا کہ "جو تمہارے ہاں قالین، کافی، باتھ روم ، شمپو اور عورت کے پردے کے پیش نظر جو الگ تھلگ باورچی خانہ ہے سب مسلمانوں کی دین ہے یہاں تک کہ ہسپتال اور لیبارٹری کا تصور بھی مسلم سائنسدان ابولقاسم الزاہروی کے ذہن کی تخلیق ہے اسی طرح سائنسی اور دوسرے ڈھیر سارے علوم جو ہم نے تم کو دئیے" اس پر اس یورپی دوست نے ہنس کر پوچھا تو پھر ہمارا کیا ہے؟ تو محمد اسلم علی پوری نے جواب دیا کہ تمہارے پاس اس وقت "علم" ہے ارے اسے حاصل کرنے کا توہمیں حکم دیا گیا تھامگر افسوس ! تم خوش قسمت ہو کہ آج تمہارے پاس علم کا خزانہ ہے۔تمہیں ہم سلام پیش کرتے ہیں۔ جب کبھی ہم علم حاصل کرجائیں گے تو انشاء اللہ ہم بھی دنیا میں ترقی کر جائیں گے۔

اہل یورپ نے اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل کرکے ہی ترقی حاصل کی ہے اور یہی حقیقت ناقابل تردید ہے ۔

لیکن آج موجودہ صورتحال یہ ہے کہ یورپ ہم سے ہمارا سارا علم ، سائنس لے گیا اور بدلے میں دے گیا ہمیں احساس کمتری میں جینا، ہمیں فیشن نامی لفظوں کے ہیر پھیر میں بیہودگی دے گیا۔ ہمیں ماڈرن ازم  کے نام پر کھلے عام بے حیائی دے دی۔ ہم نے ہر اس چیز کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا جو ہمارے لئے باعث تباہی بنتی چلی گئی۔انہوں نے آزادی کے نام پر غلط تعبیریں اور خواہشات کی رہ میں بھٹکنے دیا اور ہم بھٹکتے چلے گئے۔ پھر ایسا ہوا کہ وہ چاند پر جارہے تھے اور ہم کفر پرستی کے فتوے لگانے میں مشغول ہوگئے۔ وہ مریخ کو تسخیر کرنے چلے تھے اور ہم 1300 سو سال گزرے ہمارے اسلاف  کے مسلمان ہونے یا کافر ہونے  پر بحث کرنے میں لگ گئے۔ہائے افسوس ! ہم نے آپ ﷺ کے کرتے مبارک ، جوتے، عمامہ ، رضائی ، اور جانے کیا کیا بنا ڈاالےیہاں تک کہ آپ ﷺ کے بتائے ہوئے راستے کو چھوڑ کر دین میں غلو اور کتب احادیث  میں ردوبدل کرنے میں کوشا ں ہیں ۔اہل یورپ نے سمندر میں پیٹرول کے ذخائر کرنا شروع کئے  اور ہم نے پیٹرول سے جلاؤ، گھیراؤ، اور آگ لگانے کا کام شروع کیا۔ انہوں نے ادب وادبیات میں شاہکار چیزیں پیدا کرنا شروع کیں جس سے نو جوان نسل کے افکار تبدیل ہو سکیں۔ جبکہ ہم نے لب ورخسار، چائے کی پیالی، کالج بیوٹی  جیسے موضوعات پر اپنا ادب بند کر لیا۔  انہوں نے قرآن کو اپنی تحقیق کا حصہ بنا لیا اور ہم نے قرآن سمجھنے ، پڑھنے اور عمل کرنے کی بجائے اچھے اچھے قیمتی غلاف بنانے شروع کر دئیے اور الماریوں کی زینت بنا دیا۔ انہوں نے حضرت عمرفاروق کی سی سادگی اپنا لی اور ہم نے قارون کی عیاشی کو اپنا مقدر بنا لیا۔ جب وہ اپنے بچوں کو زندگی کی حقیقت  اور ستاروں پر کمندیں ڈالنا سکھارہے ہیں اور ہم کدو، بینگن  اوردیگر اشیاء پر لفظ اللہ اور محمد کی تلاش میں لگوا رہے ہیں ، ہم سکول ، کالج ، یونیورسٹی میں رٹے لگا کر فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ پوزیشن لینے کے گُر سکھانے میں لگے ہیں۔آج ہم اپنی نسلوں کو مادیت پرستی کی بھٹی میں جھونک کر صرف پیسے کمانے کو کامیابی اور ترقی کا ستارہ قرار دے رہے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو جینا سکھا رہے ہیں اور ہم ایک دوسرے سے جیتنا سکھا رہے ہیں۔ جب وہ لوگ شیکسپئر اور گوئٹے کے کلام کو الہامی قرار دے رہے ہیں ہم عین اسی وقت اقبال کے کلام کو مشکل ، فرسودہ  کہہ کر اپنے نصابوں سے فارغ کر رہے ہیں۔

اہل دانش کہتے ہیں کہ آئندہ جنگیں میدان جنگ میں نہیں بلکہ کلاس روم میں ہونگی ۔ اہل یورپ بدتمیز ، بدتہذیب، اجڈ اور گوار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین تہذیب یافتہ قوم بن کر دنیا میں راج کر رہے ہیں اور ہم بہترین تہذیب وتمدن، تربیت یافتہ،  روشنیوں کو چھوڑ کر اندھیروں کی عمیق گہرائیوں کی طرف جار ہے ہیں۔ جب تک مسلمان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہے اور دنیا پر فاتح رہے اور جونہی اللہ کو چھوڑا ، اللہ پاک نے بہترین قوم کو مغلوب بنادیا  اور غالب کر دیا ایک اجڈ اور گوار قوم کو۔یہ لمحہ فکریہ ہے ہم سب کے لئے  (اللہ ہم سب پر رحم فرمائے ۔آمین)

 

1 تبصرہ:

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو