قرب قیامت قتل وخوں ریزی کی کثرت کیوں ہو جائے گی؟
محترم قارئین
کرام! ہم یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اسلام میں
قتل کو گناہ کبیرہ میں شمار کیا جاتا ہے اور اس گناہ کے بارے میں کئی جگہ
قرآن اور احادیث میں بہت وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔چنانچہ ارشاد ربانی ہے "جو
کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرڈالے اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے
گا، اس پر اللہ تعالی ٰ کا غضب ہے، اور اس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے
لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے"۔
پھر ایک جگہ ارشاد فرمایا
"جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا اور جس
نے کس ایک انسان کی زندگی بچائی گویا اس نے تمام لوگوں کو بچالیا"۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے "سات
ہلاک کر دینے والی اشیا سے بچو۔۔۔۔۔ پس آپ ﷺ نے ( ان میں یہ بھی ) ذکر کیا اس جان
کو قتل کر دینا جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے"۔ایک اور جگہ ارشاد
فرمایا"میرے بعد کفر کی حالت میں مت لوٹ جانا کہ ایک
دوسرے کی گردنیں مارنے لگو"۔یہی بات دوسری جگہ اس طرح
ارشاد فرمائی "اللہ کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے
زائل/برباد ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے "۔
اہل دانش فرماتے ہیں کہ ’’بے شک دونوں عذاب
(عذابِ جہنم اور عذاب حریق) آخرت میں واقع ہوں گے، مگر فرق یہ ہے کہ عذابِ جہنم ان
کے کفر کے سبب ہوگا، اور عذابِ حریق عذابِ کفر پر وہ زائد عذاب ہے جو انہیں مسلمانوں
کو جلانے کے سبب ملے گا۔‘‘ اس بات کو صاحبِ جلالین بھی کچھ اس طرح بیان
فرماتے ہیں کہ"’’یعنی وہ لوگ جنہوں نے مومن مرد و زن کو آگ میں جلا کر اذیت
میں مبتلا کیا، پھر توبہ بھی نہ کی تو ان کے لئے ان کے کفر کی وجہ سے مومنین کو
جلانے کی پاداش میں عذابِ حریق (جلائے جانے کا عذاب) ہوگا۔‘‘
جہاں نبوت والی زبان نے
قیامت کی بہت ساری نشانیاں بیان کیں ہیں وہاں اس نشانی کے بارے میں بھی ضرور ارشاد
فرمایا ہے"کہ
قتل و غارت اور خونریزی کی اس قدر کثرت ہو جائے گی کہ ایک وقت آئے گا کہ نہ قتل
کرنے والے کو علم ہو گا کہ وہ کیوں قتل کر رہا ہے اور نہ ہی قتل ہونے والے کو علم
ہو گا کہ اسے کس پاداش میں قتل کیا جارہا ہے"۔
رسول ﷺ نے فرمایا "
اس رب کعبہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ دنیا ختم نہ ہوگی جب تک ایسا دن
نہ آ جائے کہ جب نہ مارنے والے کو علم ہو گا کہ وہ (اس انسان کو) کیوں
قتل کر رہا ہے اور نہ قتل ہونے والے کو معلوم ہوگا کہ اسے کیوں قتل کیا گیا ہے ۔
پوچھا گیا: یہ کیسے ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: قتل وخوں ریزی کی کثرت کی وجہ سے، اور
قاتل اور مقتول دونوں جہنم کا ایندھن بنیں گے"۔
اگر دیگر مذاہب کا مطالعہ کیا
جائے تو اس بات سے ہرگز اعراض نہیں کیا جاسکتا جتنا انسانی وقار احترام، مال
وعزت ، امن و اطمینان، اور زندگی گزارنے کے طور طریقے ، چھوٹی سے
چھوٹی بات کی اہمیت ، حقوق وفرائض کی ادائیگی دین اسلام میں بتائی گئی ہے
دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں بتایا گیا۔حالانکہ آپ ﷺ کا خطبہ حجۃالوداع دائمی
منشور اور مکمل دستور کی حثیت رکھتا ہے۔ کہ
ناحق کسی کا خون نہ بہایا جائے ، پھر فرمایا: تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری
عزتیں ایک دوسرے پر حرام کیں گئیں ہیں۔ علامہ ابن قیمؒ فرماتے
ہیں" اسلام عدل ،سچائی اورامن پسندی کادین ہے یہی وجہ ہے کہ محدثین
کرام نے اسلام کو امن وسلامتی کے ساتھ لوگوں تک پہنچایا ہے"۔
دین ِاسلام قتل وغارت کے
ساتھ ساتھ فتنہ انگیزی، دہشت گردی اور جھوٹی افواہوں کی بدتہذیبی کو
شدت سے ناپسند کرتا ہے وہ اس کوصریحا جارحانہ اور وحشیانہ عمل قرار دیتاہے ۔اس
خونریزی کی ابتدا حضرت عثمان غنی کے قتل سے ہوئی اور پھرایک طویل اور
نہ ختم ہونے والی مہلک لڑائیوں کا سلسلہ چل نکلا، حالا نکہ ان لڑائیوں کی کوئی
معقول وجہ یا جواز نظر نہیں آتی محض عارضی دنیا کی عیش و عشرت کے
برعکس ناحق لاکھوں قیمتی جانوں کا ضیاع ضرورہوا۔ وقت کی نزاکت کے ساتھ
ساتھ جدید تباہ کن اسلحہ کی بھی بھرمار ہوتی چلی گئی جس سے قتل کرنا اور بھی آسان
ہوتا چلاگیا اور ہم نے جان لینا تو معمولی سمجھتے ہوئے اپنا معمول بناتے چلے
گئے حالانکہ ان سب کے باوجود پھر بھی مسلمان ہی دہشت گرد کہلاتا ہے۔اگر ماضی
کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھیں تو تلخ حقائق کے ساتھ ساتھ نتائج بالکل
برعکس ہیں۔
٭ پہلی
جنگ عظیم میں ڈیڑھ کروڑ انسانوں کو قتل کیا گیا۔(یہ
مسلمانوں نے قتل نہیں کئے)
٭ دوسری
جنگ عظیم میں ساڑھے پانچ کروڑ افراد لقمہ اجل بنے۔(جب
کہ ان میں بھی مسلمانوں کا کوئی ہاتھ نہیں تھا)
٭ ویت
نام کی جنگ میں تیس لاکھ افراد مارے گئے۔(یہ بھی مسلمانوں نے قتل
نہیں کیے)
٭ روسی
خانہ جنگی میں ایک کروڑ آدمی جان سے گئے
٭ سپین
کی خانہ جنگی ایک کروڑ بیس لاکھ انسانوں کا خون پی گئی
٭ عراق
ایران جنگ (خلیج کی پہلی جنگ) میں دس لاکھ انسانی جانیں گئیں
٭ عراق
پر استعماری قبضے کے دوران دس لاکھ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
٭
سوچنے کی بات ہے کہ حال ہی میں برما ،فلسطین، شام، کشمیر اور انڈیا کے
مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے کیا ان میں بھی مسلمانوں کا ہاتھ ہے۔
اگرچہ ان میں بعض جنگوں پر حدیث کے یہ الفاظ
( نہ قتل کرنے والے کو علم ہو گا کہ وہ اس شخص کو کیوں قتل کررہا ہے)
صادق نہیں آتے ، تاہم ان کا تذکرہ یہاں قتل وخونریزی کی کثرت کو بیان کرنے
کے لئے کیا جا رہا ہے۔ جس کا ذکر اللہ کے نبی نے فرمایا تھا۔ اللہ رب العزت ہم سب
کو اپنی حفظ وامان میں رکھے ۔ (آمین)
Allah bachaye hum sb ko
جواب دیںحذف کریں