//gloorsie.com/4/6955992 //woafoame.net/4/6956026 //zeekaihu.net/4/6906862 لونڈی کا اپنے مالک/آقا / خاوند کو جنم دینا

لونڈی کا اپنے مالک/آقا / خاوند کو جنم دینا

 لونڈی کا اپنے مالک/آقا / خاوند  کو جنم دینا

 

 محترم قارئین کرام!  کافی دنوں سے میں اس ٹاپک" لونڈی کا اپنے مالک/آقا / خاوند  کو جنم دینا" کے بارے میں ریسرچ کر رہا تھا ،  کہ  آپ ﷺ نے جو قیامت کی نشانیاں امت کو بتلائی ہیں ۔



 ان میں سے بہت سی نمایاں ہوچکی ہیں تو یہ نشانی کس شکل میں ظاہر ہوگی یا ابھی تک ظاہر نہیں ہوئی ہے یا ابتدائی شکل میں ہو سکتی ہے وغیرہ وغیرہ لیکن جب میں  نےچھان بین شروع کی تو ایک مقام پر آکر میں سوچنے پر مجبور ہوگیا

کہ یہ نشانی تو پوری طرح سے عیاں ہو چکی ہے گویا  اس میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت ضرور آ رہی ہے اسی طرح باقی نشانیاں بھی اپنے مقررہ وقت پر پوری ہونگی ،

 اللہ کے حکم سے، کافی سوچ وبچار کرنے کے بعد میں  کچھ ان نتائج پر پہنچا ہوں جو میں آپ کے ساتھ شئیر کر رہا ہوں ہوسکتا ہے میری رائے غلط ہو،

 آپ ﷺ نے اپنی امت  کی اصلاح کیلئے فرمایا" کہ مملوکہ(ملکیت) لونڈی ایسے بچے کو جنم دے گی جو اس کا آقا بنے گا۔ یہ اس طرح ہوگا کہ جب کوئی آزاد شخص  اپنی لونڈی سے جماع کرے گا تو وہ اس سے حاملہ ہو جائے گی اور ایک بچے کو جنم دے گی ،

جو بڑا ہو کر ایک ایسا آزاد نوجوان بنے گا ، جس کا والد زندہ ہو گا مگر اس کی والدہ بدستور لونڈی ہی ہو گی، چنانچہ وہ نوجوان اپنی ماں کے مالک کی حیثیت اختیار کر لے گا"

ایک اور مقام پر اس طرح فرمایا گیا " کہ میں تمھیں اس کی نشانیوں کے بارے میں بتلاؤں جب لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے گی تو یہ قرب قیامت کی علامت ہو گی۔" 

اس کے معنی یہ بھی بیان کیے گئے ہیں کہ بادشاہ لونڈیوں کے بطن سے پیدا ہوں گے، اس طرح بیٹا بادشاہ ہوگا ، جبکہ اس کی ماں اس کیرعایا میں شامل ہوگی۔ 

علماء کرام کے نزدیک اس کے کئی طرح سے  اشارات بیان کیے گئے   مثلا "لونڈی جنے گی اپنے میاں کو" اور دوسرے اشارے میں  "لونڈی جنے گی اپنے خاوند کو" مکاتب فکر کے نزدیک  "ظلم اور بربریت کا دوردورہ ہو گا جنگیں لڑیں جائیں گی،

 اور ان جنگوں کے عوض فتوحات ہو گی اور   بہت سا مالِ غنیمت  حاصل ہوگا اور چونکہ لونڈی بھی مال غنیمت میں سے ہے تو اس طرح  ان لونڈیوں سے حاصل ہونے والے بچے معاشرے میں پھیل جائیں گے کیونکہ  باپ کے مال اس کے مرنے کے بعد بیٹے کا ہوتا ہے ۔

کچھ کی رائے یہ ہے کہ  آنے والے زمانے میں  بادشاہ / امراء /اعلیٰ عہدار حکمران شریعت کو پس پشت ڈال کر  نکاح کے بندھن سے آزاد ہوکر لونڈیوں سے جماع کریں گے  اور ان سے پیدا ہونے والے بچے  آزاد حکمران ہونگے لیکن پیدا کرنے والی ماں بدستور رعایا ہی ہوگی۔

کچھ کے نزدیک اس کا مفہوم یوں بھی کیا گیا کہ جوں جوں حالات بد سے بدترین ہو نگے تو  حکمران اپنے والدین کی ناشکری کریں گے اور ان کو چند پیسوں کے عوض بیچنا شروع کر دیں گے،

  اورنجانے کبھی وہ اپنے ہی بیٹے کے ہاتھوں   فروخت ہو جبکہ اس کو یہ ہرگز معلوم نہ ہوگا کہ وہ اس شخص کی ماں ہے۔یہی شرط لونڈیوں کے لیے بھی ممکن  ہو سکتی ہے۔مثال کے طورپر ایک  لونڈی ایسے لڑکے کو جنم دے جو اس کے خاوند/ مالک کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے نطفہ سے ہو،

پھروہ لوندی فروخت ہوتے ہوئے  اپنے ہی بیٹے کے ہاتھوں فروخت ہو اور وہ دونوں ایک دوسرے کو نہ پہچان سکیں۔کچھ علماء کے نزدیک یہ رائے لی جاتی ہے کہ " ظلمت کے اس بازار میں اس قدر لونڈیوں کی خریدوفروخت  ہو جائے گی کہ  شریعت اور کم عقل سوچ وبچار نہ ہونے پر ایک شخص اپنی ہی ماں سے نکاح کر لے گا  اور اس کو معلوم نہ ہو گا۔

اور بعض علماء کی رائے کے مطابق"بدترین حالات کے پیش نظر  اس دور کے لوگ اپنی ماؤں کی عزت کرنا چھوڑ دیں گےذلت اور رسوائی کے ان اندھیروں میں وہ اپنی ماؤں سے بھی ویسا برتاؤ کریں گے جیسے  وہ  لونڈیوں سے برتاؤ کرتے ہیں"۔

یہ بات تو طے ہے کہ  وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں میں شراب اور زنا عام ہوگا  جب یہ خرافات لوگوں میں پائی جائیں گی   تو کچھ بھی توقع کی جاسکتی ہے کہ اس دور کے لوگ کیسے ہونگے۔ والدین کی ناشکری ،گالم گلوچ، بدتمیزی ، ذلت اور جائیداد کی لالچ میں والدین کو قتل کرنا یا قید کرنے جیسی مثالیں تو ہم آج بھی اپنی آنکھوں  سے دیکھ رہے ہیں۔

اسلام میں بھی ایک وقت تک باندی اور لونڈیوں  کی اجازت تھی اس کے بعد مکمل پابندی عائد کر دی گئی اور حرام قرار دے دیا گیا۔اسی طرح چار سے زائد نکاح پر بھی پابندی عائد کی گی۔

(اے پیغمبر) ان کے سوا اور عورتیں تم کو جائز نہیں اور نہ یہ کہ ان بیویوں کو چھوڑ کر اور بیویاں کرو خواہ ان کا حسن تم کو (کیسا ہی) اچھا لگے مگر وہ جو تمہاری مملوکہ ہوں۔ اور اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے"۔

ان  سب اشارات کے باوجود دور حاضر میں کسی بھی عورت کوزبردستی باندی یا لونڈی نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی کسی آزاد عورت کو خرید ا یا فروخت کیا جاسکتا  ہےکیونکہ  دورحاضر میں تمام رکن ممالک  نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے غلامی کا سلسلہ ختم  کرنے کا عہدوپیمان بطور ایگریمنٹ کی شکل میں  طے پا چکا ہے۔

پیارے حبیب حضرت محمد ﷺ کےمنہ مبارک سے نکلے یہ فرامین  دورِ حاضر کی  میڈیکل سائنس کے دور میں پوری طرح سے واضح ہوتا دکھائی دیتا ہے ایسے افراد  جو اولاد پیدا کرنے سے قاصر ہیں جدید  میڈیکل سائنس کے عوض  ان کے تولیدی مادوں کو ملا کر کسی اور صحت مند عورت کے رحم میں رکھ دیں تو بچہ کی پیدائش ممکن ہو جاتی ہے۔

اولاد پیدا کرنے کے اس عمل کو آج سروگیٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ جب سائنسی تجربات کے عوض ناممکن کا حصول ممکن ہوتا دکھائی دیا۔  تواشرافیہ و اعلی عہدیداران، حکمران بڑے بڑے فلمی ستارےسیروگیٹ کے ذریعے اولاد کی نعمت سے بہراور ہونے لگے۔ ایک طرف اولادتو سبھی چاہتے ہیں،

 مگر اولاد  پیدا کرنے کی مشکلات۔ تکالیف اور خوف سے گھبرانے یا اپنے جسم کو بالکل جوان رکھنے، اور لوگوں کی جلی کٹی باتوں  سے پاک رکھنے کی وجہ سےبڑھ چڑھ کر حصہ لینے پہنچے  ؛ چنانچہ مغربی دنیا کے امیر ترین حکمرانوں و اعلی عہدیداروں بشمول فلمی اداکاروں نے غریب یورپین ممالک اور افریقہ‘ انڈیا‘ نیپال و دیگر غریب ممالک کی طرف تیزی سے رجوع کیا وہاں کی  غریب عورتوں کو ڈالروں کا لالچ دے کر اس کام کا تیزی سے پرچار کرنے لگے۔

یہ انقلاب برپا ہونے کی دیر تھی ، کہ لوگوں کو تو گویا موقع ہی مل گیا تھا انہوں نے اس کام کو سرانجام دینے کے لئے مختلف کمپنیوں سے رابطے بڑھائے  اور وہ پراجیکٹ کے نام پر  لوگوں کو مرعوب کر نے لگے۔مفلس اور مجبور عورت کو غریبی سے چھٹکارہ دلانے اور اچھی لائف سٹائل گزارنے اور اسکے بچوںکا مستقبل بہتر بنانے کے وعدے کر کے دولت نچھاور کی جاتی ہے۔

 مجبور عورت اپنے اہل خانہ  سے دور مکمل طور پر کمپنی یا ادارے کی نگرانی میں چلی جاتی ہے۔  بچے کی پیدائش تک اس کی خوراک اور صحت کا مکمل  طور پر خیال رکھا جاتا ہے۔افسوس !کرائے کی اس ماں   کو یہ کبھی اندازہ ہی نہیں ہوتا  کہ جسے وہ پیدا  کرنے جارہی ہے  وہ اس کا ہے ہی نہیں نہ وہ اس کو دوبارہ دیکھ سکے گی اور نہ ہی اس  سے ملنے کی اجازت ہو گی۔

کیونکہ پیسوں کی چمک اس کی سوچ پر زیادہ بھاری ہوتی ہے۔ جونہی  بچّہ پیدا ہوتا ہے تو وہ ان ماں باپ کے حوالے کر دیا جاتا ہے  جنہوں نے کرائے کی کوک حاصل کی تھی۔  جبکہ کرائے کی ماں کو ڈھیر سارے پیسے دے کر رخصت کر دیا جاتاشاید ہی ایسا بہت کم حد تک ممکن ہو کہ کسی عورت نےکچھ دن بچے کو دودھ پلایا ہو اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے بچے سے محروم ہو گئی۔

لاکھوں روپے لگا کر غیرفطری اور حرام طریقے سے  حاصل کی گئی تسکین  وقتی اور فرضی تو ہے لیکن  اس طریقہ  سےنا صرف کرائے  کی مائیں ، بچے کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے رو رو کر،گھٹ گھٹ کر نفسیاتی مریضہ بن چکی  ہوتی ہیں بلکہ دکھ ، درداور غم کی شدت  میں مزید تڑپتا چھوڑ دیا جاتا ہے،

یہی وہ نشانی ہے جس کا ذکر آ پ ﷺ نے اپنی امت کو آگا ہ کیا کہ وہ اپنے مالک یا مالکہ کو جنم دے گی۔جس کو جنم دے گی اسکے پیسے لے گی اور اس کے بعد اس کا کوئی کردار  نہیں ہے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو محفوظ رکھے۔۔۔۔ آمین

 

 

 

0/Post a Comment/Comments

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔