ٹاپ 10 لائف اسکلز
محترم قارئین کرام!
کہاجاتا ہے کہ کسی بھی ملک کا چاہےسب کچھ تباہ وبرباد ہو جائے مگر اس ملک کا استاد
نہ بدلے، استاد زندہ ہے تو قومیں پھر سے سیسہ پلائی دیوار بن سکتی ہے اور اگر
بدقسمتی سے ضمیر مر جائے تو اس ملک میں دشمن کی ضرورت نہیں پڑتی۔ 2018
ورلڈ اکنامک فورم کے تحقیاتی سروئے کے مطابق 141 ممالک میں پاکستان کا
تعلیمی نظام 110 پوزیشن پر تھا اور بدقسمتی سے 2020 میں بھی یہ اسی پوزیشن پر
برقرار ہے۔
ہمارا تعلیمی نظام ماضی
میں ایسا تھا کہ صرف کلرک پیدا کررہا تھا لیکن موجودہ صورتحال اس سے
بھی بدتر ہوگئی ہے، جس کا بوجھ صرف سسٹم پر پڑ رہا ہے۔جوں ہی استادوں نے فرائض کی
ادائیگی میں کوتاہی برتنا شروع کی معاشرےمیں دو بھیانک صورتحال
ابھر کرسامنے آئیں، اول: معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلنے والا پرائیویٹ نظام
کا قیام دوم: نسل نو کی تعلیم و تربیت کا فقدان۔
![]() |
ٹاپ 10 لائف اسکلز |
دور حاضر میں سکول سے
لیکر یونیورسٹی تک بچے کاغذ کی ڈگریاں تو لیتے جارہے ہیں مگر افسوس ان ڈگریوں کے
عوض ناتو ان کے پاس کوئی پیشہ وارانہ مہارتیں ہیں اور نا ہی اس لی گئی ڈگری
کے مطابق علم۔ جوں ہی استاد نے درس و تدریس کے اعلیٰ منصب کو چھوڑکر ذریعہ معاش کو
اپنا نصب العین بنایا، تب سکول کو بطور آرگنائزیشن کا نام دیا گیا اور تعلیم کو
بطور بزنس متعارف کرایا گیا ،
یونیورسٹیوں کے نام
سے چلنے والی ڈپلومہ ملز کا کام صرف بھاری فیسس بٹورنا ہے لیکن بدلے میں
صرف ایسے لوگوں کو تیار کرنا ہے جو محض سسٹم پر بوجھ ثابت ہوتے ہیں، جب ایسے
لوگ مارکیٹ میں کاغذ کی اڈگریاں لیے جاب تلاش کرتے ہیں تو محض مایوسی
، تنگی اور رسوائی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کر پاتے۔نتیجہ معاشرے میں پھیلنے
والی بے روزگاری ، ناامیدی، جرائم اور دیگر خرافات وغیرہ۔
آج میں اپنے اس
آرٹیکل میں 10 ایسے بہترین پیشہ وارانہ تدریسی مہارتو ں کا ذکر کر نے جا رہا ہوں
جسے 2021-2022 کے نصاب میں بھی شامل کیا گیا ہے اور بچوں کو ان
مہارتوں سے مستفید کرنے پر تاکید کی گئی ہے۔پہلے اساتذہ کو خود سیکھنا
ہوگا اور پھر بچوں کو سکھاناہوگا تاکہ وہ معاشرےکےمفید شہری بن سکیں۔ یہ مہارتیں
زندگی کے تمام شعبوں سے نا صرف تعلق رکھتی ہیں بلکہ کسی بھی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی
ثابت ہوتے ہیں۔
تجزیاتی
سوچ اور جدت Analytical thinking and
innovation
تجزیاتی سوچ اور جدت
بنیادی طور پر ایک سائنٹیفیک اپروچ سے تعلق رکھتی ہے جس میں مسائل
کاحل سائنسی نقطہ نظر سے کیا جاتا ہے۔ مگر افسوس ہمارا استاد ان سے بہت دور
ہے نا تو وہ خود ان سے استفادہ حاصل کرتا ہے اور نا ہی اپنے شاگردوں کو
معلومات دے سکتا ہےاس نے چند نوٹس تیار کئے ہوتے ہیں جن سے وہ معلومات شئیر کرتا
ہے اور اسی سے امتحان لیے جاتے ہیں اور کاغذ کی ڈگری سپرد کر دی جاتی ہے۔ اگر ہم
اس مہارت کو عملی طور پر استعمال کروائیں تو ہمارے نوجوانوں کو مارکیٹ میں جاب کے
لئے دھکے نہیں کھانا پڑیں گے کیونکہ مسائل کا حل کیسے تلاش کرتے ہیں یہ ہمیں آج
نہیں تو کل ہر حال میں سکھانا پڑے گا۔اچھے اور برے کی تمیز،ملکی صورتحال ، انٹر
نیشنل ایجنڈا، اور دیگر مسائل جو زندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھتے ہیں۔
فعال سیکھنے کی حکمت عملیاں Active learning and learning strategies
آج کا استاد صرف اتنی
معلومات رکھتا ہے جتنا اس کو معاوضہ دیا جاتا ہے ، اسی کے مطابق وہ پلاننگ
کرتا ہے اور معلومات شئیر کرتا ہے، اس کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ایکٹو لرننگ
کیا ہوتی ہے؟ کیسے حکمت عملیوں کا استعمال کرکے اچھا رزلٹ دیا جا سکتا ہے، اور
بچوں کو کسی مقام تک پہنچایا جاسکتا ہے۔اس مہارت کا استعمال ہمارے ہاں استاد بہت کم
کرتے ہیں کیونکہ ایکٹو لرننگ صرف سوالات کے سیشن کرنے سے ہوتی ہے، اور بار بار
پوچھے گئے سوالات سے ہی بچے سوچ وبچار کرتے ہیں اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی سعی
کرتے ہیں۔
پیچیدہ مسئلہ حل کرنے والا Complex
problem-solving
دور حاضر کے نوجوان اسی
تکلیف میں مبتلا رہتے ہیں اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے مایوس اور ناامید
نظر آتے ہیں۔اگر ہم اس مہارت کا استعمال اپنے سکول ، کالج اور جامعہ میں کروائیں
تو ہو سکتا ہے ہمارے نوجوانوں کے مسائل تیزی سے حل ہو سکیں گے۔ ٹیچر کو
چاہیے کہ وہ بچوں کو چھوٹے چھوٹے مسائل /پراجیکٹ کی صورت میں دے اور خود ان
کو سمجھانے اور مدد کرنے کے ساتھ ساتھ مشاہدہ بھی کرے کہ کیا بچوں کو
مسئلے کا حل تلاش کرنے میں کوئی دشواری کا سامنا تو نہیں ہے۔ اور جہاں ممکن
ہو بچوں کی رہنمائی کرے تاکہ وہ اپنا کام پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں۔ ہمارے تعلیمی
نظام میں اس مہارت کے سیکھنے اور سکھانے پر اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جس کی
وجہ سے بچے مسائل کا حل تلاش کرنے سے قاصر رہتے ہیں
تنقیدی سوچ اور
تجزیہ Critical thinking and analysis
اس مہارت میں تنقیدبرائے
اصلاح ہونی چاہیے نا کہ تنقیدبرائے تنقید ، ہمارے تعلیمی نظام میں دوسری آپشن کا
استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے استاد اور طالب علم کا تعلق برائےنام
ہوتا ہے۔ کچھ کرنے سے پہلے ہی اسے یہ باور کروایا جاتا ہے کہ وہ ایسا نہیں
کرسکتے جس کی وجہ سے کلاس روم کا ماحول بری طرح سے متاثر ہوتا ہے،اس مہارت کے استعمال
سے رویوں میں بہت بدلاؤ لایا جاسکتا ہے اگر کلاس روم کا ماحول اور استا د باقاعدہ
پلان کرکے اور مثبت طریقے سے کسی بھی ٹاپک کر گفتگو کروائے ، تو یقین کریں
بچوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اجاگر ہوگی اور وہ باقاعدہ سوالات کریں گے۔جو کہ
بالکل ہمارے سکولوں میں ناپید ہو چکا ہے۔
تخلیقی صلاحیت ،اور آغازجدت Creativity, originality and initiative
بچوں میں تخلیقی
صلاحیت اس وقت پروان چڑھتی ہے جب استاد خود تخلیقی ذہنیت کا مالک ہو اور وہ بچوں
کو نت نئے طریقوں سے آشنا کرے، تنقیدی سوچ کے مالک بچے ہی درحقیقیت تخلیقی
صلاحیت سے سرشار ہوکر تخلیق کرتے ہیں ، ان کا نقطہ نظر دنیا سے الگ تھلگ
ہوتا ہے،ہمارے ہاں سائنسدانوں کی تاریخ موجود ہے وہ کوئی ذہین فطین نہیں تھے
بس ان کا دنیا کو دیکھنے کا انداز دوسروں سے مختلف تھا تب ہی وہ دنیا میں اپنا
مقام بنا گئے۔ ہمیں بھی اپنے بچوں کو اس مہارت کو پروان چڑھانے کے لئے چھوٹے چھوٹے
پراجیکٹ پر کام کروانا چاہیے پھر اس کئے ہوئے کام پر مثبت گفتگو کرنی چاہیے تاکہ
دوسرے بچوں کے لئے راہ ہموار ہو سکے۔
قیادت اور معاشرتی اثر و رسوخ Leadership and social influence
دنیا کے تعلیمی
نظام تجربات اور ایجادات کروانے کے لئے سر توڑ کوشش کر رہےان کا ہر بچہ لیڈر
بننے کے لئے تیار رہتا ہے ہر کلاس میں بیٹھا ہوا طالب علم ایک لیڈر کی طرح
سوچ رکھتا ہےکیونکہ اللہ ہر بچے کو بہت سی صلاحیتیوں کے ساتھ پیدا فرماتے ہیں ہمیں
صرف ان مہارتوں کو تلاش کرنا ہوتا ہے اور ان کو مزید نکھارنا ہوتا ہے۔ جب کہ ہمارا
استاد اور تعلیمی نظام ایسا ہے کہ وہ کلاس میں بچوں کو نقل کرنے کے نت نئے طریقے،
مارکس کیسے لائے جاسکتے ہیں، دولت کیسے کمانی ہے، نوٹس کو کیسے رٹا لگانا
ہے،کے طریقے سمجھا رہے ہیں اور ہماری ایجادات بھی کیا خوب ہیں پھلوں اور سبزیوں
میں اللہ اور محمدﷺ کا نام تلاش کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے معاشرے میں سدھار کم اور بگاڑ
زیادہ نظر آتا ہے، معاشرے کا مفید شہری بننے کی بجائے اور اس معاشرے پر بوجھ کی
صورت اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔
ٹیکنالوجی کا استعمال ، نگرانی اور
کنٹرول Technology use, monitoring and control
آج کا بچہ بچہ گیجٹ لے کر
سکول آتا ہے،ٹیکنالوجی کا استعمال کتنا زبردست کیا جاتا ہے یہ تو ہم سب جانتے ہیں
کہ سکولز میں موجود لائبریری ، کمپیوٹر لیبز، لیبارٹری میں موجود کسی
بھی چیز کا استعمال نہیں کرایا جاتا، دیمک چاٹ جاتی ہے لائبریری کی کتابوں کو ،
کمپیوٹر پر گیمز کھیلی جاتی ہیں اور لیبارٹری کی اشیاء تو ایسے چھپا کر رکھی جاتی
ہیں جیسے ان کو ہاتھ لگانا اور استعمال میں لانا گناہ کبیرہ ہو۔ درحقیقت
موبائل اور ٹیکنالوجی تو ہمارے درمیان آ گئی ہے کیا ہی اچھی بات ہوتی کہ انکے
استعمال سے پہلے ہدایات دی جاتی ، پڑھایا جاتا ، سمجھایا جاتا تو آج ہماری
نسل یوں ٹک ٹاک سے لیکر دیگر سوشل ایپس میں مبتلا ہوکر برباد نہ
ہو رہی ہوتی۔ہمیں چاہیے کہ ٹیکنالوجی کا مثبت انداز میں استعمال کروائیں تاکہ بچے
ان سے فائدہ حاصل کرکے معاشرے میں کچھ مقام پیدا کر سکیں ۔ اور اساتذہ کو چاہیے کہ
پہلے خود سیکھیں اور پھر سکھائیں۔
ٹیکنالوجی ڈیزائن اور پروگرامنگ Technology design and programming
اس مہارت میں نکھار لانے
کی بہت ضرورت ہے ہمارے بچے ماسٹرز کر لیتے ہیں کمپیوٹر سائنسز میں مگر افسوس ایک
ڈھنگ کا پروگرام تو دور کی بات ہے ایک مفید ایپلیکیشن تک تیار نہیں کر پاتے، ہمیں
مجبورا دوسرے ممالک کے سٹورز کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔اس فیلڈ میں انڈیا بہت آگے
ہیں کیونکہ وہاں کے لوگ کافی محنت کرواتے ہیں اور ٹیکنالوجی میں وہ لوگ نت نئے
تجربات عمل میں لاتے ہیں۔ ہماری گورنمنٹ نے سکولز میں کافی اچھی لیبز بناکر
دی ہیں لیکن افسوس کے ان کا استعمال ہی نہیں کروایا جاتا۔
تناؤ
رواداری اور لچک Resilience, stress tolerance and
flexibility
اس مہارت سے مراد
انسان کی اپنی شخصیت کی عکاسی ہے جس میں پریشانی ، دکھ درد، تکالیف، رحم
کرنا، معاف کرنا، برابری کرنا، نرمی برتنا ، احسان کرنا جو درحقیقیت
معاشرے کی بقا کے لئے بہت ضروری ہیں۔اور ایک انسان کی اپنی شخصیت کا آئینہ دار بھی
ہے۔ ہمیں اس مہارت کی بھی تربیت دینےسخت ضرورت ہے۔
استدلال ، مسئلہ حل
کرنے اور نظریہ Reasoning, problem-solving and ideation
اس مہارت کا تعلق بھی
سائینٹیفک اپروچ سے ہےجس میں کسی بھی پرابلم کا حل سائنسی نقطہ نظر سے کیا جاتا
ہے، دور حاضر کے مطابق ہم اپنے بچوں کو وجوہات تلاش کرنے کے لئے کوئی ایسا
ٹاسک نہیں دیتے جس میں وہ سوچ وبچار کرے اوراس کا حل تلاش کرکے لوگوں کے سامنے
اپنی بات رکھے۔ناہی اب تک کوئی ہماری طرف سے نظریات آئے اور ناہی کوئی تھیوریز
سامنے آئیں۔
درحقیقت یہی وہ وجوہات
ہیں جن میں ہماری نسل ایک ایسے گڑھے میں بند ہو کر رہ گئی جس کا کوئی فائدہ نظر
نہیں آتا، معاشرے میں سوائے بگاڑ کر سدھار نظر نہیں آ رہا، تعلیم کو
ہمیشہ سے ہی سیاست کےساتھ جوڑنے کی وجہ سے تعلیم کا حال بھی ہمارے ملک کے
کھوکھلے حکمرانوں کی طرح ہو کر رہ گیا ہے۔
ہمیں اپنے بچوں کو
ان مہارتو ں کا استعمال کروانا بہت ضروری ہو گیا ہے تاکہ معاشرے میں اسے
مسائل کا شکار نہ ہونا پڑے۔ زندگی گزارنے کی بہترین مہارتیں ہمارے نصاب میں شامل
ہیں صرف ہمیں ہی خود کو بدلنا ہے تو ہی معاشرہ بدلے گا۔
پال
فریرے کے مطابق "
Education
does not change the World,
Education
changes the people
People
change the world”
Well said
جواب دیںحذف کریںاللہ ہدایت دے ہم سب کو
جواب دیںحذف کریں