google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 عصر حاضر کے 10 بڑے گناہ 9- ریا کا ری - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

پیر، 29 اگست، 2022

عصر حاضر کے 10 بڑے گناہ 9- ریا کا ری

 عصر حاضر کے 10 بڑے گناہ        9-           ریا       کا ری

دوستو! "ریاء کاری"  بھی کبیرہ گناہوں میں سے ایک ایسا گناہ ہے  جس کو کرتے ہوئے انسان کو ذرہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ گناہ کر رہا ہے یا نیکی، درحقیقت  کر تو وہ نیکی رہا ہوتا ہے لیکن اللہ رب العزت کے دربار میں وہ گناہ ہی لکھا جاتا ہے۔ کیونکہ جو کام وہ کر رہا ہوتا ہے وہ خاص اللہ کے لئے نہیں ہوتا 

بلکہ لوگوں کوخوش کرنے یا اس نیکی کے عوض ان کے منہ سے تعریفی کلمات سننا یا  دکھلانا مقصود ہوتا ہے کہ کتنا نمازی اور پرہیز گار ہے، کتنے حج کر لئے ہیں، کتنی زکوۃ دیتا ہے ،

 ہر وقت مانگنے والوں کی لائن لگی ہوتی ہے، یہی وہ الفاظ ہیں جس کو وہ سننا چاہتا ہے  جو اللہ کو سخت  ناپسند ہیں۔’’ریاء‘‘ کے لغوی معنی ’’دکھاوے، دکھلاوے‘‘ کے ہیں۔ ’’اللہ رب العزت کی رِضا کے علاوہ کسی اورنیت ،ارادے یا خواہش سے عبادت کرنا۔‘‘ گویا عبادت سے یہ غرض ہو کہ لوگ اس کی عبادت پر متوجہ ہوں

 تاکہ وہ ان لوگوں سے مال ودولت حاصل کر سکے یا لوگ اس کی تعریف کریں یااسے نیک و پرہیزگار آدَمی سمجھیں یا اسے عزت  وغیرہ دیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

 

عصر حاضر کے 10 بڑے گناہ        9-           ریا       کا ری




’’جو لوگ اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیےخرچ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پرایمان نہیں رکھتےاور جس کا ہم نشین اور ساتھی شیطان ہو، وہ بدترین ساتھی ہے۔‘‘ 

اللہ رب العزت  نے ایک اور مقام پر کچھ یوں ارشاد فرمایا "’’پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اسے چاہیے کہ وہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔‘‘اسی طرح اللہ پاک نے قرآن میں دوسرے مقام پر لوگوں کو کچھ  اس طرح سمجھایا"’’اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو! جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر۔‘‘ 
اللہ رب العزت نے ریاء کاری کی مذمت کی ہے ان آیات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ریاکار اپنے عمل سے یہ بات ثابت کرتا ہے کہ اﷲ سے اس کو اجر کی بالکل کوئی  توقع نہیں، کیوں کہ جس سے توقع ہوگی اُسی کے لیے عمل کیا جائے گا اورایک ریاکار انسان کو اپنے خالق کے بجائے مخلوق سے اجر کی توقع ہوتی ہے۔

 ایسے انسان کا   آخرت پر بھی ایمان نہیں ہوتا اگر ایمان ہوتا تومرنا پسند کرتا مگر خالق کو چھوڑ کر مخلوق سے اجر کی توقع  ہرگز نہ رکھتا اور آخرت کی باز پرس سے ہمیشہ ڈرتا۔کیونکہ مرنا ہے اور آخرت کا ایک دن مقرر ہے اور وہ ہر حال میں ہو کر رہنا ہے۔

عصر حاضر کے دس بڑے گناہ جن میں غیر اللہ کی پکار، بت پرستی، مردہ پرستی،  اکابر پرستی، فرقہ پرستی، تعویذات ، توہم پرستی ، بدشگونی و بدگمانی  کے بعد آج ریاءکاری پر بات کرنے جارہا ہوں۔

ریاء کاری بھی کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے اور شرک کی ایک خاص قسم ہے جو انسان کی عقل پر گمراہی کے پردے ڈال کر اس سے ایسے کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہے جس سے دین اسلام کا دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ حدیث کے مطابق "ریاء شرک اصغر ہے

ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’مجھے تم پر سب سے زیادہ شرکِ اصغر ریاء یعنی دکھاوے میں مبتلا ہونے کا خوف ہے، اللہ رب العزت قیامت کے دن کچھ لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا دیتے وقت ارشاد فرمائے گا کہ ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کے لئے دنیا میں تم دکھاوا کرتے تھے اور دیکھو کہ کیا تم ان کے پاس کوئی جزا پاتے ہو؟‘‘

ایک اور مقام اللہ کے نبی ﷺ نے ریاء کاری  کے بارے میں کچھ یوں بیان فرمایا "’’کیا میں تمہیں اس چیز کی خبر نہ دوں جو میرے نزدیک تمہارے لیے مسیح دجال سے بھی زیادہ خوفناک ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: ہاں! کیوں نہیں؟! فرمایا: وہ شرکِ خفی ہے کہ آدمی کھڑا ہوکر نماز پڑھے اور کسی شخص کو اپنی طرف دیکھتا ہوا دیکھ کر اپنی نماز اور سنوار لے۔‘‘

ایک اور روایت کے مطابق ’’جب اللہ تعالیٰ تمام اگلوں اور پچھلوں کو قیامت کے روز جس کی آمد میں کوئی شک نہیں جمع کرے گا، تو ایک آواز لگانے والا آواز لگائے گا:’’ جس نے اللہ رب العزت کے لیے کیے ہوئے کسی عمل میں کسی غیر کو شریک کیا ہو وہ اس کا ثواب بھی اسی غیر اللہ سے طلب کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ شرک سے تمام شریکوں سے زیادہ بے نیاز ہے۔‘‘

ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے لوگوں کو سمجھانے کے لئے کچھ یوں بیان فرمایا "’’جوشخص شہرت کے لیے کوئی عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے عیوب ظاہر کر دے گا اور جو دکھاوے کے لیے عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اُسے رسوا کر دے گا۔‘‘

یوں تو انسان کی عبادت اور اعمال کا دارومدار خالص نیت پر ہے، اگر نیت خالص ہے اور اس میں ذرہ برابر بھی کھوٹ نہیں تو اعمال اللہ کے ہاں قبول ہوتے ہیں، اگر نیت میں کھوٹ ، ریاکاری یا نمود نمائش مقصود ہے تو ایسے اعمال بجائے بخشش کے انسان کے لیے موجبِ عذاب بنیں گے۔

اللہ رب العزت کے دربار میں  اعمال کی قبولیت کی دو شرائط ہیں: پہلی شرط یہ ہے کہ جو بھی عمل کیا جائے وہ عمل خالص اللہ کے لیے ہو،

دوسری شرط یہ ہے کہ وہ عمل  عین سنت کے مطابق ہو۔ ان دو شرائط میں سے کوئی بھی ایک شرط نہ پائی گئی تو وہ عمل  اللہ کے ہاں  قابلِ قبول نہیں ہوگا، اور ریاکاری ایک ایسا مخفی گناہ ہے کہ  جس کی وجہ سےایک انسان کا بڑے سے بڑا نیک عمل بھی  اللہ رب العزت کے ہاں رائی کے دانے کی حیثیت نہیں رکھتا، اور جبکہ ریاکاری کے بغیرخالص اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیا ہوا چھوٹاعمل بھی اللہ کے ہاں پہاڑ کے برابر حیثیت رکھتا ہے۔

یوں تو بنیادی طور پر ریاء  کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اسی طرح  ہر درجے  کا حکم، جزاو سزا  بھی علیحدہ ہے، بعض رِیا ء کاری کے کام شرک ِاَصغر  ہیں ، جبکہ بعض ریا  شدید ترین حرام ،جبکہ بعض ریا انتہائی مکروہ اور ناپسندیدہ ہیں جن کا اسلام میں کوئی وجود نہیں ہے۔ 

آپ ﷺ  نے ایک طویل روایت میں ریاءکاری  کے بارے میں کچھ یوں بیان فرمایا "کہ قیامت کے دن اللہ رب العزت اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما ئیں گے، اس وقت ہر اُمت گھٹنوں کے بل کھڑی ہو گی۔ سب سے پہلے جن لوگوں کو بلایا جائے گا ان میں ایک حا فظِ قرآن، دوسرا اللہ کی راہ میں ہونے والا شہید اور تیسراایک  مالدار شخص ہو گا۔

اللہ رب العزت حافظ قرآن سے فرمائیں گے "’’کیا میں نے تجھے اپنے رسول پر اُتاراہوا کلام نہیں سکھایا تھا؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’کیوں نہیں ،اے مرے اللہ ۔‘‘ اللہ رب العزت ارشاد فرمائیں گے: ’’پھر تُو نے اپنے علم پر کتنا عمل کیا؟‘‘ وہ عرض کرے گا: اے میرے اللہ  ! میں دن رات اسے پڑھتا رہا۔

‘‘ اللہ رب العزت کہیں گے کہ"تو جھوٹا ہے ۔‘‘ اسی طرح فرشتے بھی اس سے کہیں گے کہ ’’تو جھوٹا ہے۔‘‘ پھر اللہ رب العزت اس سے ارشاد فرمائیں گےکہ’’تیرا مقصد تو یہ تھا کہ لوگ تیرے بارے میں یہ کہیں کہ فلاں شخص قاری قرآن ہے اور وہ تجھے دنیا میں کہہ لیا گیا۔‘‘

پھرمالدار کو لایا جائے گا تواللہ رب العزت اس سے ارشاد فرمائیں گے ’’کیا میں نے تجھ پر اپنی نعمتوں کو اتنا وسیع نہ کیا کہ تجھے کسی کا محتا ج نہ ہونے دیا؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’کیوں نہیں ،میرے اللہ ۔‘‘ اللہ رب العزت ارشاد فرمائیں گے: ’’تو نے میرے عطا کردہ مال کا کیا کیا؟‘‘ وہ کہے گا: ’’میں اس مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتا اور تیری راہ میں صدقہ کیا کرتا تھا۔

‘‘ اللہ رب العزت ارشاد فرمائیں گے ’’تو جھوٹا ہے ۔‘‘ اسی طرح فرشتے بھی اس سے کہیں گے کہ ’’تو جھوٹا ہے۔‘‘ پھر اللہ رب العزت اس سے ارشاد فرمائیں گے ’’تیرا مقصد تو یہ تھا کہ تیرے بارے میں کہاجائے کہ فلاں بہت سخی ہے اور وہ تجھے دنیا میں کہہ لیا گیا۔‘‘

پھر اللہ کی راہ میں شہید ہونے والے کو پیش کیا جائے گا تو اللہ رب العزت اس سے کلام فرمائیں گے کہ ’’تجھے کیوں قتل کیا گیا؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’مجھے تیری راہ میں جہاد کرنے کا حکم دیا گیا تو میں تیری راہ میں لڑتا رہا اور بالآخر اپنی جان دے دی۔‘‘اللہ رب العزت ارشاد فرمائیں گےکہ ’’تو جھوٹا ہے ۔‘‘ اسی طرح فرشتے بھی اس سے کہیں گے کہ ’’تو جھوٹا ہے۔‘‘

 پھر اللہ رب العزت اس سے ارشاد فرمائیں گے کہ ’’تیرامقصد تو یہ تھا کہ تیرے بارے میں کہا جائےکہ فلاں بہت بہادر ہے اور وہ تجھے دنیا میں کہہ لیاگیا"۔ آپ ﷺ نے فرمایا " یہ اللہ رب العزت کی مخلوق کے وہ پہلے تین افراد ہیں جن سے قیامت کے دن جہنم کو بھڑکایا جائے گا ۔

اللہ رب العزت سے استدعا ہے کہ جب تک زندہ رکھے ایمان کی حالت میں زندہ رکھے اور خالص اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے  نیکی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

دوستو! ہمارے ملک سیلاب کی صورتحال سے دوچار ہے جگہ جگہ لوگوں نے ریلیف کیمپ بنائے ہوئے ہیں اور لوگوں سے چندہ وصول کر رہے ہیں۔ تاکہ ضرورت مند لوگوں تک رسائی کی جا سکے۔ لیکن قابل ِ افسوس بات یہ  ہے کہ بجائے ہمارے ملک میں اشیاء سستی ہوں تاکہ غریب اور آفت ذدہ لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھاسکیں بلکہ اشیاء خوردونوش مزید چار گناہ مہنگی کر کے بیچی جاتی ہے۔

 جب زلزلہ آیا تھا اس وقت لوگوں نے کفن مہنگا کر دیا تھا اور آج بنیادی سہولیات سے ہی محروم کر دیا گیاہے۔ جو لوگ ترس کھا کر کچھ دے رہے ہیں وہ بھی آٹے کے تھیلے پر اپنی تصویر لگائے ہوئے دے رہے ہیں بعض انتخابی مہم  چلاتے ہوئے دے رہے ہیں اور بعض چند چیزیں دے کر تصاویر بنوارہے ہیں۔

 ذرا نہیں پورا سوچیے! کیا آپ نیکی کے عوض ریاء کاری تو نہیں کر رہے جو کہ اللہ کو ناپسند ہے۔ 10 روپے کی چیز 500 میں تو نہیں بیچ رہے۔۔۔۔ اللہ ہم سب پر رحم فرمائے۔  

 

2 تبصرے:

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو