//gloorsie.com/4/6955992 //woafoame.net/4/6956026 //zeekaihu.net/4/6906862 شہرت کی خاطر کی جانے والی تلاوت پر فرمان نبویﷺ

شہرت کی خاطر کی جانے والی تلاوت پر فرمان نبویﷺ

 

شہرت کی خاطر کی جانے والی تلاوت پر فرمان نبویﷺ

 

دوستو!  اکثر بینرز آویزاں ہوتے دکھائی دیتے ہیں  محفل حسن قرآت قرآن ،  اور پھر انعامات سے نوازا جانا ، تمغوں سے نوازنا، بھاری رقوم کی ادائیگی سے نوازنا وغیرہ۔  یوں تو قرآن مجید کی تلاوت دنیا و آخرت کی بھلائی کے لئے پڑھنا ہے  ۔انسان جتنا تلاوت کرتا ہے اس کی نیکیوں میں اس قدر اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے۔ دنیا بھی سنور جاتی ہے اور آخرت بھی۔

لیکن  اگر دین کے کسی کام میں بھی خواہ وہ نماز، زکوۃ، حج، روزہ، تلاوت قرآن یا کسی کی مدد کرنا بھی مقصود ہو تو اس عمل سے ریاکاری ، سستی شہرت کا حاصل کرنا، یا محض دولت کا حصول ممکن ہوتو وہ عمل بربادی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ۔





بالکل اسی طرح قرآن کی تلاوت بھی اگر اسی طرح کی جائے کہ جس میں صرف اور صرف ریاکاری ، شہرت کا حصول اور پھر منہ مانگی اجرت کا طلب کرنا ،محض دنیا داری ہے آخرت میں ان کا حصہ نہیں ہے۔

یوں تو قرآن مجید کی تلاوت و قرآت عبادت اور قربت الہی کا ذریعہ ہے۔ اس سلسلے میں اصولی بات یہ ہے کہ عبادات دنیا طلبی کے لئے نہ کی جائیں۔ بلکہ یہ تو  خالصتا آخرت کی کامیابی اور اللہ رب العزت کی خوشنودی کے لئے ہونی چاہیں۔

قرب قیامت کی بہت سی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی فرمائی گئی کہ کچھ لوگ ایسے ظاہر ہوں گے جو تعزیت کی مجالس  اور تقریبات میں قرآن مجید کی خوبصورت آواز میں تلاوت محض اس لئے کریں گے کہ اس پر مال حاصل کر سکیں۔

آج ہمارے اردگر د کچھ ایسا دکھائی دے رہا ہے  کہ لوگ مجالس میں، ختم قرآن مجید، جنات کو بھگانے کے لئے، روزی  روٹی کے دم کرنا، چالیسواں، قل  خوانی، جمعرات، پندرھویں،  اور دیگر رسومات کی ادائیگی کی خاطر لوگوں کو بلوا کر یہ کام کرواتے ہیں اور اس کام کے عوض بھاری رقوم دی جاتی ہیں۔

اور تلاوت کرنے والا اس نیت سے تلاوت کرتا ہے کہ مال و زر زیادہ سے زیادہ اکٹھا ہو سکے تو سوچیے! اس عمل میں کتنی افادیت ہو گی۔ جس کا مقصد ثواب نہیں بلکہ دنیا داری ہوگی۔

ایک روایت کے مطابق  ایک صحابی ایک ایسے شخص کے پاس  سے گزرے جو کچھ لوگوں کے سامنے قرآن پاک کی تلاوت کررہا تھا، جب وہ تلاوت کر چکا تو ان سے پیسے مانگنے لگا، یہ صورت حال دیکھ کر  اِناَّ لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِ لَیٌہِ رَاجِعُون  پڑھا اور کہا"میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے  "جو قرآن کی تلاوت کرے اسے چاہیے کہ وہ اللہ رب العزت سے اپنی حاجات طلب کرے، ایک قوم ایسی  بھی آنے والی ہے جو قرآن پڑھ کر لوگوں سے سوال کرے گی۔"

ایک اور مقام پر صحابی فرماتے ہیں  "ایک دفعہ اللہ کے رسول ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے جب ہم قرآن کی تلاوت کررہے تھے، ہم میں کچھ بدو اور کچھ عجمی لوگ بھی تھے۔ ہماری قرآت سن کر آپ ﷺ نے فرمایا " پڑھو! تم سب کی تلاوت اچھی ہے۔ عنقریب کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن کو تیر کی طرح سیدھا کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ اس کے ذریعہ فوری دینوی فائدہ حاصل کرنا چاہیں گے۔ اور اخروی اجروثواب کے وہ خواہشمند نہیں ہوں گے۔"

یہ لوگ قرآن کا معاوضہ فوری طور پر لینا چاہیں گے اور آخرت تک صبر اور انتظار نہیں کریں گے۔

ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا: میری اُمت میں سے ایک قوم ظاہر ہوگی، وہ ایسا قرآن پڑھیں گے کہ ان کے پڑھنے کے سامنے تمہارے قرآن پڑھنے کی کوئی حیثیت ہوگی نہ ان کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کچھ حیثیت ہوگی۔ وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ وہ ان کے لئے مفید ہے لیکن درحقیقت وہ ان کے لئے مضر ہوگا، نماز ان کے گلے کے نیچے سے نہیں اتر سکے گی اور وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔

ایک اور مقام پر کچھ یوں ارشاد فرمایا " عنقریب میری امت میں سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو یوں غٹ غٹ پڑھیں گے گویا وہ دودھ پی رہے ہیں۔“

ایسے لوگوں کے لئے ہی اوپر دی گئی احادیث  میں زبردست پیشن گوئی فرمائی گئی ہے کہ ایسے لوگوں کے حلق سے قرآن نیچے نہیں اتر پائے گا۔ کیونکہ مقصد دنیا داری کمانا مقصود ہوگا۔

ہائے افسوس! دن رات محنت کرکے قرآن حفظ کیا لیکن وہ قرآن سینے میں محفوظ تو ہوگیا لیکن اس پر اثر انداز نہ ہوسکا ۔ قرآن کے پڑھنے کا علم تو حاصل کر لیا لیکن عمل سے عاری ہوگیا۔ وہ قرآن کا پڑھنا ، حلق سے نیچے نہ اترنا، دل پر اثر نہ کرنا،   محض تکلیف کا باعث ہے۔

قرآن کا پڑھنا ، قرآن کا سننا، قرآن کا پڑھانا ، سراپا شفا ہے ۔ لیکن ایسے لوگوں کے لئے محض دنیا داری   ہی سب کچھ ہوگا ، آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

اللہ رب العزت سے استدعا ہے کہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے اور ہم سب کے صغیرہ کبیرہ گناہوں کو معاف فرما دے۔ آمین

  

 

0/Post a Comment/Comments

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔