دین
اسلام محبت، شفقت، اور ہدایت کا دین ہے، جس کا مقصد انسانیت کو امن، سلامتی اور
روحانی ترقی کی طرف لے جانا ہے۔ لیکن جب دین کے نام پر لوگوں کو خوفزدہ کیا جائے یا
لالچ دیا جائے، تو یہ اسلام کے اصل پیغام سے انحراف کرتا ہے۔ دین کے نام پر ڈرانا
سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص کو مذہبی عقائد یا اعمال کے حوالے سے ایسے نتائج کا خوف
دلانا جو قرآن و سنت میں موجود نہیں ہیں، اور لالچ دینا کا مطلب ہے کہ لوگوں کو دین
کی راہ چھوڑنے یا غلط راستے پر چلنے کے لیے دنیاوی مفادات کا لالچ دینا۔
یہ
بدعت اس وقت جنم لیتی ہے جب کچھ لوگ مذہب کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے
ہیں، چاہے وہ سیاسی، معاشرتی یا معاشی مفادات ہوں۔ دین کے نام پر لوگوں کو ڈرانا یا
لالچ دینا، لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے اور ان پر اپنی طاقت اور اثر و رسوخ
برقرار رکھنے کا ایک طریقہ بن جاتا ہے۔
دین
کے نام پر خوف اور لالچ کی ابتدا کا تعلق کسی مخصوص مسلک یا دور سے جوڑنا مشکل ہے،
کیونکہ یہ رویہ انسان کی فطرت سے جڑا ہوا ہے اور مختلف ادوار اور معاشروں میں
مختلف صورتوں میں سامنے آیا ہے۔ تاہم، اسلامی تاریخ میں بھی ایسے افراد اور گروہ پیدا
ہوئے جو دین کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے تھے اور لوگوں کو اپنے مخصوص
عقائد یا مفادات کے تحت چلانے کی کوشش کرتے تھے۔
حضرت
محمد ﷺ کے دور میں بھی بعض منافقین اور جھوٹے نبی پیدا ہوئے جو لوگوں کو دین کے
نام پر گمراہ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں
فرماتا ہے: "اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو لوگوں کو (جھوٹے) وعدے دے کر گمراہ کرتے
ہیں، حالانکہ اللہ اور اس کے رسول نے جو چیز مقرر کی ہے وہی سچی ہے۔"
مختلف اسلامی فرقوں اور مکاتب فکر نے بھی بعض اوقات اپنے پیروکاروں کو اپنے طریقہ
کار پر چلانے کے لیے دین کے نام پر ڈرانا یا لالچ دینے کا طریقہ استعمال کیا ہے۔
دور
جاہلیت میں، جو اسلام سے قبل کا عربی دور تھا، لوگ بہت سی غلط فہمیوں اور جہالت میں
مبتلا تھے۔ وہاں مختلف قبیلوں کے لوگ بت پرستی، شرک اور دیگر غیر اسلامی رسوم میں
ملوث تھے، اور مذہب کو لوگوں پر اپنا اثر قائم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
اس زمانے میں بھی سردارانِ قبائل اور مذہبی پیشوا لوگوں کو ڈراتے اور لالچ دیتے
تھے تاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کام کرائیں۔
قرآن
مجید میں اللہ تعالیٰ اس دور کی جہالت اور ظلم کی بات کرتے ہوئے فرماتا ہے: "اور جب ان سے کہا
جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ کرو، تو وہ کہتے ہیں: ہم اسی پر چلیں
گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔" یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ
لوگ اپنے آباء و اجداد کے غلط مذہبی رسومات میں مبتلا تھے اور انہیں اس سے ڈرایا
اور لالچ دیا جاتا تھا۔
جنوبی
ایشیاء میں، خاص طور پر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں، دین کے نام پر لوگوں کو
ڈرانا یا لالچ دینا ایک عام سی بات بن چکی ہے۔ کئی مذہبی گروہ اور فرقے اپنی تعلیمات
کو لوگوں پر نافذ کرنے کے لیے خوف اور لالچ کا استعمال کرتے ہیں۔
ایک
عام دعویٰ جو بعض علماء یا مذہبی پیشوا کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر قرآن کو ترجمے کے
ساتھ پڑھو گے تو الٹا گمراہ ہو جاؤ گے۔ یہ دعویٰ بنیادی طور پر اس خوف کو فروغ دیتا
ہے کہ عام مسلمان قرآن کو سمجھ نہیں سکتے اور انہیں مذہبی تعلیمات کو سمجھنے کے لیے
خاص علماء کی ضرورت ہے۔
اسی
طرح بعض اوقات لوگوں کو دین سے ہٹانے کے لیے دنیاوی لالچ دی جاتی ہے، جیسے بہتر
زندگی، معاشی ترقی، یا سماجی حیثیت کی پیشکش۔ ایسے حالات میں لوگ دین سے بے خبر ہو
کر یا تو کسی غلط راستے پر چل پڑتے ہیں یا دوسری مذہبی جماعتوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔
دین
کے نام پر لوگوں کو ڈرانا یا لالچ دینا صرف اسلام تک محدود نہیں، بلکہ یہ عمل دیگر
مذاہب میں بھی پایا جاتا ہے۔ تاریخ میں عیسائیت میں بھی چرچ کے کچھ حصے نے لوگوں
کو جنت اور دوزخ کا خوف دلایا تاکہ ان کی مالی یا سماجی حمایت حاصل کی جا سکے۔
قرون وسطیٰ کے دور میں "انڈلجنس" کا تصور موجود تھا، جس میں چرچ پیسے لے
کر لوگوں کو جنت میں داخلے کا یقین دلاتا تھا۔
اسی
طرح ہندو مت میں بھی بعض گروہ لوگوں کو مذہبی رسومات میں شرکت کے لیے خوفزدہ کرتے
ہیں کہ اگر وہ ان رسومات کو نہیں مانیں گے تو انہیں "بدروحوں" کا سامنا
کرنا پڑے گا۔
اسلامی
دنیا میں مختلف مکاتب فکر اور فرقے موجود ہیں جو اپنے اپنے نظریات اور عقائد رکھتے
ہیں۔ کچھ فرقے دین کے نام پر لوگوں کو ڈرانے یا لالچ دینے کے حربے استعمال کرتے ہیں
تاکہ وہ اپنے مخصوص عقائد اور اعمال کو فروغ دے سکیں۔
1. آغا خانی:
آغا
خانی فرقہ اسماعیلی شیعوں کی ایک شاخ ہے، اور ان کے کچھ عقائد اور تعلیمات مرکزی
اسلامی تعلیمات سے مختلف ہیں۔ بعض اوقات اس فرقے کے افراد پر لالچ اور خوف کا دباؤ
ڈالا جاتا ہے تاکہ وہ فرقے کے رہنما (آغا خان) کی پیروی کریں۔
2. احمدی:
احمدیوں
کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے اور ان کے عقائد کو اسلام سے خارج تصور کیا جاتا ہے۔
کچھ احمدی گروہ اپنے پیروکاروں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ ان کے فرقے میں شامل ہونا
ہی نجات کا ذریعہ ہے اور اس سے باہر نکلنے کا مطلب دنیا اور آخرت کی بربادی ہے۔
3. ندوی:
ندوی
مکتب فکر ایک اسلامی تعلیمی اور فکری تحریک ہے، جو اسلام کی روحانی اور تعلیمی ترقی
پر زور دیتی ہے۔ اس مکتب فکر میں عمومی طور پر لوگوں کو دین کے نام پر ڈرانے یا
لالچ دینے کی روایت موجود نہیں ہے۔
4. اسماعیلی:
اسماعیلی
شیعہ مسلمانوں کا ایک ذیلی فرقہ ہے، جن کا عقیدہ خاص طور پر اماموں کی پیروی پر
زور دیتا ہے۔ بعض اوقات اسماعیلیوں کو لالچ دیا جاتا ہے کہ اگر وہ فرقے کی مخصوص
تعلیمات کو چھوڑیں گے تو وہ دنیاوی یا روحانی نقصان اٹھائیں گے۔
5. دیوبندی:
دیوبندی
مکتب فکر اسلامی تعلیمات کی سختی سے پیروی پر زور دیتا ہے، اور اس میں کچھ علماء دین
کے نام پر لوگوں کو ڈراتے ہیں کہ اگر وہ اسلامی شعائر کی خلاف ورزی کریں گے تو انہیں
سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
6. بریلوی:
بریلوی
مکتب فکر عشق رسول ﷺ پر زور دیتا ہے اور اس میں بھی بعض علماء دین کے نام پر لوگوں
کو ڈرانے یا لالچ دینے کی روایت اختیار کرتے ہیں، جیسے کہ مخصوص رسومات یا عقائد کی
پیروی نہ کرنے پر دنیاوی یا اخروی نقصان کا خوف دلایا جاتا ہے۔
7. اہل حدیث:
اہل
حدیث مکتب فکر قرآن اور حدیث کی سختی سے پیروی کرتا ہے اور اس میں عمومی طور پر
لوگوں کو دین کے نام پر ڈرانے یا لالچ دینے کا عمل موجود نہیں ہوتا، لیکن بعض
افراد شریعت کی سختی کی وجہ سے لوگوں کو خوفزدہ کر سکتے ہیں۔
8. اہل تشیع:
اہل
تشیع میں بعض مواقع پر اماموں کی محبت اور پیروی کو اس قدر ضروری قرار دیا جاتا ہے
کہ اگر کوئی ان سے انحراف کرے تو اسے سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بعض علماء
اور گروہ اس عقیدے کو لوگوں کو ڈرانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
9. قادیانی:
قادیانیوں
کو مرکزی اسلامی عقائد سے انحراف کے باعث غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔ ان کے اندر
بعض گروہ ایسے ہیں جو لوگوں کو اپنے فرقے میں شامل کرنے کے لیے لالچ اور خوف کا
حربہ استعمال کرتے ہیں۔
اسلام
میں کسی کو خوفزدہ کر کے یا دنیاوی لالچ دے کر دین کی پیروی کرانا جائز نہیں ہے۔
قرآن و سنت میں واضح طور پر اس بات کی ممانعت کی گئی ہے کہ دین کو جبراً کسی پر
مسلط کیا جائے یا اس کا غلط استعمال کیا جائے۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا
ہے: "دین میں کوئی زبردستی نہیں، صحیح بات غلط بات سے الگ ہو چکی ہے۔"
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اسلام میں زبردستی دین کی پیروی کرانا جائز نہیں ہے۔
اسی
طرح، حضرت محمد ﷺ نے بھی لوگوں کو نرمی اور محبت سے دین کی طرف بلانے کا حکم دیا
ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرتے ہیں
اور سختی نہیں کرتے۔"
1. قرآن اور سنت کا مطالعہ:
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خود قرآن اور سنت کا مطالعہ کریں تاکہ انہیں دین کی حقیقی
تعلیمات کا علم ہو اور وہ کسی کے خوف یا لالچ کا شکار نہ ہوں۔
2. تعلیمات کا درست فہم: اسلامی تعلیمات کو صحیح طریقے سے
سمجھنے کے لیے علماء کی رہنمائی حاصل کریں، لیکن انہیں اندھی تقلید سے بچیں۔
3. بدعت اور غلط رویوں کی پہچان:
اگر کسی مذہبی گروہ یا شخص کے رویے میں بدعت، خوف یا لالچ کا عنصر شامل ہو، تو اس
سے دور رہیں اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو مدنظر رکھیں۔
4. معاشرتی تعلیم و تربیت:
ایسے معاشروں میں رہنے والے افراد کو تعلیم دی جائے کہ وہ کسی کے دباؤ میں آکر دین
کے نام پر ڈرنے یا لالچ میں نہ آئیں۔
اسلام
ایک ایسا دین ہے جو محبت، امن، اور ہدایت کا پیغام دیتا ہے۔ دین کے نام پر لوگوں
کو ڈرانا یا لالچ دینا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قرآن و
سنت کے مطابق اپنی زندگی گزاریں اور کسی بھی بدعت یا غیر اسلامی رویے کا شکار نہ
ہوں۔
مزید
آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب
سائٹ وزٹ کریں۔
پکی
قبریں بنانا، قل
خوانی کرنا، عرس
میلے منانا، پیری مریدی، قوالی گانا، قبروں پر چادریں چڑھانا، گدی نشینی،تیجہ منانا، ساتا منانا، دسواںمنانا ، چالیسواں منانا، گیارہویں منانا، رجب کے کنڈے، ختم دلوانا، برسی منانا
Ye to aj kal bohat ho raha hai
جواب دیںحذف کریں