قبروں
پر چادریں چڑھانا ایک رواج ہے جس میں لوگ اولیاء اور بزرگانِ دین کی قبروں کو خاص
قسم کی چادروں سے ڈھانپتے ہیں۔ یہ عمل زیادہ تر محبت اور عقیدت کے اظہار کے طور پر
کیا جاتا ہے، اور اسے اکثر لوگ بزرگان دین کی تعظیم اور برکت کے حصول کا ذریعہ
سمجھتے ہیں۔
اسلام
میں بدعت (بِدْعَة) ہر اُس نئے عمل کو کہا جاتا ہے جو دین کی اصل تعلیمات میں شامل
نہ ہو اور جسے بعد میں دین کا حصہ بنا لیا جائے۔ نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں قبروں پر چادریں چڑھانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
لہٰذا، علماء کی ایک بڑی تعداد اس عمل کو بدعت قرار دیتی ہے کیونکہ یہ دین میں نئی
چیزوں کا اضافہ ہے۔
رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا:"جو ہمارے اس دین میں کوئی
نئی چیز ایجاد کرے جو اس میں نہیں ہے، وہ رد (مردود) ہے۔"
بدعت
کا لغوی معنی "نئی چیز" ہے، اور شرعی اصطلاح میں بدعت اُس عمل کو کہا
جاتا ہے جو رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے دور میں نہ تھا اور دین کے نام پر بعد میں
ایجاد کیا گیا ہو۔ نبی کریم ﷺ نے ہر قسم کی بدعت کو گمراہی قرار دیا ہے:"ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم کی طرف لے جانے والی
ہے۔"
یہ
تصور کہ مولویوں نے صرف کھانے یا بعض رسومات کو دین کا حصہ بنایا ہے، ایک عمومی
تاثر ہے جو بعض لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ تاہم، دینِ اسلام کی اصل تعلیمات قرآن و
سنت پر مبنی ہیں، اور علمائے کرام کا فرض ہے کہ وہ دین کی پاکیزگی کو بدعات سے
بچائیں اور امت کو دینِ اسلام کی اصل تعلیمات کی پیروی کی طرف مائل کریں۔
پاکستان
میں قبروں پر چادریں چڑھانے کا عمل ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ کئی لوگ اس
عمل کو بزنس کے طور پر انجام دیتے ہیں، جہاں مزارات اور قبرستانوں میں چادریں
فروخت کی جاتی ہیں اور لوگ انہیں عقیدت کے طور پر قبروں پر چڑھاتے ہیں۔ اس کاروبار
میں شامل افراد مریدین اور زائرین کی عقیدت کو استعمال کرتے ہیں، جو کہ بدعتی رسوم
کی فروغ کا باعث بن رہا ہے۔
قبروں
پر چادریں چڑھانے کی ابتدا اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں نہیں ملتی۔ یہ عمل زیادہ
تر بعد کے صوفی سلسلوں میں رائج ہوا، جہاں اولیاء اللہ کے مزاروں کی تعظیم کے طور
پر چادریں چڑھانے کا رواج شروع ہوا۔ اس عمل کی واضح ابتدا کسی مخصوص فرقے یا دین
سے نہیں جڑی، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ مختلف ثقافتوں اور عقائد میں شامل ہوتا گیا۔
دورِ
جاہلیت میں قبروں پر چادریں چڑھانے کا کوئی خاص ثبوت نہیں ملتا۔ جاہلیت کے دور میں
قبروں کی تعظیم اور مختلف رسوم موجود تھیں، مگر چادریں چڑھانے جیسی بدعت کا ذکر نہیں
ملتا۔ اسلام نے جاہلیت کے ان تمام رسوم کو ختم کیا جو توحید کے اصولوں کے خلاف تھیں۔
دیگر
مذاہب، جیسے ہندو دھرم، عیسائیت، اور بدھ مت میں بھی قبروں اور مزارات کی تعظیم کا
تصور پایا جاتا ہے۔ ان مذاہب میں بھی قبرستانوں اور مقدس مقامات پر عقیدت کا اظہار
مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے، جیسے کہ قبروں کو سجانا، پھول چڑھانا، یا چادریں
چڑھانا۔ یہ عمل زیادہ تر مذہبی عقائد سے کم اور ثقافتی رسوم کا حصہ ہے۔
زرتشتی
مذہب میں قبروں کی تعظیم کا ایک خاص طریقہ کار تھا، لیکن وہاں چادریں چڑھانے کا
رواج موجود نہیں تھا۔ زرتشتی مذہب میں مردوں کو دفن کرنے کی بجائے کھلے مقامات پر
چھوڑنے کا رواج تھا تاکہ قدرتی طور پر وہ گل جائیں۔
اسلام
میں قبروں پر چادریں چڑھانے کا کوئی واضح تصور موجود نہیں ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے قبروں
پر کسی بھی قسم کی تعمیر یا اس کی زینت کے بارے میں منع کیا ہے۔ آپ ﷺ نے قبروں کو
سادہ رکھنے اور انہیں عبادت یا تعظیم کا مرکز نہ بنانے کی تعلیم دی ہے۔
نبی
کریم ﷺ نے فرمایا:"قبروں پر نہ بیٹھو اور ان
کی طرف رخ کر کے نماز نہ پڑھو۔"قبروں کو سجانے اور ان پر چادریں
چڑھانے کا عمل اسلام میں جائز نہیں سمجھا جاتا، اور یہ بدعت کے دائرے میں آتا ہے۔
صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی سے قبروں پر چادریں چڑھانے کا کوئی ثبوت نہیں
ملتا۔ صحابہ کرام قبروں کو سادہ رکھنے اور انہیں عبادت یا تعظیم کا مرکز نہ بنانے
کی تعلیم دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قبروں پر کسی بھی قسم کی تعمیر اور زینت
کو ناپسند کیا۔
ائمہ
کرام جیسے امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، اور امام ابو حنیفہ رحمہم
اللہ نے قبروں پر چادریں چڑھانے اور ان کی تعظیم کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے۔
ان کے نزدیک یہ عمل دین میں نئی چیزوں کا اضافہ اور بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔ ائمہ
کرام نے لوگوں کو قبروں کو سادہ رکھنے اور بدعتی رسوم سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ لیکن مسلک بریلوی اور اہل تشیع میں یہ بدعت کافی زوروشور سے منائی جاتی ہے اور
باقاعدہ اس کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔
پاکستان
میں قبروں پر چادریں چڑھانے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، جو کہ عوام میں دین کی اصل
تعلیمات سے دوری کا ایک نشان ہے۔ اس کے منفی نتائج میں بدعت کا فروغ، عوام کا دین
سے غیر ضروری عقائد کی طرف مائل ہونا، اور قبروں کو عبادت کا مرکز بنانا شامل ہیں۔
اس
گناہ سے بچنے کے لیے ہمیں قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور بدعات سے دور
رہنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہر قسم کی بدعت سے بچنے کی سخت تاکید کی ہے، اور دین میں
صرف وہی عمل کرنا چاہئے جو قرآن و سنت کے مطابق ہو۔
قرآن
میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:"اس کی پیروی کرو
جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے، اور اس کے علاوہ کسی اور کی پیروی
نہ کرو۔"
قبروں
پر چادریں چڑھانا اسلام میں ایک غیر شرعی عمل اور بدعت ہے جس کی کوئی بنیاد قرآن و
سنت میں موجود نہیں ہے۔ اس سے بچنے کے لئے ہمیں دین کی اصل تعلیمات کی پیروی کرنی
چاہیے اور بدعتی رسومات سے خود کو اور معاشرے کو دور رکھنا چاہیے۔
مزید
آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب
سائٹ وزٹ کریں۔
کسی جانور گائے بکری سے جماع کرنا، بغیر عذر شرعی جماعت کی نماز چھوڑنا، پڑوسی کوتکلیف دینا، وعدہ خلافی کرنا، غیرمحرم عورت کی طرف بہ قصد دیکھنا ،پکی قبریں بنانا، قل خوانی کرنا، عرس میلے منانا،
Zabardast info
جواب دیںحذف کریں