"گدی
نشینی" ایک اصطلاح ہے جو عموماً صوفیاء اور روحانی شخصیات کی سربراہی کے منصب
کی منتقلی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ جب کوئی روحانی رہنما یا صوفی بزرگ وفات
پاتا ہے تو اس کی جگہ اس کا مقرر کردہ یا قدرتی وارث "گدی" پر بیٹھتا
ہے۔ یہ گدی نشین عموماً درگاہ یا خانقاہ کے معاملات کی نگرانی، مریدین کی روحانی
رہنمائی اور علاقے کی معاشرتی و مذہبی ذمہ داریوں کو سنبھالتا ہے۔
پاکستان
جیسے ملک میں گدی نشینی کا ادارہ تاریخی، سماجی اور معاشرتی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں
کئی درگاہیں اور خانقاہیں موجود ہیں جو لاکھوں عقیدت مندوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی
ہیں۔ یہ خانقاہیں اور درگاہیں زائرین کی آمد و رفت اور نذرانوں کی وجہ سے کافی مالی
فائدہ بھی دیتی ہیں۔ زائرین کی عقیدت کی بنا پر جمع ہونے والے نذرانے، چندے، اور
عطیات گدی نشین کے لیے ایک اہم مالی ذریعہ بن جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ مالی فائدے
اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ گدی نشینی ایک قسم کا کاروبار معلوم ہوتا ہے، جس میں گدی
نشینوں کا خاندان نسل در نسل اس عہدے کو برقرار رکھتا ہے۔
اس
حوالے سے قرآن پاک میں واضح ہے کہ دین میں کسی بھی قسم کی تجارت یا نفع اندوزی
جائز نہیں، جب تک کہ وہ اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں:: اور تم اپنے مال آپس میں ناجائز طریقے
سے نہ کھاؤ "اسی طرح، ایک حدیث
میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:" کسی کو نقصان
پہنچانا اور خود نقصان اٹھانا دونوں حرام ہیں"ان احادیث اور قرآنی
آیات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ گدی نشینی یا کوئی بھی مذہبی منصب اگر
مخلصانہ طور پر اللہ کی رضا کے لیے انجام دیا جائے تو جائز ہے، لیکن اگر اسے دنیاوی
نفع کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ دین کے اصولوں کے منافی ہے۔
گدی
نشینی جیسی بدعت کی ابتدا کی واضح تاریخ کا تعین مشکل ہے، لیکن یہ کہنا درست ہوگا
کہ اس کا رواج اسلام کے ابتدائی ادوار کے بعد رفتہ رفتہ مخصوص معاشرتی اور ثقافتی
اثرات کے زیر اثر پیدا ہوا۔ گدی نشینی کا رواج زیادہ تر برصغیر پاک و ہند میں دیکھا
جاتا ہے، جہاں صوفی ازم اور درگاہوں کی اہمیت بڑھنے کے ساتھ ساتھ گدی نشینی کےتصورات بھی پروان چڑھے۔
اسلام
کے ابتدائی دور میں گدی نشینی یا موروثی روحانی قیادت کا کوئی تصور نہیں تھا۔
خلافت راشدہ کا نظام اس بات کا ثبوت ہے کہ قیادت کی بنیاد علم، تقویٰ، صلاحیت، اور
امت کی فلاح و بہبود پر رکھی جاتی تھی۔ اسلام میں خلافت اور روحانی قیادت کو کسی
خاندانی سلسلے یا وراثت کے ذریعے منتقل نہیں کیا جاتا تھا۔
برصغیر
پاک و ہند میں صوفیاء کرام کی آمد کے ساتھ اسلام کی تبلیغ میں ایک خاص روحانی رنگ
پیدا ہوا۔ صوفیاء کرام نے اپنی خانقاہوں اور درگاہوں کے ذریعے لوگوں کی روحانی تربیت
کی اور انہیں دین کی طرف مائل کیا۔ ان صوفیاء کی وفات کے بعد ان کے پیروکاروں نے
ان کی جگہ لینے کے لیے ان کے مریدین یا خاندان کے کسی فرد کو "گدی نشین"
کے طور پر مقرر کرنا شروع کیا۔ یہیں سے گدی نشینی کا رواج شروع ہوا، جو بعد میں ایک
مضبوط روایت بن گیا۔
گدی
نشینی کے رواج کو فروغ دینے میں کئی عوامل نے کردار ادا کیا:
صوفیاء کی عوامی مقبولیت:
صوفیاء
کرام نے برصغیر میں اسلام کی تبلیغ میں اہم کردار ادا کیا اور عوام میں بے پناہ
مقبولیت حاصل کی۔ ان کی درگاہوں پر لوگوں کا ہجوم جمع ہوتا اور لوگ ان کے ذریعے
اپنی روحانی اور مادی مشکلات کا حل تلاش کرتے۔ ان صوفیاء کی وفات کے بعد ان کے پیروکاروں
نے اس نظام کو جاری رکھنے کے لیے گدی نشینوں کو مقرر کیا۔
موروثیت کا تصور:
برصغیر
کے ہندو معاشرت میں موروثی قیادت کا تصور موجود تھا، جیسے کہ گروکل یا آشرم کے
نظام میں۔ جب اسلام برصغیر میں آیا تو یہ مقامی معاشرتی روایات بھی اس کے ساتھ مل
گئیں اور گدی نشینی کا رواج مضبوط ہوا۔
مالی مفادات:
درگاہوں
اور خانقاہوں پر زائرین کی آمد کے ساتھ نذرانوں اور عطیات کی شکل میں بڑی مالی
امداد بھی ہوتی تھی۔ اس مالی مفاد نے بھی گدی نشینی کو ایک منافع بخش کاروبار میں
تبدیل کر دیا۔
اسلام
میں قیادت اور رہنمائی کی بنیاد علم، تقویٰ اور اللہ کی رضا پر رکھی گئی ہے، نہ کہ
موروثی نظام پر۔ قرآن و حدیث میں ایسی کسی بدعت یا روایت کی اجازت نہیں دی گئی ہے
جو دین کے اصولوں سے متصادم ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر فرمایا: جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں
تھی، تو وہ رد کر دی جائے گی "یہ حدیث اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ
دین میں کسی نئی رسم یا روایت کو داخل کرنا بدعت ہے، اور ایسی بدعات کو دین میں
کوئی مقام حاصل نہیں۔
بہت
سے علماء اور ائمہ کرام نے گدی نشینی کے نظام کو ایک بدعت قرار دیا ہے۔ ان کا موقف
ہے کہ گدی نشینی کا تصور اسلامی تعلیمات کے برخلاف ہے، کیونکہ دین کی قیادت اور
روحانی رہنمائی کسی خاندان یا نسل کی وراثت نہیں ہونی چاہیے، بلکہ اس کا انحصار
تقویٰ، علم، اور خدمت پر ہونا چاہیے۔
امام
ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں"دین میں
بدعات سے بچنا اور سنت کی پیروی کرنا فرض ہے۔"یہ بات واضح کرتی ہے
کہ گدی نشینی جیسے بدعتی تصورات کی کوئی اصل اسلامی شریعت میں نہیں ہے۔ لیکن مسلک
بریلوی اور مسلک اہل تشیع میں اس بدعت کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے جسکی وجہ یہ
خانقاہیں آباد ہیں۔
گدی
نشینی کی ابتدا زیادہ تر برصغیر میں صوفی ازم اور مقامی روایات کے زیر اثر ہوئی،
جس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ ایک ایسی بدعت ہے جو رفتہ رفتہ
معاشرتی اور مالی مفادات کی وجہ سے پروان چڑھی۔ اسلام میں روحانی قیادت کا معیار
تقویٰ، علم اور اخلاص پر مبنی ہونا چاہیے نہ کہ موروثی سلسلے پر۔
دنیا
کے مختلف مذاہب میں گدی نشینی یا مذہبی قیادت کا تصور موجود ہے۔ ہندو مت میں
"گدی" کو عموماً "آشرم" یا "گروکل" کا نظام کہا
جاتا ہے جہاں گرو اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتے ہیں اور بعد میں اپنے کسی شاگرد کو
اپنا جانشین مقرر کرتے ہیں۔
عیسائیت
میں بھی مذہبی قیادت کا ایک سلسلہ پایا جاتا ہے۔ رومن کیتھولک چرچ میں پوپ کا عہدہ
ایک ایسی ہی مثال ہے جو ایک روحانی سلسلے کے ذریعے نئے پوپ کو منتقل کیا جاتا ہے۔
بدھ
مت میں "دلائی لاما" کی مثال لی جا سکتی ہے جو روحانی قیادت کی ایک عظیم
شکل ہے اور نئے دلائی لاما کا انتخاب مخصوص قواعد کے تحت کیا جاتا ہے۔
اسلامی
تاریخ میں گدی نشینی یا روحانی قیادت کے مناصب کی کوئی ایک معیاری شکل متعین نہیں
ہے۔ اسلام کی بنیاد اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت اور قرآن و سنت کی پیروی پر
ہے۔ اسلامی معاشرت میں علماء اور فقہاء کو بڑا مقام حاصل ہے، لیکن اس میں کوئی
موروثی سلسلہ نہیں ہوتا۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:" بے شک تم میں سے عزت والا وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔"یہ
آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ عزت و مقام تقویٰ اور اللہ کی رضا کی بنیاد پر
ہے، نہ کہ کسی خاندانی یا موروثی سلسلے کی بنیاد پر۔
گدی
نشینی کا تصور بعض خطوں میں ثقافتی اور معاشرتی اہمیت رکھتا ہے، لیکن اسے اسلامی
تعلیمات کے عین مطابق رکھنے کی ضرورت ہے۔ گدی نشین کو اللہ کی رضا کے لیے اپنی
خدمات انجام دینی چاہئیں اور اسے دنیاوی نفع یا کاروبار کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔
اسلام میں علم، تقویٰ، اور خلوص کی بنیاد پر روحانی قیادت کو ترجیح دی گئی ہے اور
خاندانی یا موروثی سلسلہ کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔
مزید
آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب
سائٹ وزٹ کریں۔
کسی جانور گائے بکری سے جماع کرنا، بغیر عذر شرعی جماعت کی نماز چھوڑنا، پڑوسی کوتکلیف دینا، وعدہ خلافی کرنا، غیرمحرم عورت کی طرف بہ قصد دیکھنا ،پکی قبریں بنانا، قل خوانی کرنا، عرس میلے منانا،
Achi info hai
جواب دیںحذف کریں