google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 عصر حاضر کے 10 بڑے گناہ 1-غیر اللہ کی پکار - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

ہفتہ، 11 جون، 2022

عصر حاضر کے 10 بڑے گناہ 1-غیر اللہ کی پکار

عصر حاضر کے 10 بڑے گناہ 1-غیر اللہ کی پکار

محترم قارئین کرام ! ہمارے ایمان کا بنیادی جزو ہے کہ اللہ رب العزت  کے سوا کسی اور کو مسبب الاسباب سے بالاتر نہ سمجھاجائے اور نہ ہی پکارا جائے۔توحید یہ ہے کہ خاص اسی کی عبادت کی جائے اور اسی سے مدد مانگی جائے  ، وہ واحد ہےذات و صفات میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ لیکن افسوس کہ آج کے مسلمانوں نے اپنی حاجات کو پورا کرنے کے لئے  الگ الگ پیر بنا لئے ہیں جن سے ناصرف مختلف توقعات بلکہ امداد و استعانت طلب کی جاتی ہے۔ بیٹے دینے والا پیر الگ ہے تو دولت دینے والا، نوکریاں بانٹنے والا کوئی اور۔ جنتی دروازہ کا محافظ کوئی اور ہے  تو بیماریاں دور کرنے والا کوئی  اور بالکل اسی طرح جیسے مشرکین الگ الگ بتوں سے الگ الگ حاجات  کی توقعات رکھا کرتے تھے۔ یاد رکھئیے! شرک پر مرنے والے کی کوئی معافی نہیں ہے۔اور شرک بہت بڑا ظلم اور کبائر اکبر کہا گیا ہے۔ ایمان کا نہ ہونا جانوروں سے برتر کہا گیا ہے۔





اللہ رب العزت فرماتے ہیں "اللہ کے سوا نہ کوئی کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان"۔ ایسی   لاحاصل خواہشات  کے حصول  جو درحقیقت  مخلوق کے اختیار میں نہیں ہیں،اللہ کی پیداکردہ مخلوق میں سے کسی فرد جو کہ  کمتر، کمزور،اور محتاج  ہو کوخواہشات پوری کرنے کے لئے پکارے شرک عظیم  ہے ۔اورخاص کر قبر میں لیٹے اس مردہ لاش کو جو  نہ تو سن سکتا ہے نہ اپنے لئے کچھ کر سکتا ہے اور نہ جواب دے سکتا ہے۔ظلم عظیم ہے۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایاگیا’’

اور اللہ کے سوا کسی کو مت پکارو جو نہ تجھے نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان۔ اگر تو نے یہ کام کیا تو ظالموں میں شمار ہو گا۔"

’’ اگر اللہ تعالیٰ تجھ کو کسی مصیبت میں مبتلا کر دے تو اس مصیبت کو دور کر نے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں۔"حدیث نبوی ﷺ   ’جان لو ! اگر ساری امت تجھے نفع پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے تو نفع نہیں پہنچا سکتی مگر وہ جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے۔"

اللہ نے دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا’’

 بے شک جن لوگوں کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، وہ تمھارے لیے رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ پس تم اللہ تعالیٰ کے ہاں سے رزق مانگو اور اس کی عبادت کرو۔

’’ اور ایسے لوگوں سے زیادہ کون گمراہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا ایسے لوگوں کو پکارتے ہیں جو قیامت تک ان کی دعا قبول نہ کر سکیں بلکہ ان کی آواز سے بھی بے خبر ہوں اور جب سب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادات سے انکار کر دیں گے۔ 

’’ مجبور و بے بس شخص کی دعا کو قبول کرنے والا اور مشکل کو حل کرنے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے 

یہ چند دلائل ہیں ورنہ اس بیان کے لیے قرآن و سنت میں کئی نصوص موجود ہیں جن کو پڑھ کر کوئی بھی ذی شعور اور صاحب عقل اللہ کے سوا کسی کو حاجت روا اور مشکل کشا نہیں سمجھ سکتا۔ یہ تو ایسی کھلی حقیقت ہے کہ مشرکین مکہ بھی اس کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ  سکے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اعتراف کا ذکر کیا ہے۔ اگر کسی بزرگ کی قبر پر جا کر حاجت روائی کے لیے پکارنا درست ہوتا تو اللہ کے رسول ﷺ سے بڑا بزرگ دنیا میں کون ہو سکتا ہے ؟ لیکن حالت یہ ہے کہ صحابہ کرام   میں سے کسی نے بھی نبی ﷺ کی قبر پر جا کر انھیں کسی حاجت کے لیے کبھی نہیں پکارا۔ اگر یہ کام جائز ہوتا تو صحابہ خصوصا خلفائے راشدین کو اپنے دور میں بڑی بڑی ضرورتوں اور مصائب کا سامنا تھا، وہ ضرور اللہ کے نبی ﷺ کی قبر پر آتے۔ بالکل اسی طرح دعا کا مسئلہ ہے۔ ان جلیل القدر صحابہ میں سے کسی نے بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آ کر یہ نہیں کہا کہ آپ ﷺ  ہمارے لیے دعا کر دیں۔ ہاں ! زندگی میں جو واقعتاً بزرگ ہو اس سے دعا کروانا درست ہے اور اس میں بھی بزرگ سے نہیں مانگا جاتا بلکہ اس سے عرض کی جاتی ہے کہ وہ اللہ سے ہماری بہتری کے لیے دعا کرے۔

جیسے اللہ کے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں  کا اللہ کی ذات پر ایمان ختم ہوتا چلاجائے گا۔  لوگ وہم وگمان کا شکار ہوتے چلے جائیں گے اور یاد رکھیں کہ شیطان ابلیس ہمیشہ انسان کی عقل پر وار کرتا ہے ۔اور شرک کے عمیق گہرائیوں میں انسان اس وقت جا گرتا ہے جب اس کی عقل پرشیطان ابلیس کی طرف سے پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ اس لئے آج کا انسان پریشان اور ویراں کیفیت سے دوچار نظر آتا ہے کیونکہ اللہ پر ایمان نہیں رہا۔ نماز پڑھو تو دماغ کہیں اور اور دل کہیں اور ہوتا ہے حتی ٰ کہ سکون نہیں ہوتا یہی کیفیت ہر اس اچھے کام کی ہوتی ہے جو وہ کرتا تو ہے لیکن جزوی اور وقتی طور پر ، لیکن کہیں بھی سکون نہیں ہوتا دعا کرتا ہے تو دعا فورا قبول ہونے کی شرط رکھتا ہے۔ صبر نہیں ہوتا تو فورا باباجی آستانے پر پہنچتا ہے اور بابا جو پہلے ہی اسی تیاری میں ہوتا ہے کہ کب کوئی شکار آئے اور میں چند ٹکے بٹور لوں۔ اور یوں بہت ہی سستے میں اپنے ایمان کا سودا کر بیٹھتا ہے۔





اور پھر جیسے جیسے وہ غلیظ کام کرواتا چلا جاتا ہے یہ انسان کرتا چلاجاتا ہے اور اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ سیدھی راہ سے بھٹک چکا ہے۔ ڈر کا ایسا بزنس کرتے ہیں یہ لوگ  کہ لوگوں کے ناصرف ایمان  سے کھیلتے ہیں بلکہ جان و مال اور عزت وآبرو تک کو نہیں چھوڑتے۔  اللہ کے در کو چھوڑ کر جب کسی اور کو مشکل کشا مانو گے تو تحفظ کیسا، سکون قلب کیسا۔

جب اللہ  رب العزت کی ذات اقدس خود قرآن میں فرماتے ہیں  میں انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں، پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں ،  اللہ ہمار ا حقیقی خالق و مالک ہے  ہم اس کے بندے ہیں ہمیں جائز نہیں کہ ہم اپنے رب کو آزمائیں۔ یہ کام میرے رب کا ہے وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔

آج ہمارے معاشرے کا المیہ ہےکہ مساجد ویران ہیں صبح کی نماز ماسوائے چند لوگوں کے کوئی نہیں پڑھتا، جبکہ جعلی عامل ، نجومی ، پیر، آستانے ، بازار، مزار، قبرستان،   آباد ہیں۔   دین سمٹتا چلاجارہا ہے شیطانی جال پھیلتا جارہا ہے  ۔

اللہ رب العزت سے استدعا ہے کہ وہ ہمیں شرک سے بچائے ،  ہر اس کبیرہصغیرہ گناہوں سے  بچائے جس سے اللہ کی ناراضی ہو اور ہماری بربادی ہو۔  آمین

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو