دنیاوی عیش وعشرت کمانےکے لئے علم کا حصول
جس طرح سورج، چاند اور ستارے اپنے اپنے
مقررہ وقت پراپنے مداروں میں گھومتے ، طلوع اور غروب ہوتے ہیں، رات اور دن
کے آنے جانے میں،موسموں کے تغیر وتبدل میں، بارشوں اور قحط سالیوں میں، جس
طرح موت کا ایک وقت مقرر ہے اور آ کر رہنی ہے ، کب آنی ہے ، کہاں آنی ہے کس
وقت آنی ہے سب اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس جانتی ہے،اس کے علاوہ اور کوئی نہیں
جانتا، بالکل اسی طرح قیامت کا ایک دن مقرر ہے اور ہر حال میں آنا ہے کب آنا کس
وقت آنا ہے وہ دن یہ بھی اللہ ہی بہتر جانتے ہیں لیکن انسانیت کی بھلائی کے لئے
اللہ رب العزت نے اپنے نبی حضرت محمد ﷺ کو قیامت سے پہلے بہت سی
نشانیوں سے آگاہ کیا ہے، انھی بہت ساری نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ کہ قرب قیامت
کے نزدیک لوگ جو بھی علم حاصل کریں گے وہ محض اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل
کرنے کی غرض سے نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی عیش و عشرت ، شہرت، دنیاوی عزت
وعظمت، دولت کےحصول ، معاشرے میں فتنہ و فساد پھیلانے کے لئے علم کا حصو لہوگا۔
ایسے
لوگ جو دنیاوی علم حاصل کرتے ہیں اللہ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا " پس ایسے لوگوں کے لیے
بڑی خرابی ہے جو اپنے ہی ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی
طرف سے ہے تاکہ اس کے عوض تھوڑے سے دام کما لیں، سو ان کے لیے اس (کتاب کی وجہ) سے
ہلاکت ہے جو ان کے ہاتھوں نے تحریر کی اور اس (معاوضہ کی وجہ) سے تباہی ہے جو وہ
کما رہے ہیں۔
آج معاشرے میں ہر روز نت نئے
موضوعات پر کتابیں پرنٹ ہو کر فروخت ہوتی ہیں جن میں زیادہ تر فحاشی
اور عریانی پھیلانے والی کتب کو پڑھنا پسند کیا جاتا ہے ، رہی سہی کسر میڈیا کے
چینلز اور موویزمیں دکھائے جانے والے کرداروں نے ختم کردی۔ایسے لوگ خود تو
گمراہی کے عمیق اندھیروں میں دھنسے ہوئے ہیں قرآن و دین
سے دور تو ہیں ہی آنے والی نسلوں کو بھی تباہی اور ہلاکت کی طرف دھکیل رہے
ہیں۔
اللہ رب العزت کی رضا اور
خوشنودی حاصل کرنے کے علاوہ جو بھی علم حاصل کیا جائے گا وہ دنیا تو کمائے
گا مگر آخرت سے لاعلم ہوگا، وہ چاہے پھر علم جعفر (نجوم) ، تیر پانسے، نمبرز، یا
دیگر سٹے بازی کاہو سب غیر اللہ کے زمرے میں آتا ہے، لوگوں کا اعتماد اللہ
رب العزت کی ذات پر کم اور ہرگلی ، محلے میں بیٹھے ہوئے چرسی عامل بابا پر زیادہ
ہوتا جارہا ہے، یہی کم علمی کی وجہ سے لوگ قرآن و دین سے دور مسجدوں میں کم
اور قبر پرستی ، عرس اور میلوں میں زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔کیا ہی خوبصورت بات
فرمائی گئی کہ "اگر عورت دین دار ہو تو دین نسلوں تک پروانہوتا ہے " مگر افسوس آج سب سے زیادہ عورت ہی گمراہی کا شکار ہے۔ کسی
شخص نے ایک جعلی عامل بابا سے پوچھا کہ تمہیں شرم نہیں آتی لوگوں کو لوٹتے اور بےوقوف بناتے ہوئے تو شخص نے بڑے ادب سے جواب دیا کہ یہ بتاؤ کہ کیا میں گھر
گھر جا کر ان عورتوں کو بلا کر لاتا ہوں کہ میرے پاس ۔۔۔ نہیں نہیں ہرگز
نہیں بلکہ اس شخص نے مسکراتے ہوئے کہا کہ" جب تک یہ بے وقوف عورتیں
میرے آستانے پر آئیں گی میرے دھندے میں کوئی بھی کمی نہیں آنے والی"۔آج
اگر ہم اپنے اردگر د نظر ڈالیں تو سب سے زیادہ فتنہ ان عورتوں کی کم علمی
اور کم عقلی کی وجہ سے ہورہی ہے۔دین سےدوری معاشرے میں محض فتنہ و فساد کا
جنم لینا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا"جب مال فے کو آپس میں بانٹ
لیا جائے گا اور علم غیر دینی مقاصد کے لئے حاصل کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے
سنا: ایک شخص جس نے (دنیا میں) علم سیکھا اور سکھایااور قرآن مجید پڑھا،
(قیامت کے روز) اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعاليٰ اسے اپنی نعمتیں یاد
کرائے گا تو وہ شخص اُن کا اقرار کرے گا۔ اللہ تعاليٰ فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں
کے شکریہ میں کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم سیکھا اور اسے سکھایااور تیری
رضا کی خاطر قرآن کی قرات کی۔ اﷲ تعاليٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا، بلکہ تو نے
علم اس لئے حاصل کیا تاکہ عالم کہلائے اور قرآن کی قرات اس لیے کی تاکہ قاری
کہلائے۔ سو یہ کہا جاچکا ہے۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اسے منہ کے بل
گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی
سےروایت ہے کہ آ پ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے وہ علم کہ جس کا
مقصد رضائے الٰہی کی تلاش ہو دنیوی مال و متاع کے حصول کے لئے سیکھا تو ایسا شخص
قیامت کے روز جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔‘‘
ایک اور روایت میں حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو عمدہگفتگو کرنا اس لئے سیکھتا ہے کہ اس کے ذریعے خاص شخصیات یا عوام الناس کے دل اپنی
مٹھی میں کرلے تو قیامت کے دن اللہ تعاليٰ اس سے کوئی فرض و نفل قبول نہیں فرمائے
گا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ
عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے
اللہ تعاليٰ کی رضا کی بجائے کسی اور (دنیاوی) عرض سے علم حاصل کیا، یا اس علم کے
ذریعے (رضائے الٰہی کی بجائے کسی) غیر اللہ کو مقصود بنالیا تو وہ اپنا ٹھکانہ آگ
میں بنالے۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ
عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس لئے
علم نہ سیکھو کہ اس کی وجہ سے تم علماء پر فخر کرو، نہ اس لیے کہ جہلاء سے جھگڑا
کرو، اور نہ اس کے ذریعے مجالس میں برتری تلاش کرو۔ پس جس نے ایسا کیا تو اس کے
لئے آگ ہی آگ ہے۔
جو شخص شرعی علم کو اللہ
تعالیٰ کی عبادت سمجھ کر سیکھے، سکھائے اور پھیلائے، نبی کریم ﷺ نے
فرمایا" بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے ،
آسمانوں اور زمینوں کی تمام مخلوق حتی کہ چیونٹیاں اپنی بلوں میں اور مچھلیاں
سمندر کے پانیوں میں اس شخص کے لئے دعا مانگتی ہیں جو لوگوں کو دین کی تعلیم دیتا
ہے۔"
ایک اور جگہ ارشاد
فرمایا " استاد بن جاؤ یا طالب علم بن جاؤ
درمیانی راہ اختیار نہ کرو" اسی
طرح قرآن مجید میں بھی اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا "تم
میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے"
قرب قیامت میں بہت سے لوگ
قرآن و سنت اور فقہ کا علم اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے نہیں بلکہ نمایاں ہونے،
شہرت پانے اور دیگر دنیاوی مقاصد کے لئے حاصل کریں گے، مثلا کالاجادو، علم نجومیت، وغیرہ
دوستو! اپنے گھروں کو
محفوظ کریں، دین کو سمجھنے اور قرآن کوپڑھنے کا معمول بنائیں اپنی آنے والی
نسلوں کو دین کی تعلیمات سے بہرہ ور کریں۔ اللہ پاک ہمیں دین سیکھنے اور
سکھانے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔۔۔ آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔