عصر حاضر کے 10 بڑے گناہ 2 - بُت پرستی
عصر حاضر کے 10 بڑے گناہوں پہلا اللہ کے علاوہ کسی اور پکارنا کے بعد دوسرا کبیرہ گناہ
بت پرستی ہے۔امت مسلمہ بھی قبرپرستی کی وجہ سے بت پرستی کا شکار ہوتی جارہی
ہے۔ بت پرستی سےدرحقیقت بتوں کی پوجا اور انہی سے اپنی منتیں، مرادیں، حاجت
روائیاں، مشکل کشائیاں یا امیدیں وابستہ کرنا مراد ہوتا ہے، گویا ایک اللہ کے در
کو چھوڑ کر در در کر ٹھوکریں کھانا، کامیابی کےلئے الگ خدا، مشکل کشائی کا الگ
خدا، دولت کا الگ اور نجانے کتنے ان گنت خدا سب اسی بت پرستی کا حصہ ہیں۔ بت پرستی
میں عرب کے مشرکین، ہندوستان اور جاپان وغیرہ کے لوگ شامل ہیں جبکہ، یہودی اور
عیسائی بت پرستی میں ڈائریکٹ شامل نہیں ہیں ۔
دین اسلام اورقرآن و سنت کی روشنی میں بت پرستی سے
شدید ممانعت اور صرف ایک اللہ رب العزت کی عبادت کرنے کا حکم موجود ہے، ارشاد
ربانی ہے” پس تم بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات سے بچو” اسی طرح اگر ہم حضرت
ابراہیم ؑ کا واقعہ دیکھیں تو ہمیں بت پرستی کے شواہد ملتے ہیں کہ کیسے ان کے
قبیلے کے لوگ خود ان کے والد ناصرف بتوں کی پوجا کرتے تھے بلکہ اپنے ہاتھوں سے بت
بناتے تھے۔ یہی وہ وجہ تھی جسکی بغاوت حضرت ابراہیم ؑ نے کی اور اللہ رب العزت کی
رحمت سے ایسے ایسے دلائل پیش کئے جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ارشاد ربانی
ہے:
" اور ابراہیمؑ نے جب اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی عبادت
کرو اور اس سے ڈرو۔ اگر تم جانو تو یہی بات تمہارے لئے بہتر ہے۔ تم اللہ کے سوا
چند بتوں ہی کی تو عبادت کرتے ہو اور تم سراسر جھوٹ گھڑ تے ہو۔ بلاشبہ اللہ کے سوا
جن کی تم عبادت کرتے ہو تمہارے لیے کسی رزق کے مالک نہیں ہیں، سو تم اللہ کے ہاں
ہی رزق تلاش کرو اور اس کی عبادت کرو اور اس کا شکر کرو، اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ
گے"
نیز ابراہیم نے ان سے کہا : "تم نے دنیا کی زندگی
میں تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو آپس میں محبت کا ذریعہ بنا لیا ہے مگر قیامت کے دن
تم ایک دوسرے کا انکار کر دو گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجو گے۔ اور تمہارا
ٹھکانا آگ ہوگا اور تمہارا کوئی مدد گار بھی نہ ہوگا"
اسی طرح حضرت موسیٰ ؑجب چالیس دن بعد لوٹے تو قوم
نے بچھڑے کو معبود بنا کر پوجاپاٹ شروع کر دی تھی۔ اسی طرح خانہ کعبہ کے تین سو
ساتھ بت وغیرہ۔ یہ چند آیات یا واقعات ہی نہیں بلکہ پورا قرآن پاک ہماری
رہنمائی کے لئے موجود ہیں لیکن افسوس کے ہمارے پاس ان کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے
کوئی وقت نہیں ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا بے شک اللہ رب العزت نے میرے لیے
زمین کو سمیٹ دیا تو میں نے زمین کے مشرق و مغرب کو دیکھا، اور میری امت کی
بادشاہی وہیں تک پہنچے گی جہاں تک میرے لیے زمین کو سمیٹا گیا، مجھے سرخ اور سفید
دو خزانے بھی دئیے گئے ۔۔۔ اور قیامت ہرگز اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک میری
امت کے خاندان مشرکوں سے نہ مل جائیں اور میری امت کے خاندان بت پرستی میں
ملوث نہ ہو جائیں"۔
جبکہ ہمارے حکمران اللہ کا در چھوڑ کر کبھی یہود
سے مدد مانگتے ہیں، کبھی ہنود سے تو کبھی عیسائیوں کے در پر جھکتے ہیں۔ذاتی
مفاد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ لوگ ایسے ایسے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ لگتا
ہی نہیں ہے کہ یہ کلمہ گو ہیں اور امت محمدیہ کے لوگ ہیں۔ جب تک اہل یہود
حکم صادر نہ کریں ملک پاکستان میں کوئی کام ہوتا ہی نہیں۔اللہ ہمارے حکمرانوں کو
ہدایت دے۔
اللہ قرآن میں فرماتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ تمھارے
دوست نہیں ہو سکتے حتی ٰ کہ تم لوگ ان سے نہ مل جاؤ یعنی ان پر ایمان نہ لے آؤ تب
تک وہ تمھارے دشمن ہی ہیں۔ وہ تمھارے کبھی خیرخواہ ہو ہی نہیں سکتے۔
ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے
فرمایا "میں نے عمرو بن عامرخزاعی کو جہنم میں اپنے آنتیں گھسیٹتے
دیکھا ہے یہ وہ شخص تھا جس نے سب سے پہلے سائبہ (بت) ایجاد کیا ہے"۔
اس حدیث سے ایک بات بہت واضح
ہے کہ بت پرستش کے ساتھ ساتھ بت بنانا اور پھر اس کے اشاعت کرنا ، اس کو فروغ دینا
محض دوزخ کا ایندھن ہیں۔ اس حدیث میں ہمارے لئے ایک ایسا سبق موجود ہے جس سے
ہر شخص کو اس سے بچنا چاہیے۔ ایسے مجاور لوگ جو پکی قبریں بنا کر ان
پر کتبے نصب کر کے خوبصورت چادریں چڑھا کر بت پرستی ایجاد کرتے ہیں۔ یہی لوگ
خود بھی گمراہی میں ہوتے ہیں اور دوسروں کو شرک کے عمیق گہرایوں میں دھکیلتے چلے
جار ہے ہیں۔
ہر شخص جانتا ہے کہ پکی
قبروں کی سخت ممانعت ہوتی ہے لیکن لوگ کیا کہیں گے ، لوگ کیا کہیں گے اسی
خوف سے نبی ﷺ کا فرمان پیٹھ پیچھے پھینک کر لوگوں کو خوش کیا جاتا ہے ۔خاندان میں
نام ہونا چاہیے، کہ فلاں نے اپنے باپ کے مرنے کے بعد اتنی عالیشان قبر تیار
کروائی تھی۔ افسوس کے لوگوں کے پاس اللہ اور اس کے نبی ﷺ کا واضح
فرمان موجود ہونے کے باوجود لوگ نہیں ڈرتے۔ اور گناہ درگناہ کرتے چلے جاتے ہیں۔
شیطان نے بھی کیا کیا کھیل
کھلانا شروع کر دیا ہے آج ہمارے معاشرے میں جگہ جگہ پیروں کی قبریں موجود ہیں،
قبروں پر چڑھاوے، اگر بتی، عرس، منتیں، فریادیں، امیدیں ، دھمالیں، عریانی کی
محفلیں، قوالیاں ، چلےکاٹنا، غرض ہر وہ برا کام جس سے ہمارے نبیﷺ نے منع فرمایا ہے
بڑے جوش و خروش اور عقیدت مندی سے منائے جارہے ہیں۔ کمال تو اس بات کا ہے کہ گناہ
گناہ لگتا ہی نہیں ہے۔ہائے افسوس ! ان غلاظت بھرے کاموں میں ہم اپنےاللہ کو
ناراض کر بیٹھے ہیں اس لئے تو ہر بندہ پریشان حال ہے، پریشان حالوں سے نماز کی ادائیگی اور اس ادائیگی میں مانگی جانے والی دعائیں اپنا اثر نہیں رکھتی ۔ اور
ہم بدعقیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔
ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے
فرمایا " قیامت کے دن جس کسی شخص سے اللہ رب
العزت نے یہ پوچھ لیا کہ بتا تونے یہ گناہ کیوں کیا تھا۔۔ اس بندے کی خیر نہیں "
دوستو! آج کے اس آرٹیکل میں
جس گناہ کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ ہم سب کو اس کبیرہ گناہ سے بچنے کی
توفیق دے۔ ہمیں شرک جیسے گناہ سے بچائے کیونکہ شرک کی معافی نہیں ہے۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔