بد کرداراور
فسادی لوگوں کے ڈر سے
ان کی عزت کی جائے گی
قارئین کرام ! انسان
کا کردار، عادات اطوار ،قول و فعل ہی کسی شخصیت کا آئینہ ہوتی ہے۔حضرت عمر کا
فرمان ہے کہ اگر کسی انسان کےکردار کو پرکھنا ہو تو اس کے ساتھ کھانا کھاکردیکھ
لو، سفر کر کے دیکھو یا پھر کوئی لین دین کر کے دیکھو "۔ ایک انسان فطری طور
پر یا نفسیاتی طور پر اسی شخص کو اپنا دوست ، رقیب بناتا ہے جس کے ساتھ اس کو سکون
ملتا ہو، اس کی سوچ ملتی ہو، اس کی عادتیں اچھی لگتی ہوں، اس کے ساتھ ہم آہنگی ہو،
غرض یہ کہ اس کی کمپنی اچھی لگتی ہو۔
آپ ﷺ نے فرمایا " اچھے
دوست کی مثال اس خوشبو بیچنے والے کی سی ہے کہ جس کے پاس جاؤ تو وہ
خوشبو ہی دے گا اور بُرے دوست کی مثال ایک بھٹی پھونکنے والے کی سی ہے کہ جس کے
پاس جاؤ تو بدبو ہی دے گا" بالکل اس حدیث کو سامنے رکھ کر اپنی
بات کو آگے بڑھاتا ہوں۔ فطری طور پر انسا ن انتہائی خودغرض اور حریص ہے اگر اس کا
دوست مال ودولت والا ہےاور وہ خود غریب ہے تو ایک عرصہ کے بعد دونوں کی دوستی اونچ
نیچ کی دیوار میں چُنوا دی جاتی ہے کہ حیثیت نہیں ہے اور برابری کرنے چلے ہو
وغیرہ۔
ایسی ہی ہزاروں مثالیں آپ کو
معاشرے میں بھیس بدلتی ، چہروں پہ چہرے لگائے، زبان کے نشتر چلائے، آنکھوں میں غضب
کا قہر لئے، گھمنڈ اور تکبر سے بھری زندہ لاشیں چلتی پھرتی نظر آئیں
گی خواہ وہ حرام کماتے ہوں یا حلال ، وہ بیورو کریٹ ہوں ، یا کسی بھی
کمیونٹی کا سربراہ، کوئی ہمسایہ ہو، نواب ہو یا جاگیردار، ریاست کے اعلیٰ
عہدیدار ہوں یا پھر کسی محکمہ کے لوگ، پولیس کے نمائندے ہوں یا قانون کے رکھوالے
وغیرہ ایسے لوگوں کا بس نہیں چلتا کہ یہ غریب ، مفلس، ضرورت مند کو جان سے
ہی ماردیں۔
ارشاد ربانی ہے "
لوگو زمین میں فتنہ اور فساد نہ کرو اس کے سنور جانے کے بعد" گویا
حق بات پہنچ جانے کے بعد ، یعنی انبیاء ورسل ، صحابہ کے سمجھانے اور اصلاح کرنے کے
بعد بھی زمین میں فتنہ اور فساد نہ پھیلاؤ۔
نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’مومن محبت اورالفت
کاحامل ہوتاہے اوراُس شخص میں کوئی خوبی اوربھلائی نہیں جونہ خودمحبت کرے اورنہ
لوگوں کواس سے الفت ہو۔‘‘
نبی کریم ﷺکا فرمان ہے: ’’تم میں بدترین شخص وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کونہ خیرکی امیدہو نہ اسکے شرسے لوگ محفوظ ہوں"
حضرت عائشہ ؓ سے نبی کریم ﷺنے
ارشادفرمایا: ’’اے عائشہ! اللہ تعالیٰ کے نزدیک قدرومنزلت میں سب سے براانسان وہ
ہے جس کے شراورفحش کی وجہ سے لوگ اسے چھوڑ دیں یا اس سے دوری بنالیں"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب
مال فے کی بند ر بانٹ ہونے لگے، امانت
کو مال غنیمت سمجھا جائے، زکاۃ
کو جرمانہ خیال کیا جائے، علم غیردینی مقاصد کے لئے
حاصل کیا جائے، آدمی اپنی بیوی کی اطاعت اور ماں کی نافرمانی
کرے ، دوست کو قریب کرے اور باپ کو
دور کرے، مساجد میں آوازیں بلند ہونے لگیں،فاسق وفاجر شخص قبیلے کا سربراہ ہو، گھٹیاترین انسان قوم کا سردار ہو، آدمی کی عزت اس کے شر کے خوف
سے کی جائے، ناچنے گانےوالیاں اور آلات موسیقی عام ہوجائیں ، شرابیں
پی جائیں اور امت کے آخری زمانے کے لوگ پہلے لوگوں پر
لعنت کرنے لگیں تو اس وقت لوگ سرخ ہواؤں،
زلزلوں، زمین میں دھنسنے، شکلیں
مسخ ہونے، پتھروں کی بارش اور
ایسی نشانیوں کا انتظار کریں جو اس طرح پے در پے آئیں
گی جیسے کسی پرانے ہار کے ٹوٹنے پر اس کے منکے لگا
تار گرتے ہیں"۔
ہمیشہ کی طرح یہ آرٹیکل بھی
قرب قیامت کی ایک نشانی " بد کرداراور
فسادی لوگوں کے ڈر سے
اس کی عزت کی جائے گی"پر
لکھ رہا ہوں جس میں آج میں بات کرنے جارہا ہوں کہ بدکردار لوگ کیسے زمین میں
فساد پھیلاتے ہیں اور کس طرح تنگ کرتے ہیں۔ قرب قیامت کی یہ نشانی بھی دور حاضر
میں اپنے پورے جوبن کے ساتھ ہماری آنکھوں کے سامنے گزر رہی ہے اور وقت کے
ساتھ ساتھ اس میں مزید شدت آتی جا رہی ہے۔ ناجانے مزید کون سی شکل اختیار
کرے گی۔ (اللہ رب العزت ایسے فتنوں سے ہر مسلمان مرد و عورت کو
بچائے۔۔۔۔۔آمین)
یہ فتنوں کا دور ہے اور
مسلسل بڑھتے چلے جا رہے ہیں اگرکسی شخص کی بیوی ہے تو وہ بھی ایک فتنہ ہے، شادی
نہیں ہوئی توشہوتوں کا فتنہ ، شادی ہوگئی ہےبیوی نماز نہیں پڑھتی ، بیوی بداخلاق
ہے پھر بھی فتنہ ، اپنا آپ فتنہ ، جوانی ہے پر دین پر نہیں تب بھی فتنہ، انسان کے
پاس مال ہے تب بھی فتنہ، مال نہیں ہے تب فقیری کا فتنہ، مال ہے مگر حرام کا ہے اس
بھی بڑا فتنہ اور شرمندگی، اولاد کا فتنہ، اولاد نہیں ہے تو محرومی کا فتنہ،
اولاد ہے پر دین پر نہیں ہے تب بھی فتنہ، پڑوسی نہیں ہے تو خوف کا فتنہ، پڑوسی ہے
مگر دیندار نہیں ہے اس سے بھی بڑا فتنہ ہر وقت بے چینی سی کیفیت میں
مبتلا ہے۔ان سب سے کیسے بچا جا سکتا ہے صرف نماز کی پابندی سے، روزے رکھنے
سے، صدقات دینے سے ، نیکی کے کام کرنے اور برائی سے روکنے سے فتنے ختم کیے جا سکتے
ہیں اور بدترین لوگوں کے کرداروں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
قرب قیامت ایسا اس
لئے ہو گا کیونکہ:
o قیادت
برے، جاہل، اور نااہل لوگوں کے ہاتھ میں آ جائے گی۔علم وتربیت وقت کے ساتھ ساتھ
ختم ہو چکی ہوگی جن سے معاشرےمیں انہی لوگوں کا غلبہ ہوگا۔
o مجبور
، بے بس، کمزور لوگوں کے لئے لازم ہو جائے گا کہ وہ ایسے بدکردار، جھوٹے ،
بد اخلاق لوگوں کی عزت کریں، ان کے لئے احتراما کھڑے ہو جائیں۔
o یہ
سب کچھ ان کے ظلم و زیادتی ، ایذارسانی اور شر سے بچنے کی وجہ سے کیا جائے گا۔
o آج
اگر ہم اپنے معاشرے میں دیکھیں تو اسی طرح کہ لوگ ہمارے سامنے آتے ہیں ، ماڈل ٹاؤن
کا واقعہ، واقعہ ساہیوال، واقعہ کوئٹہ، سانحہ پشاور، اور دیگر ایسے ان گنت واقعات
جو ماضی کی نظر ہو چکے ہیں ۔ حقدار لوگ حق کے لئے اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں،
مگر نہ تو انصاف ملتا ہےاور نہ ہی سنوائی ہوتی ہے۔
Well said
جواب دیںحذف کریںاللّه پاک ہم سب کو ہمّت اور دے اور neeki کی توفیق عطا فرمائے
جواب دیںحذف کریںYou are genius
جواب دیںحذف کریں