آپ ﷺ نے امت کو غیر دینی کتب کی اشاعت کے بارے میں کیا پیشگوئی فرمائی؟
محترم قارئین کرام! کافی دنوں سے آرٹیکل لکھنے کی کوشش کر رہا تھا
لیکن مصروفیت کی وجہ سے لکھ نہیں پایا۔ آج
اللہ پاک نے ہمت اور توفیق عطا فرمائی تو لکھنا شروع کیا۔ یوں تو قیامت کی بہت سی نشانیوں پر میں آرٹیکل
لکھ چکا ہوں جو امید ہے کہ آپ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ پڑھ چکے ہوں گے۔ آج کا
آرٹیکل بھی قیامت کی ان بہت سی نشانیوں میں سے ایک ہے جو آپ ﷺ نے امت کی راہنمائی
کے لئے بیان فرمائی تھیں۔ایک نشانی تو یہ فرمائی گئی کہ قرب قیامت "کتابوں کی کثرت سے اشاعت
ہوگی" اور دوسری نشانی یہ فرمائی گئی کہ " لوگوں کو قرآن مجید کے علاوہ دنیاوی مواد پڑھایا
جائے گا"
میں کوشش کروں گا کہ دونوں
نشانیوں کو واضح کروں اور راہنمائی کا پہلو بیان کروں ۔ دوستو! یہ بات سچ ہے کہ پہلے دور میں کتابت اور کتب کی نشر واشاعت نہیں ہوا کرتی تھی۔لوگ زبانی یاد کر لیا کرتے
تھے جو کہ زیادہ دیر تک اثر نہیں رکھتے
تھے یا آگے ٹرانسفر نہیں ہو سکتا تھا۔یوں اس
دور میں لوگوں کی اکثریت لکھنے پڑھنے کی صلاحیت سے محروم تھی ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس زمانے میں امت کی بھلائی کے
لئے لوگوں کو مطلع کر دیا تھا کہ قیامت کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ قلم ، کتب
اور کتابت کی کثرت ہوجائے گی۔ جیسے کہ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ
"قیامت سے پہلے ایک ایسا وقت آئے گا کہ
صرف خاص لوگوں کو سلام کہا جائے گا، تجارت بہت پھیل جائے گی حتی کہ عورت اپنےخاوند کی تجارت میں اس کی مددگار بنے گی، قطع رحمی کی جائے گی، جھوٹی گواہی دی جائے گی، سچی شہادت چھپائی جائے گی اور قلم کا ظہور ہوگا"۔
" قلم کا ظہور ہوگا"
سے مراد شاید کہ یہ ہے کہ قرب قیامت کتابت اور کتب کی کثرت ہو جائے گی اور وسیع
پیمانے پر ان کی نشرواشاعت کا سلسلہ جاری ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ طباعت، تصویر
سازی اور نشر و اشاعت کے جدید سے جدید تر وسائل کی کثرت کے باعث لوگوں کی
اکثریت آسانی سے ان علوم تک رسائی حاصل کرلے گی جو پہلے دور میں موجود نہ تھے۔ مگر
ان سب وسائل اور سہولیات کے باوجود لوگوں
میں امور شریعیت و دین کے بارے میں جہالت زیادہ اور عام ہوتی چلی جائے گی، گویا دین کے معاملات سے دوری
ہوگی اور دنیاوی کاموں کی معلومات عروج پر ہوگی۔ جیسے کہ آپ ﷺ کی حدیث سے یہ بات
صاف ظاہر ہوتی ہے کہ "قیامت کی نشانیوں میں سے
یہ بھی ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا ، جہالت پھیل جائے گی، زنا عام ہو جائے گا،
شراب پی جائے گی، مر د کم ہو جائیں گے، عورتیں زیادہ ہو جائیں گی حتی کہ پچاس
عورتوں کے لئے صرف ایک نگران (مرد) ہو گا"۔
آج اگر ہم اپنے اطراف پر نظر دوڑائیں تو واضح پتہ
چلتا ہے کہ لوگوں کے پاس علم سیکھنے اور
سکھانے کے ہزاروں طریقے موجود ہیں لوگ اس کو تیزی سے اپنا رہے ہیں یہ جانے بغیر کے
کیا درست ہے اور کیا غلط؟ لیکن افسوس دین
سے دوری اور معاشرے میں تیزی سے پھیلنے
والی بدبو دار روایات، بدعات، شرک کی
فیکٹریاں اور عالم سو میں پھیلنے والا جہالت کا اندھیرا، اور اندھیرے میں رہنے والے
ہم لوگ کسی خوش فہمی کا شکار ہیں۔ کہ شاید
سب ٹھیک ہے اور ہم اپنی نسلوں کو ٹھیک راستے پر چلارہے ہیں۔ آج ہر انسان کے پاس بے شمار علم تو ہے لیکن
افسو س اس علم کے برعکس عمل نہیں ہے وہ عمل، جو خالص دین کے لئے درکا ر ہے۔
اسی طرح قرب قیامت کی ملتی جلتی
دوسری نشانی یہ کہ لوگوں کو دینی علوم کے علاوہ ایسا علم پڑھا یا جائے گا جو
صرف دنیاوی ضروریات کو پورا کر سکے گا۔
گویا اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طور طریقے سے مکمل اجتناب کیا جائے گا۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ "" لوگوں
کو مثناہ پڑھائی جائے گی، پوچھاگیا: مثناہ " کیا چیز ہے؟ فرمایا: جو کچھ بھی
اللہ کتاب کے سوا لکھا جائے"
لوگوں میں اللہ کی کتاب سے
زیادہ ایسی غیر دینی کتب کی خریداری کا رجحان زیادہ ہوجائےگا۔ جنھیں لوگ زیادہ
ترجیح دیں گے، پبلیشرز ایسی مکتبات تیار
کرتے ہیں جو مرچ مصالحےسے لبریز فحش اور ایسی تربیت کی علمبردار ہوتی ہیں جن کا
دین سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
آج دنیا کا ہر آدمی دنیا
کمانے کا فن سیکھ رہا ہے ، میں ہرگز کسی بھی فن کو سیکھنے یا سکھانے کے خلاف نہیں
ہوں لیکن اس بات کی اہمیت کو جھٹلابھی
نہیں سکتے کہ کیسے ہماری روایات کو تبدیل کیا جارہا ہے اور ہمیں اس چیز کو پڑھنے
پر آمادہ کیا جارہا ہے جس کا تعلق ہماری آخرت سے بہت دور ہے۔ آج کا انسان ہر کوشش
کرتا ہے کہ اپنی آنے والی نسل کو اعلی ٰ تعلیم دے سکے جس سے زیادہ سے زیادہ مال و
دولت اکٹھی کی جا سکے لیکن جو وسائل کی کمی اور دیگر اخراجات برداشت نہیں کر سکتے
ان کو مساجد میں بھیج دیا جاتا ہے یہ کہہ کر کہ اس کو دین سکھائیں۔
معاشرے سے علم کا ختم ہوجانا
اس بات کی علامت ہے کہ ہم نے اپنے آنے والی نسلوں تک دین نہیں پہنچایا جس کی وجہ
سے معاشرہ ایک ایسی نسل تیار کربیٹھا ہے
جو نہ دین کے ہو سکے اور نہ ہی دنیا کے ہو سکے۔ ان سے دین کی بات کرنا ایسا ہے جیسے کسی
خارش زدہ کتے کو پتھر مارنے کے مترادف۔ ایسے لوگ نا تو علماء کی محفل میں بیٹھنے
والے ہیں نا ہی ادب وآداب کے راستے چلنے والے ہیں ، ناہی اچھے داعی ہیں اور نا
اچھے مبلغ، تعلیم وتربیت سے گویا یہ نسل آشنا
ہی نہیں ہے۔
اللہ پاک سے استدعا ہے کہ
ہمیں اس راستے پر چلائے جس راستے پر چلنے سے فرشتے اپنے پر کھول دیا کرتے ہیں،
ایسا علم عطا فرمائے جو دنیا اور آخرت کے لئے باعث رحمت ثابت ہو۔ آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔