10 ایسی کوتاہیاں جو والدین کو اپنی اولاد کے سامنے نہیں کرنی
چاہیے۔
محترم قارئین کرام ! والدین وہ عظیم ترین ہستیاں ہیں جنکی اطاعت
فرض ہے قرآن مجید میں کئی مقامات پر والدین سے حسن سلوک کے بارے میں ارشاد
فرمایا گیا ہے۔یہاں تک کہ اگر وہ بڑھاپے کو پہنچ چکے ہیں تو ان کے سامنے اُف تک نہ کہو، اگر ہم آج کے پڑھے لکھے والدین کا مشاہدہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر والدین بہترین والدین بننے کی کوشش
کرتے ہیں جو وہ ہو سکتے ہیں۔گویا وہ اپنے والدین سے بھی زیادہ اچھے والدین ثابت ہو
سکتے ہیں لیکن تاہم ان کی تمام تر
اچھائیوں پر کوتاہیاں سبقت لیتی دکھائی دیتی ہیں۔ آج ہم انہی کوتاہیوں کے بارے میں بات کرنے جارہے ہیں۔
1- بچوں کے سامنےایسا محسوس کرنا جیسے آپ ناکام ہو رہے ہیں۔
بہت سی مثالیں ایسی ہیں
کہ والدین اپنی زندگی میں کچھ ایسا مقام حا صل نہیں کرپاتے جس کے وہ خوہشمند ہوتے
ہیں گویا کہ انہوں نے بھی انتھک محنت کی
ہوگی لیکن وہ مقام حاصل نہیں کر پاتے اور
وہ ہمیشہ اپنی ناکامی کی وجہ اپنے بچوں کے سامنے بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اگرچہ
والدین کے لیے خود پر سختی کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے، لیکن اس قسم کی سوچ نتیجہ
خیز ہےناصرف آپ کے لئے بلکہ آپ کی اولاد کے لئے، ڈپریشن میں رہنے اوراپنے آپ کو مارنے
کے بجائے، چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو بڑھنے اور سیکھنے کے مواقع کے طور پر دیکھیں۔اور اپنے
بچوں کو یہ دیکھنے دیں کہ جب وہ غلطیاں کرتے ہیں تو ان غلطیوں سے کچھ سیکھیں اور ناکام ہونے کی
بجائے آگے بڑھنا شروع کریں۔یقننا آپ کی اس سوچ سے ناصرف بچوں
کی زندگیوں میں انقلابی سوچ ، جوش ولولہ پیدا ہو سکے گا بلکہ انہیں اپنی
زندگی میں لچکدار اور ثابت قدم رہنے کا طریقہ کار میسر ہو سکے گا۔
![]() |
10 ایسی کوتاہیاں جو والدین کو اپنی اولاد کے سامنے نہیں کرنی چاہیے۔ |
2- اپنے رشتہ داروں / لائف پارٹنر کو نظرانداز کرنا
بہت
سے والدین جو شادی کے وقت تو بہت خوش
دکھائی دیتے ہیں لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اور اولاد کی ہر ضرورت کو پورا کرتے
کرتے یہ خوشیاں پھیکی ہوتی چلی جاتی ہیں ۔
والدین اولاد کی خوشی کو پورا کرتے ہوئے خود کو کہیں ختم کرتے چلے جاتے ہیں والد رات دیر تک کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اپنے
بچوں کی پرورش، ان کی دیکھ بھال، اور اس بات کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کرنا
آسان ہے کہ وہ خوش ہیں لیکن اس ساری بھاگ
دوڑ میں آپ سب سے اہم رشتے یعنی آپ کی لائف
پارٹنر تک کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔
بچوں کو اس بات کا یقین دلائیں کہ اللہ تعالی ٰ نے
والدین کو بہت خوبصورت رشتے میں باندھا ہے ان کو الگ الگ نہ کریں درحقیقت بچے اپنے والدین کو ایک ساتھ
دیکھنا چاہتے ہیں اور یہی وہ احساس ہے جو
بچوں کو کرنا ہے کہ ان کو بھی اس دور سے گزرنا ہے۔آج وہ جو بڑوں سے سیکھیں گے وہی وہ دوہرائیں گے۔
3- بچوں کے سامنے چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنا
انسان چاہے جتنی کوشش کر
لے وہ ہر جنگ نہیں جیت سکتا اور یقینا آپ
کو ایسی کوشش کرنی بھی نہیں چاہیے جس میں
محض آپ کو نقصان ہو۔ اول تو والدین کو گالم گلوچ، اور چھوٹی چھوٹی باتوں پرلڑنے سے
گریز کرنا چاہیے۔ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں ہی بہت سنجیدہ رخ اختیار
کرتی چلی جاتی ہیں۔ ہم یہ سوچ کر
لڑنا شروع کر دیتے ہیں کہ بچے ابھی چھوٹے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم محض خود کو
تسلی دے رہے ہوتے ہیں یہ ایک ایسا دھوکہ
ہے جو صرف اور صرف ہم خود کو دیتے ہیں۔ تربیت کا اثر محض ماحول سے ہوتا ہے اور جس
گھر میں تھوڑی تھوڑی بات لڑائی شروع ہو جائے
وہاں ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ بچوں کی ذہنی سطح کیا ہوگی۔ اس لئے والدین کوبہت احتیاط کر نی چاہیے۔
4- والدین کی طرف سے ذمہ داریاں تفویض کرنے میں غفلت
بہت سے والدین اتنی دولت
اکٹھی کر لیتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسل کو کسی بھی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
لہذا وہ ساری ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس طرح بچوں
کو ذمہ داریوں سے دور رکھ کر ان کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ابھی وہ چھوٹے ہیں
آپ عیاشی کرو جب کام کرنے کا وقت آئے گا تب آپ کے ذمہ کام لگایا جائے گا۔فی الحال
آپ کی ہر ضرورت پوری کر دی جاتی ہے لیکن آپ کی
یہ سوچ شاید آپ کے بچے کو غیر ذمہ دار
بننے کی طرف بھی لے جا سکتا ہے، خاص طور پر جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا ہے۔اپنے کچھ گھریلو
کام اپنے بچوں کو سونپ کر اپنے آپ کو وقفہ دیں۔ بچوں کو زندگی کی اہم مہارتیں
سکھانا اور انہیں کام کاج دینا ان کی کسی دن ذمہ دار بالغ بننے میں مدد کرنے کا
حصہ ہے۔
5- ان کو اوور شیڈول کرنا
اکثر والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے زندگی سے لطف اندوز ہوں، نئی چیزوں کا طریقہ سیکھیں، اور ہر وہ چیز کا تجربہ کریں
جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان سب کے
باوجود اگر بچوں پر اپنی پسند کے شعبہ کا انتخاب ناصرف ان کو تھکا دے گا بلکہ اوور
شیڈول ان صحت پر اثر انداز ہو گا۔ ایک وقت میں کھیل، اسکاؤٹس یا دیگر سرگرمیوں کو اپنی زندگیوں میں
شامل کرنے کی خواہش کا مقابلہ کریں۔ اوور شیڈول سے ہمیشہ آپ خود کو رگڑ کر چلائیں گے، اپنے بچوں کو اوور
شیڈول کرنے سے انہیں صرف بچے بننے کے لیے کوئی فارغ وقت نہیں ملے گا۔تحقیق سے پتہچلتا ہے کہ غیر منظم کھیل بچے کی نشوونما اور تندرستی پر مثبت اثر ڈال سکتا ہے۔ جب
بچوں کو آزادانہ طور پر کھیلنے کا موقع دیا جاتا ہے، تو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا
ہے۔ وہ کھیل تیار کرتے ہیں، اصول بناتے ہیں، دوسروں کے ساتھ گفت و شنید کرتے ہیں،
اور تناؤ کو چھوڑ دیتے ہیں۔
6- ٹیکنالوجی کا زیادہ استعمال
اس سے انکار نہیں کہ ٹیکنالوجی ہماری زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے۔ چاہے وہ کام پر ہو، سکول کے لیے، یا محض
خاندان اور دوستوں کے ساتھ ملنا، ہر کوئی کام کرنے کے لیے ٹیکنالوجی پر انحصار
کرتا ہے۔ٹیکنالوجی نے جہاں انسان کا کام آسان کیا ہے وہاں اس نے رشتوں کی حقیقت کو
ہی بدل دیا ہے لوگ ایک ساتھ ایک چھت کے نیچے بیٹھے ہوئے ہونے کے باوجود بھی اکیلے
ہی دکھائی دیتے ہیں ۔اور اگر والدین دونوں ہی پیشہ ور افراد ہیں تو سونے پہ سہاگہ
ایسے میں صرف ٹیکنالوجی ہی ایک واحد ذریعہ ہوتی ہے بات چیت کرنے کے لئے جو کہ
ناکافی ہوتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ٹیکنالوجی کے علاوہ کچھ وقت اپنے خاندان کے
افراد کے ساتھ گزاریں ان کے دکھ درد میں شریک ہوں، ان سے ان کے مشکلات کے بارے میں
پوچھیں، ان کے روزشب کے بارے میں دریافت کریں، دوست احباب کیسے ہیں دریافت کریں۔تب
تو شاید آپ اپنے بچوں کو اور بچے آپ کو اپنا والدین تسلیم کریں وگرنہ بہت مشکل ہو
جائے گا رشتوں کو بچانے کے لئے۔
7- بچوں کی عادات کو بگاڑ دینا
زیادہ تر والدین اپنے
بچوں خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لئے وہ ان کی ہر چھوٹی بڑی جائز ناجائز خواہش کو پورا کرتے دکھائی دیتے
ہیں ، لیکن یہ
توقع غیر حقیقی ہے۔ ایسی عادات کے مالک بچے جنھوں نے کبھی کوئی مشکل وقت نہیں
دیکھا ہوتا اور نہ ہی اس کڑے وقت کے لئے خود کو تیار کیا ہوتا ہے ۔ ایسے بچوں کو
والدین کی طرف سے کبھی سکھایا ہی نہیں گیا کہ تنگی کیا ہوتی ہے۔ ہمیں تنگی میں
کیسے حالات کا سامنا کرنا چاہیے ۔ ایسے عادات کے مالک بچے والدین کے لئے ہمیشہ مشکلات پیدا کرتے ہیں ۔ مادی چیزیں اچھی ضرور ہیں وقتی لحاظ سے، لیکن وہ دیرپا خوشی نہیں لاتی ہیں۔ اپنے
بچوں کو کم مادی طریقوں سے خوشی حاصل کرنا سکھائیں اور آپ ایک اچھے شہری کی پرورشکے راستے پر گامزن ہو سکیں گے۔
8- شکر گزاری سکھانا بھول جانا
آج کے اس تیز ترین دور
میں جہاں ٹیکنالوجی نے انسانوں کی زندگیوں پر گہرا اثر چھوڑا وہاں یقینا انسانوں کے رویے بھی تبدیل
ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ آج کی نسل نو ہمارے سامنے ہے شکر گزاری تو درکنار، اسلام کیا ہے ؟ قرآن کیا ہے ہمیں کیا تعلیمات دی گئی ہیں ؟ اللہ نے ہمیں کس مقصد کے تحت پیدا کیا ہے؟آج کی
نسل تعلیمات اسلامی سے کوسوں دور ہے۔ تھوڑی سی تنگی آجائے تو لوگ خود کشی کرتے
دکھائی دیتے ہیں۔ روپے پیسوں کی کمی آئے تو لوگ دوسروں کے گلے کاٹتے دکھائی دیتے
ہیں۔ یہ کمی اور کوتاہیاں درحقیقت والدین کی طرف سے دکھائی دیتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں
کو شکر گزاری سکھانا بھول گئے ہیں۔کیونکہ کہ وہ تو بچوں کو ہمیشہ خوش دیکھنے چاہتے
ہیں اور ان کی ہر خواہش کے سامنے سرخم تسلیم کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ بچے
دکھ اور تنگی میں بجائے شکر گزاری کرنے کے والدین کے سر پر بندوق تانے کھڑے ہوتے ہیں
اور والدین بے بس دکھائی دیتے ہیں اورخود کو کوستے ہیں کہ شاید ہماری تربیت میں
کوئی کمی رہ گئی ہے۔
9- برے سلوک کو نظر انداز کرنا
جب بچے طنز کرتے ہیں، بے
عزتی سے بولتے ہیں، خلل ڈالتے ہیں، یا اپنے بہن بھائیوں سے لڑتے ہیں، تو یہ والدین
کے لیے پرکشش ہوتا ہے کہ وہ مسئلہ کے رویوں کو نظر انداز کریں اور یہ سمجھیں کہ یہ
صرف ایک مرحلہ ہے جس سے ان کے بچے گزر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنے بچوں سے کہہ
سکتے ہیں کہ وہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو خود ہی ختم کریں اور آپس میں بات کو سلجھائیں۔مسائل
کے رویوں کو جلدی اور مؤثر طریقے سے حل کرنے سے ان کے ہاتھ سے نکل جانے سے پہلے ان
پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، کچھ برے رویے ہیں جن کو ایک بڑا
مسئلہ بننے سے پہلے ہی ان سے نمٹا جانا چاہیے۔ بعض رویوں کو نظر انداز کرنا نظم و
ضبط کی حکمت عملی ہو سکتی ہے، لیکن اسے ہر حال میں استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
مناسب طریقے سے برتاؤ کرنا سیکھنے کے لیے بچوں کو باقاعدہ ہدایت اور رہنمائی کی
ضرورت ہوتی ہے۔
10- غلط دوستوں کو اجازت دینا
ہر والدین چاہتے ہیں کہ
ان کے بچے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل جل کر رہیں اور نئے دوست بنائیں۔ لیکن اگر کوئی
دوست آپ کے بچے کے مزاج سے بالکل مختلف ہے یا ایسے مزاج کے مالک ہیں جو آپ کی توقعات
پر پورا نہیں اترتے ، تو یہ مداخلت کرنے کا بہترین وقت ہوسکتا ہے۔اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ اپنے
بچے کو جاننا سکھائیں کہ صحت مند دوستی کیا
ہے اور جعلی دوستوں یا زہریلے دوستوں کی
شناخت کیسے کی جائے۔ غیر صحت مند رشتوں کی شناخت کرنا سیکھنا ، آپ کے بچے کو بہت زیادہ
دل کی تکلیف سے بچا سکتا ہے۔صورتحال کی شدت پر منحصر ہے، جب آپ اپنے بچوں کے
دوستوں کے بارے میں فکر مند ہوں تو چیزوں کو سنبھالنے کے بہت سارے طریقے ہیں۔ ظاہر
ہے، بہترین آپشن یہ ہے کہ اپنے بچوں سے اپنے خدشات کے بارے میں بات کریں۔ آپ حدود
بھی قائم کر سکتے ہیں اور اپنے بچوں کو یہ سیکھنے میں مدد کر سکتے ہیں کہ اپنے لیے
حدود کیسے طے کی جائیں۔
Zabardast tips
جواب دیںحذف کریںBetter
جواب دیںحذف کریں