google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے 5-قوالی گانا - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

ہفتہ، 5 اکتوبر، 2024

دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے 5-قوالی گانا



قوالی ایک موسیقی کی صنف ہے جسے خاص طور پر صوفیانہ رنگ میں گایا جاتا ہے۔ اس میں اللہ، نبی کریم ﷺ، اولیاء اللہ، اور بزرگانِ دین کی تعریف و توصیف کے اشعار شامل ہوتے ہیں۔ قوالی کا مقصد بعض حلقوں میں روحانی کیفیت پیدا کرنا اور دلوں کو نرم کرنا بتایا جاتا ہے، تاہم، اس کے مختلف عناصر میں موسیقی اور دیگر رسوم شامل ہونے کے سبب، یہ اسلامی تعلیمات سے متصادم ہو سکتی ہے۔

 

اسلام میں بدعت (بِدْعَة) سے مراد ہر وہ نیا عمل ہے جو دین کی اصل تعلیمات میں نہ ہو اور جسے دین میں شامل کیا جائے۔ قرآن و سنت میں قوالی گانے کی کوئی اصل موجود نہیں، لہٰذا علماء کی ایک بڑی تعداد اسے بدعت قرار دیتی ہے۔ پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا:"جو ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرے جو اس میں نہ ہو، وہ مردود ہے۔"قوالی گانا بھی اسی اصول کے تحت ایک بدعت شمار کیا جا سکتا ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کے زمانے میں اس طرح کے عمل کا کوئیتصور نہیں تھا۔

 

پکی قبریں بنانا، قل خوانی، عرس میلے اور پیری مریدی، جیسے اعمال اور رسوم کو علماء بدعت کے دائرے میں شامل کرتے ہیں کیونکہ یہ سب چیزیں نبی ﷺ اور صحابہ کی سنت میں موجود نہیں ہیں۔ قوالی گانا ان رسوم میں ایک اور اضافہ ہے جو لوگوں نے اپنی ثقافت اور معاشرتی رسومات میں شامل کر لیا ہے۔

 

جنوبی ایشیائی ممالک، خصوصاً پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں، قوالی کا رواج زیادہ تر صوفیاء کے مزارات پر ہوتا ہے۔ یہ رواج صوفی سلسلوں میں روحانی محافل کے دوران مقبول ہوا، جہاں قوالیاں اولیاء کی شان میں گائی جاتی ہیں اور مریدین ان محافل کو روحانی تجربہ تصور کرتے ہیں۔

 

مزارات پر قوالی کی محافل منعقد کرنا ایک عام رواج بن گیا ہے، جہاں لوگ قبروں اور عرس میلوں پر جمع ہو کر اولیاء کی تعریف میں قوالیاں سنتے اور گاتے ہیں۔ یہ عمل نبی ﷺ اور صحابہ کرام کے دور میں موجود نہ تھا اور اس قسم کی محفلوں کو علماء بدعت اور غیر اسلامی رسوم شمار کرتے ہیں۔

 

قوالی کی اصل جنوبی ایشیا میں صوفیاء کے سلسلوں سے جڑی ہے۔ اس صنف کی ابتدا صوفیاء کی تعلیمات کے ساتھ ہوئی، جہاں اسے روحانی عمل کے طور پر پیش کیا گیا۔ تاہم، قوالی کا کوئی بنیاد اسلام کے ابتدائی دور میں نہیں ملتی اور اس کے مختلف عناصر موسیقی اور گانے کی شکل میں شامل ہیں۔

 

دورِ جاہلیت میں قوالی جیسا کوئی مخصوص عمل موجود نہیں تھا، لیکن موسیقی اور گانا بجانا اس دور میں عام تھا۔ قرآن و سنت میں گانے بجانے اور موسیقی کے متعلق واضح ہدایات موجود ہیں، جن میں اس کے منفی اثرات سے خبردار کیا گیا ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے""اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتیں خریدتے ہیں تاکہ اللہ کے راستے سے گمراہ کریں۔"

 

زرتشت مذہب اور دیگر غیر اسلامی مذاہب میں بھی موسیقی اور مذہبی گانے کا ایک کردار رہا ہے۔ زرتشتی عقائد میں مذہبی ترانے اور اشعار ایک روحانی ذریعہ تھے، جن کا مقصد لوگوں کو روحانی طور پر بلندی پر لے جانا تھا۔ عیسائیت اور ہندو دھرم میں بھی مذہبی گانے اور موسیقی کی ایک اہمیت ہے۔

 

اسلام میں قوالی یا موسیقی کی کوئی باقاعدہ تعلیمات موجود نہیں ہیں جو اس کی تائید کرتی ہوں۔ علماء کی ایک بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ قوالی جیسی محافل دین کی اصل روح کے منافی ہیں، کیونکہ یہ دل کو غفلت کی طرف لے جا سکتی ہیں اور شرعی احکامات کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا"میری امت میں کچھ لوگ ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اور موسیقی کو جائز سمجھیں گے۔"

 

قوالی یا موسیقی میں مشغول ہونا ایک ایسا عمل ہے جس کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔ علماء کی ایک بڑی تعداد اسے گمراہی کا ذریعہ سمجھتی ہے اور ایسے لوگوں کو شرعی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والا قرار دیتی ہے۔

ائمہ کرام جیسے امام مالک، امام شافعی، اور امام احمد بن حنبل نے موسیقی اور گانے بجانے کو ناپسند کیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ اعمال انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کرتے ہیں اور ان کی زندگی میں روحانی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:*

"گانا دل میں نفاق پیدا کرتا ہے۔"

اس گناہ سے بچنے کے لئے قرآن و سنت کی تعلیمات کو اپنانا ضروری ہے۔ ہمیں بدعات اور غیر اسلامی رسومات سے بچنا چاہیے اور دینِ اسلام کی اصل تعلیمات کی پیروی کرنی چاہیے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:"لہٰذا آپ اسی طرح مستقیم رہیں جیسے آپ کو حکم دیا گیا ہے۔"

پاکستان میں کئی مزارات پر قوالی گانے کا رواج پایا جاتا ہے، خاص طور پر صوفی بزرگوں اور اولیاء اللہ کی قبروں پر قوالی کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں۔ یہ مقامات عوام الناس کے لئے روحانی مراکز تصور کیے جاتے ہیں، اور قوالی کے ذریعے مریدین اور زائرین اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان کے چند اہم مزارات جہاں قوالی گائی جاتی ہے، درج ذیل ہیں:

داتا دربار، لاہور

حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کا مزار لاہور میں واقع ہے۔ یہ پاکستان کے سب سے بڑے اور مشہور صوفی مزارات میں سے ایک ہے۔ داتا دربار پر عموماً قوالی کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں، خاص طور پر جمعرات کی راتوں اور عرس کے مواقع پر۔

مزار حضرت بابا فرید، پاکپتن

حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کا مزار پاکپتن میں واقع ہے۔ ان کے عرس کے موقع پر قوالی کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں، جہاں ہزاروں زائرین شرکت کرتے ہیں۔ قوالی یہاں کا ایک اہم حصہ ہے اور اسے روحانی تجربہ سمجھا جاتا ہے۔

مزار حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی، بھٹ شاہ

حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کا مزار صوبہ سندھ کے علاقے بھٹ شاہ میں ہے۔ یہاں سندھی زبان میں صوفی قوالیاں گائی جاتی ہیں، خاص طور پر شاہ عبداللطیف کے کلام کو قوالیوں کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔

مزار حضرت لال شہباز قلندر، سیہون شریف

حضرت لال شہباز قلندرؒ کا مزار سندھ کے سیہون شریف میں واقع ہے۔ یہاں ہر روز قوالی کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں، اور "دھمال" بھی اس مزار کا ایک خاص عمل ہے جو قوالیوں کے دوران ہوتا ہے۔ عرس کے موقع پر قوالیوں کی محفلوں کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔

 

مزار حضرت خواجہ غلام فرید، کوٹ مٹھن

حضرت خواجہ غلام فریدؒ کا مزار پنجاب کے علاقے کوٹ مٹھن میں ہے۔ یہاں قوالیوں کے ذریعے ان کی تعلیمات اور کلام کو یاد کیا جاتا ہے اور عرس کے دوران قوالی کی خصوصی محفلیں منعقد ہوتی ہیں۔

مزار حضرت شاہ رکن عالم، ملتان

ملتان میں حضرت شاہ رکن عالمؒ کا مزار بھی ایک معروف صوفی مزار ہے۔ یہاں بھی عرس کے موقع پر قوالی کی محفلیں سجائی جاتی ہیں اور زائرین بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔

مزار حضرت میاں میر، لاہور

حضرت میاں میرؒ کا مزار بھی لاہور میں ایک معروف صوفی مزار ہے۔ یہاں پر بھی عرس کے موقع پر قوالی کی محفلیں ہوتی ہیں اور عوام الناس بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔

مزار حضرت سچل سرمست، درازہ شریف

حضرت سچل سرمستؒ کا مزار صوبہ سندھ کے درازہ شریف میں ہے۔ یہاں بھی صوفیانہ کلام پر مبنی قوالیاں گائی جاتی ہیں، اور عرس کے دوران قوالیوں کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔

 

قوالی گانا ایک ایسا عمل ہے جس کی بنیاد اسلامی تعلیمات میں نہیں ملتی اور جسے علماء کی ایک بڑی تعداد بدعت کے زمرے میں شمار کرتی ہے۔ دین اسلام میں بدعات سے بچنے اور شریعت کی پیروی کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ لہٰذا، قوالی گانے اور سننے سے پرہیز کرنا اور قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنا ہی ہمارے لئے نجات کا ذریعہ ہے۔

 

مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائٹ وزٹ کریں۔

جوا کھیلنا، بیوی کو خاوندکے خلاف بھڑکانا،  لعنت کرنا، احسان جتلانا، دیوث بننا، میلاد منانا، حلالہ کرنا یا کروانا،  ہم جنس پرستی

جاندار کو آگ میں جلانا، پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا، سود کھانا، ظلم کرنا، رشوت لینا یا دینا،زنا کرنا ، کسی جانور گائے بکری سے جماع کرنا، بغیر عذر شرعی جماعت کی نماز چھوڑنا، پڑوسی کوتکلیف دینا، وعدہ خلافی کرنا، غیرمحرم عورت کی طرف بہ قصد دیکھنا

پکی قبریں بنانا، قل خوانی کرنا، عرس میلے منانا، 

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو