google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے 4-پیری مریدی - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

جمعہ، 4 اکتوبر، 2024

دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے 4-پیری مریدی



پیری مریدی ایک اصطلاح ہے جو عام طور پر روحانی رہنمائی کے عمل سے منسلک ہے، جہاں ایک شخص (مرید) اپنے آپ کو ایک روحانی رہنما (پیر) کے سپرد کرتا ہے اور اس کی ہدایات پر عمل کرتا ہے۔ اس کا مقصد زیادہ تر دینی تعلیمات اور روحانی پاکیزگی کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن، وقت گزرنے کے ساتھ اس عمل میں ایسے اضافے ہوگئے جو اصل اسلامی تعلیمات سے متصادم سمجھے جا سکتے ہیں۔

 

اسلام میں بدعت (بِدْعَة) سے مراد کسی نئی چیز یا عمل کو دین میں شامل کرنا ہے جو نبی ﷺ کی تعلیمات، صحابہ کرام کی پیروی، اور شریعت میں موجود نہ ہو۔ حدیث میں بدعت کے بارے میں واضح الفاظ میں فرمایا گیا ہےحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"جو ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرے جو اس میں سے نہ ہو، وہ ناقابلِ قبول ہے۔"

 

پیری مریدی کو ایک ایسی رسم کہا جا سکتا ہے جو قرآن و سنت میں واضح طور پر موجود نہیں ہے، اور جس کے کئی پہلو دین میں اضافے کے طور پر سمجھے جا سکتے ہیں۔

 

اسلام میں بدعت کی دو اقسام ہیں:

بدعت حسنہ: وہ نیا عمل جو دین کی روح کے مطابق ہو اور جس کا مقصد دین کی خدمت یا بہتری ہو۔

بدعت سیئہ: وہ نیا عمل جو دین کی اصل تعلیمات کے خلاف ہو یا اس میں اضافے کا باعث بنے۔

 

پیری مریدی کو بعض علماء بدعت سیئہ میں شمار کرتے ہیں، کیونکہ اس میں روحانی رہنماؤں کی اتنی تعظیم اور احترام کیا جاتا ہے جو اسلامی اصولوں کے منافی ہو سکتی ہے۔بعض ناقدین کا خیال ہے کہ علماء دین نے دین کے اصل مقاصد اور تعلیمات کو چھوڑ کر محض ظاہری رسومات اور رسموں پر توجہ مرکوز کی ہے، جن میں کھانے پینے کے مخصوص طریقے اور رسم و رواج شامل ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:"اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔"اسلام کی تعلیمات کا مقصد زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کے احکامات کی پیروی کرنا ہے، نہ کہ محض ظاہری رسومات کو اپنانا۔

 

پاکستان میں پیری مریدی ایک ایسا نظام بن چکا ہے جہاں روحانی رہنما (پیر) اپنے مریدین سے مالی فوائد حاصل کرتے ہیں اس منافع بخش کاروبار میں پیردن دگنی رات چگنی ترقی کرتا ہے جبکہ مرید منوں مٹی تلے دھنستا چلا جاتا ہے۔پاکستان کا ایک جاہل طبقہ اس پیری مریدی کے کاروبار سے منسلک ہے  جس کے ہر شہر میں زمین اور جائیداد موجود ہوتی ہے جبکہ مرید کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اس کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہوتی ، جاہل پیر کے بچے اعلی تعلیم حاصل کرنے بیرون ملک چلے جاتے ہیں جبکہ مریدین کے پیسوں سے عیاشی کرنے والا پیر مالامال ہوتا چلا جاتا ہے۔ پیری مریدی کا یہ تجارتی پہلو اسلام کی اصل تعلیمات سے انحراف ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:"اور انہیں یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ خالص نیت سے اللہ کی عبادت کریں۔"

 

پیری مریدی کی باقاعدہ ابتداء اسلامی تاریخ میں صوفی ازم کے ارتقاء کے ساتھ ہوئی، جب مختلف صوفی سلسلوں نے روحانی رہنمائی کا نظام وضع کیا۔ تاہم، یہ سلسلے شروع میں خالص نیت سے اللہ کی خوشنودی اور روحانی ترقی کے لئے تھے۔ بدقسمتی سے، وقت کے ساتھ ان میں کچھ خرافات اور بدعات شامل ہو گئیں کہ اب انہی صوفیوں کے مزارات پر ہر سال میلے  یا عرس منعقد ہوتے ہیں یعنی زندہ ہوتے ہوئے بھی کچھ خاص دین کی خدمت نہیں کی اور مرنے کے بعد بھی عوام کو اپنے پیچھے لگالیا۔مزارات کی دیکھ بھال کرنے والوں نے ایسا مکروہ دھندہ کھڑا کر لیا کہ پیر صاحب زندہ ہیں اورآپ لوگوں کی مرادیں سنتے ہیں ۔بس پھر کیا ! ہر وہ کام جوشیطان کرواتا گیا نادان انسان کرتا چلاگیا۔

 

دورِ جاہلیت میں پیری مریدی کی موجودہ شکل میں کوئی رواج نہیں تھا، لیکن اس دور میں لوگوں کا توہم پرستی، جادوگری، اور دیگر غیر اسلامی عقائد میں مشغول ہونا عام تھا۔ ان میں روحانی شخصیات کی تعظیم اور ان سے مدد کی طلب کی جاتی تھی، جو پیری مریدی کی کچھ موجودہ شکلوں سے مماثل ہے۔

 

دیگر مذاہب میں بھی پیر و مرشد یا روحانی رہنما کا تصور موجود ہے۔ مثال کے طور پر، ہندو دھرم میں گرو اور ششہ کا رشتہ، اور عیسائیت میں پوپ یا پادری کی روحانی رہنمائی ایک معروف حقیقت ہے۔ یہ تمام مذاہب میں روحانی رہنماؤں کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن اسلام میں اسے انتہائی احتیاط سے دیکھا گیا ہے۔

 

اسلام میں پیری مریدی کا کوئی باقاعدہ تصور قرآن و حدیث میں نہیں ہے۔ اگر پیری مریدی شریعت کے دائرے میں رہے تو اسے قبول کیا جا سکتا ہے، لیکن اگر اس میں بدعت، شرک، یا غیر اسلامی رسومات شامل ہو جائیں تو یہ ناجائز ہو جاتا ہے۔ پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا:"ہر بدعت گمراہی ہے۔"صحابہ کرام کی زندگی میں ہمیں پیری مریدی کا کوئی باقاعدہ تصور نہیں ملتا۔ صحابہ کرام نے اپنی زندگی میں نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کی پیروی کی اور براہ راست اللہ کی رضا کے لئے عمل کیا۔

 

ائمہ کرام جیسے امام شافعی، امام مالک، اور امام احمد بن حنبل نے ہمیشہ دین کی اصل تعلیمات کو ترجیح دی اور بدعات سے بچنے کی تلقین کی۔ ان کے نزدیک ہر وہ عمل جو دین میں نئی چیزوں کا اضافہ کرے، قابلِ قبول نہیں ہے۔مسلک بریلوی ، اہل تشیع،زیادہ تر اس پیری مریدی کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں ۔جبکہ مسلک دیوبند بھی کہیں مخصوص صورت میں اس کی لپیٹ میں ہے۔ پاکستان میں پیری مریدی کا بڑھتا ہوا رجحان عوام کو دین کے اصل مقاصد سے دور کر رہا ہے۔ یہ نظام بعض اوقات مالی استحصال اور توہم پرستی کا باعث بنتا ہے، جس سے سماجی ناانصافی اور غیردینی عقائد کی ترویج ہوتی ہے۔

 

اسلامی تعلیمات پر سختی سے عمل کرتے ہوئے بدعت سے بچا جا سکتا ہے۔ ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی گزارنے اور اسلامی اصولوں پر چلنے کی ضرورت ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:"اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔"

 

پیری مریدی کا نظام اگرچہ ابتدا میں روحانی رہنمائی کے لئے بنایا گیا تھا، لیکن اس میں وقت کے ساتھ ایسی بدعات شامل ہو گئیں جو اسلام کی اصل تعلیمات سے ہٹ کر ہیں۔ ہمیں دین کی پاکیزگی کو برقرار رکھتے ہوئے ہر طرح کی بدعت سے بچنا چاہئے تاکہ ہم اسلام کی اصل روح کو برقرار رکھ سکیں۔

 

مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائٹ وزٹ کریں۔

جوا کھیلنا، بیوی کو خاوندکے خلاف بھڑکانا،  لعنت کرنا، احسان جتلانا، دیوث بننا، میلاد منانا، حلالہ کرنا یا کروانا،  ہم جنس پرستی

جاندار کو آگ میں جلانا، پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا، سود کھانا، ظلم کرنا، رشوت لینا یا دینا،زنا کرنا ، کسی جانور گائے بکری سے جماع کرنا، بغیر عذر شرعی جماعت کی نماز چھوڑنا، پڑوسی کوتکلیف دینا، وعدہ خلافی کرنا، غیرمحرم عورت کی طرف بہ قصد دیکھنا

پکیقبریں بنانا، قل خوانی کرنا، عرس میلے منانا، 

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو