غفلت میں چھپے 50 گناہوں کی فہرست میں پچاسواں گناہ کسی
جانور گائے، بکری سے جماع کرناہے۔ اگر
آپ مزید آرٹیکل پڑھنا چائیں تو نیچے دئیے گئے لنک پر کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں۔
اسلامی فقہ میں جانوروں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کو "بہیمیت"
یا "زوفیلیا" کہا جاتا ہے، جو ایک حرام اور سنگین گناہ ہے۔ یہ عمل فطرت
کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے اور شریعت میں اسے انتہائی قبیح فعل قرار دیا گیا ہے۔
قرآن و سنت میں اس حوالے سے واضح ہدایات موجود ہیں کہ انسان اور جانور کے درمیان
کسی قسم کے جنسی تعلقات کو سختی سے ممنوع کیا گیا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ انسانوں کو فحش اعمال اور بے حیائی
سے بچنے کا حکم دیتے ہیں"اور بے حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ ظاہر ہو یا چھپی ہوئی" یہ آیت ہر قسم کی بے حیائی اور غیر فطری اعمال
سے بچنے کی تاکید کرتی ہے، اور جانوروں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا ان اعمال میں
سے ایک ہے۔
دیہاتوں میں رہنے والے لوگ چونکہ جانوروں کے ساتھ زیادہ وقت
گزارتے ہیں، اس لیے بعض اوقات یہ گمان کیا جاتا ہے کہ ایسے غیر فطری اعمال دیہاتوں
میں زیادہ ہوتے ہیں۔ تاہم، یہ عمل نہ صرف دیہاتوں بلکہ شہروں میں بھی پائے جا سکتے
ہیں، اور اس کا تعلق صرف رہائش کی جگہ سے نہیں بلکہ انسان کے نفسیاتی اور اخلاقی
رویے سے ہے۔
ایسے غیر اخلاقی اعمال معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔ یہ
عمل نہ صرف معاشرتی اقدار کی پامالی کا باعث بنتا ہے بلکہ معاشرے میں بے حیائی اور
بے راہ روی کو فروغ دیتا ہے۔ جو لوگ ایسے گناہ کرتے ہیں، ان کی کردار کی پستی
دوسروں کے سامنے بھی ظاہر ہوتی ہے، جس سے ان کی عزت اور مقام معاشرے میں ختم ہوجاتا ہے۔
اگر کسی شخص کا یہ گناہ رشتہ داروں یا دوست احباب کے سامنے
ظاہر ہو جائے، تو یہ ان کے درمیان اعتماد اور تعلقات میں خرابی پیدا کر سکتا ہے۔ یہ
عمل شرمندگی، عزت و وقار کی پامالی، اور رشتوں کے ٹوٹنے کا باعث بنتا ہے۔ نبی کریم
ﷺ نے فرمایا:"شرم و حیا ایمان کا حصہ ہے" جب کوئی شخص اس طرح کے قبیح عمل میں ملوث ہوتا ہے، تو اس کی شرم و حیا ختم ہو جاتی ہے، اور وہ اپنے قریبی
لوگوں سے دور ہو جاتا ہے۔
دورِ جاہلیت میں بھی ایسے غیر فطری اعمال موجود تھے، اور
اسلام نے آ کر ان قبیح افعال کی سختی سے ممانعت کی۔ اسلام نے انسان کو فطرت کے
اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا حکم دیا اور بے حیائی کے ہر قسم کے عمل سے دور
رہنے کی تاکید کی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "لوگوں میں بہترین وہ ہے جو
اپنے اخلاق کو بہترین بنائے"
دیگر مذاہب جیسے یہودیت اور عیسائیت میں بھی جانوروں کے
ساتھ جنسی تعلق کو حرام اور ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ بائبل میں بھی اس قسم کے افعال
کی مذمت کی گئی ہے:"تم جانوروں کے ساتھ جنسی تعلق قائم نہ کرو، یہ خدا کے خلاف ہے"(احبار
18:23) یہودی اور عیسائی دونوں روایات میں اس عمل کو فطرت کے اصولوں کے خلاف اور ایک
سنگین گناہ سمجھا جاتا ہے۔
اہل مغرب میں کتے، گھوڑے، اور گدھوں جیسے جانوروں کے ساتھ
بدفعلی یا زوفیلیا (zoophilia) کا رجحان متعدد سماجی، نفسیاتی، اور اخلاقی
عوامل کی وجہ سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ اس قسم کے غیر فطری اور غیر اخلاقی رویے کے پیچھے
درج ذیل وجوہات اہم سمجھی جاتی ہیں:
اخلاقی آزادی اور حدود کا فقدان
مغربی معاشروں میں عمومی طور پر اخلاقی اور جنسی آزادی پر زیادہ
زور دیا جاتا ہے۔ وہاں ہر شخص کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی دی جاتی
ہے، اور اس کی وجہ سے بعض افراد غیر فطری راستوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ یہ رویہ
کسی حد تک اخلاقی پابندیوں اور مذہبی احکام کی کمی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے، کیونکہ
مغربی معاشروں میں مذہبی پابندیاں کمزور ہو چکی ہیں، اور سیکولر ازم غالب ہے۔
فحش مواد کی رسائی
انٹرنیٹ اور میڈیا پر فحش مواد کی آسان دستیابی نے لوگوں کو
اخلاقی حدود سے باہر نکلنے پر آمادہ کیا ہے۔ بعض افراد روایتی جنسی تعلقات سے
مطمئن نہیں ہوتے اور اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے غیر فطری اور غیر
انسانی راستے اپناتے ہیں۔ مغربی معاشروں میں فحش مواد تک رسائی آسان ہے، جس کی وجہ
سے مختلف قسم کی جنسی خواہشات ابھرتی ہیں، جن میں جانوروں کے ساتھ بدفعلی بھی شامل
ہے۔
نفسیاتی مسائل
بعض اوقات ایسے غیر اخلاقی اعمال نفسیاتی یا جنسی انحراف کا
نتیجہ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ جنسی تعلقات کے فطری طریقوں سے مطمئن نہیں ہوتے، اور انہیں
غیر معمولی جنسی تعلقات میں تسکین ملتی ہے۔ اس میں نفسیاتی امراض جیسے کہ "پیرافیلیا"
(paraphilia) شامل ہو سکتے ہیں، جہاں فرد کو غیر معمولی یا خطرناک جنسی رویوں
کی طرف رجحان ہوتا ہے۔
قانونی اور سماجی پالیسیوں کی نرمی
مغربی ممالک میں جنسی آزادی اور انسانی حقوق کی حفاظت کے
نام پر بعض اوقات ایسے غیر اخلاقی اعمال پر قانون سازی کمزور ہوتی ہے۔ کچھ ممالک میں
جانوروں کے ساتھ بدفعلی کے قوانین بہت سخت نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے بعض افراد ایسی
قبیح حرکتوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ مغرب میں زیادہ تر ممالک میں اس عمل
کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، لیکن قوانین کے نفاذ میں نرمی کی وجہ سے بعض افراد
ان سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔
مذہبی اثرات کا کم ہونا
مغرب میں سیکولر نظریات اور الحاد کا غلبہ ہے، جس کی وجہ سے
مذہبی تعلیمات اور اخلاقی اصولوں کی پیروی کمزور ہو گئی ہے۔ اسلام، مسیحیت اور دیگر
مذاہب میں جانوروں کے ساتھ بدفعلی کو شدید گناہ قرار دیا گیا ہے، مگر مغربی
معاشروں میں مذہب کی اہمیت کم ہونے کے باعث یہ تعلیمات افراد کی زندگی میں زیادہ
اثرانداز نہیں ہو پاتیں۔ نتیجتاً، بعض لوگ مذہبی حدود سے آزاد ہو کر غیر اخلاقی
راستے اختیار کرتے ہیں۔
ثقافتی اور معاشرتی تناؤ
بعض اوقات مغربی معاشروں میں معاشرتی اور نفسیاتی تناؤ، جیسے
کہ تنہائی، جذباتی رکاوٹیں، یا محبت کے رشتوں کی کمی، انسان کو غیر فطری راستوں کی
طرف دھکیل سکتے ہیں۔ جانوروں کے ساتھ بدفعلی ایک قسم کی نفسیاتی تسکین کا راستہ بن
سکتی ہے جب انسان خود کو جذباتی یا جسمانی طور پر تنہا محسوس کرتا ہے۔
نفس کی پیروی
مغربی معاشروں میں "جو جی چاہے کرو" کے فلسفے کا
غلبہ ہے، جس میں نفس کی پیروی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ فلسفہ انسان کو اخلاقی اور
دینی قیود سے آزاد کر دیتا ہے، اور نتیجتاً کچھ لوگ غیر اخلاقی اعمال میں ملوث ہو
جاتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات کا موازنہ
اسلام میں جانوروں کے ساتھ بدفعلی کو نہایت سختی سے منع کیا
گیا ہے اور اسے ایک عظیم گناہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن و سنت میں واضح طور پر فطرت
کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا حکم دیا گیا ہے:"اور بے حیائی کے قریب
بھی نہ جاؤ"۔
اسلام میں جانوروں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا سخت حرام ہے
اور شریعت میں اس کی سخت سزا مقرر کی گئی ہے۔ حدیث میں ہے:
"جو شخص کسی جانور کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرے، اسے قتل کر دیا جائے
اور اس جانور کو بھی مار دیا جائے" یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ اسلام
میں ایسے گناہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اور اس کی سزا انتہائی سخت ہے۔ یہ عمل
انسان کی فطری حیثیت کو مسخ کرتا ہے اور اسے جانوروں کے درجے تک گرا دیتا ہے۔
ائمہ کرام یعنی امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ
اور امام احمد بن حنبلؒ اس بات پر متفق ہیں کہ جانوروں کے ساتھ جنسی تعلق قائم
کرنا حرام اور فطرت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ان کے نزدیک ایسے شخص پر حد جاری ہوتی
ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جانور کو بھی قتل کر دیا جاتا ہے تاکہ اس کی بے حرمتی نہ
ہو۔
موجودہ دور میں اخلاقی بگاڑ اور بے راہ روی کے باعث ایسے
گناہ عام ہو چکے ہیں۔ میڈیا اور انٹرنیٹ پر فحش مواد کی دستیابی نے انسانوں کو غیر
اخلاقی اور فطرت کے خلاف اعمال کی طرف مائل کیا ہے۔ اس کے علاوہ، تعلیم اور دین سے
دوری بھی ان برائیوں کو فروغ دینے کا سبب بن رہی ہے۔
جنوبی ایشیاء کے دیہی علاقوں میں تعلیم کی کمی، شعور کی عدم
دستیابی، اور اخلاقی تربیت کی کمی کی وجہ سے ایسے قبیح اعمال سامنے آتے ہیں۔ بعض دیہاتوں
میں جنسی تعلیم اور فطرت کے اصولوں کا علم نہ ہونے کی وجہ سے لوگ غیر فطری راستے
اختیار کرتے ہیں۔ یہ ایک سنگین سماجی مسئلہ ہے جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
تعلیم اور شعور: لوگوں کو دینی
اور دنیاوی تعلیم سے آگاہ کریں تاکہ وہ ایسے قبیح اعمال سے بچ سکیں۔
اخلاقی تربیت: بچوں اور
نوجوانوں کو اخلاقی اور دینی تربیت دی جائے تاکہ وہ بے حیائی سے دور رہیں۔
تقویٰ اختیار کریں:
اللہ کا خوف دل میں بٹھائیں اور اس کے احکامات کی پیروی کریں۔
مناسب جنسی تعلیم:
معاشرتی سطح پر جنسی تعلیم کو فروغ دیا جائے تاکہ لوگ فطری اور جائز راستے اپنائیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"تم
میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے خاندان والوں کے لیے بہترین ہو"اسلام میں
ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اخلاق کو بہتر بنائے اور فطرت کے اصولوں کے
مطابق زندگی گزارے۔
پاکستانی قانون میں جانوروں کے ساتھ بدفعلی کی
سزائیں
پاکستان میں جانوروں کے ساتھ بدفعلی کو زنا، بدفعلی یا غیر
فطری جرائم کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ملکی قوانین میں ایسے غیر فطری اور غیر
انسانی افعال پر سخت سزائیں مقرر ہیں۔ اس ضمن میں درج ذیل دفعات اہم ہیں:
پاکستان پینل کوڈ (PPC)
پاکستان پینل کوڈ 1860 (PPC) میں دفعہ 377
غیر فطری جرائم کے متعلق ہے۔ اس دفعہ کے تحت کسی بھی انسان یا جانور کے ساتھ جنسی
تعلق قائم کرنے کو غیر فطری فعل قرار دیا گیا ہے۔
دفعہ 377 کہتی ہے:
جو شخص کسی بھی مرد، عورت یا جانور کے ساتھ غیر فطری طریقے
سے جنسی تعلق قائم کرے، اسے دس سال تک کی قید، اور جرمانے یا دونوں سزائیں دی جا
سکتی ہیں۔اس قانون کے تحت جانوروں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے والے شخص پر سخت
کارروائی کی جا سکتی ہے اور اسے طویل مدت تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں تعزیرات کے تحت بھی جانوروں کے ساتھ بدفعلی کو
اخلاقی اور قانونی جرم تصور کیا جاتا ہے۔ اس جرم کو معاشرتی اقدار اور اسلامی تعلیمات
کی روشنی میں سنگین قرار دیا جاتا ہے، اور اس پر سخت کارروائی کی جاتی ہے۔
جانوروں کے حقوق کے قوانین
پاکستان میں جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہیں
جن میں **جانوروں کے ساتھ بدسلوکیانہیں اذیت پہنچانا، اور ان کے ساتھ کسی بھی غیر
فطری فعل کا ارتکاب غیر قانونی ہے۔ جانوروں کے ساتھ بدفعلی کو بھی انہی قوانین کے
تحت دیکھا جاتا ہے، اور ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔
سماجی اور قانونی عملداری
پاکستان میں اگر کوئی شخص جانوروں کے ساتھ بدفعلی کا مرتکب
ہو، تو اس کے خلاف قانونی کارروائی درج ہو سکتی ہے۔ پولیس اور متعلقہ حکام کو مطلع
کرنے کے بعد مقدمہ درج کیا جاتا ہے، اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں اسے دفعہ 377
کے تحت سزا دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، معاشرتی سطح پر بھی ایسے افراد کی شدید مذمت
کی جاتی ہے اور انہیں بدنامی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
قانونی عمل درآمد کے چیلنجز
پاکستان میں قانونی اور معاشرتی سطح پر ایسے غیر اخلاقی
جرائم کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود عمل درآمد میں بعض چیلنجز
ہوتے ہیں، جن میں:
سماجی دباؤ اور شرمندگی کی وجہ سے لوگ اس قسم کے واقعات کی
رپورٹ نہیں کرتے۔
پولیس اور عدالتی نظام کی سست روی بعض اوقات ایسے کیسز کی تیز
تر کارروائی میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔
دیہی علاقوں میں تعلیم کی کمی اور جانوروں کے ساتھ رہنے کے
باعث بعض لوگ اس قبیح عمل کو جرم سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔
اسلامی شریعت کے مطابق سزا
اسلامی نقطہ نظر سے، ایسے قبیح عمل پر سخت ترین سزائیں مقرر
کی گئی ہیں، اور اسلامی عدالتوں میں جانوروں کے ساتھ بدفعلی کرنے والے شخص کو
اسلامی سزا جیسے موت یا سنگین تعزیری اقدامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستانی
قوانین شریعت پر مبنی ہونے کی وجہ سے اس جرم کے لیے بھی اسلامی سزاؤں کو مدنظر
رکھا جاتا ہے۔
پاکستان میں جانوروں کے ساتھ بدفعلی ایک سنگین اور غیر
قانونی فعل ہے، اور اس پر دفعہ 377 کے تحت سخت سزا مقرر ہے۔ اسلامی شریعت اور ملکی
قوانین میں ایسے افعال کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے، اور ایسے افراد کو قید اور
جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مزید
آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب
سائٹ وزٹ کریں۔
جوا کھیلنا، بیوی کو خاوندکے خلاف بھڑکانا، لعنت کرنا، احسان جتلانا، دیوث بننا، میلاد منانا، حلالہ کرنا یا کروانا، ہم جنس پرستی
جاندار کو آگ میں جلانا، پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا، سود کھانا، ظلم کرنا، رشوت لینا یا دینا،زنا کرنا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔