دین
اسلام اپنی اصل میں ایک کامل اور پاکیزہ نظام ہے، جس کی بنیاد توحید، رسالت، اور
آخرت پر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لیے مکمل ہدایت نازل فرمائی تاکہ وہ زندگی
کے ہر پہلو میں صراطِ مستقیم پر گامزن رہیں۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ مختلف بدعات
نے دین کی پاکیزگی پر حملے کیے اور اسلامی عقائد و اعمال کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔بدعات کے ذریعے اسلام کی بنیادی تعلیمات میں تبدیلیاں کی گئیں، جنہوں نے دین کی
اصل روح کو کمزور کرنے کا کام کیا۔ ان بدعتی حملوں میں سب سے واضح اور عمومی مثال
پکی قبریں بنانے کا رواج ہے، جو کہ دورِ جاہلیت اور دیگر مذاہب کے اثرات کا نتیجہ
ہے۔ اس عمل نے مسلمانوں کے درمیان قبروں کی تعظیم اور زیارت جیسے غیر اسلامی رسم و
رواج کو فروغ دیا، جسے نبی کریم ﷺ نے واضح طور پر منع فرمایا تھا۔
پکی قبریں بنانے کا مقصد دنیاوی شان و شوکت کی
نمائش اور مردے کی عظمت کا اظہار بن چکا ہے، جبکہ اسلام نے ہمیں سادگی اور انکساری
کا درس دیا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں
کو برابر رکھنے کا حکم دیا تاکہ اس میں کوئی نشان دہی نہ ہو اور نہ ہی اسے عبادت
گاہ بنایا جائے۔ ، یہ بدعات امت مسلمہ کے اخلاقی اور روحانی زوال کا سبب ہیں۔ ان
بدعات کو معمولی سمجھ کر اپنانا دراصل دین کی حقیقت سے انحراف کا باعث بنتا ہے۔
بدعتوں کا خاتمہ تب ممکن ہے جب علماء اور عوام مل کر دین کی اصل تعلیمات کو فروغ دیں،
بدعتوں کی مذمت کریں، اور قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔
اسلام کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کے لیے بدعات سے دوری اختیار کرنا اور سنت کو
اپنانا نہایت ضروری ہے، تاکہ امت مسلمہ ایک بار پھر اپنی اصل روحانی و اخلاقی عظمت
کی جانب لوٹ سکے۔
پکی
قبریں بنانا ایک ایسی بدعت ہے جو اسلام کے بنیادی عقائد اور اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ
عمل دین کے پاکیزہ اصولوں کو توڑتا ہے، اور اسے مسلمانوں کے معاشرے میں شامل کر دیا
گیا ہے حالانکہ اس کی اصل اسلام سے نہیں بلکہ دیگر قوموں اور مذاہب سے لی گئی ہے۔
پکی
قبریں بنانے سے مراد ایسی قبریں ہیں جنہیں سیمنٹ، پتھر یا کسی مضبوط مواد سے تیار
کیا جاتا ہے۔ یہ قبریں زمین کی سطح سے اوپر اٹھا کر بنائی جاتی ہیں اور اکثر ان پر
مزارات یا درگاہیں تعمیر کی جاتی ہیں۔اسلامی تعلیمات میں سادہ قبروں کا تصور دیا گیا
ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"زمین میں قبر کو برابر رکھو،
اور اس کو بلند نہ کرو"یہ بدعت دراصل دورِ جاہلیت اور سابقہ قوموں
کے اثرات کا نتیجہ ہے، جہاں لوگ اپنے معزز افراد کے لیے پکی قبریں بناتے تھے۔
دورِ
جاہلیت میں پکی قبریں بنانے کا رواج تھا اور لوگ اپنے مرنے والوں کی قبروں کو نمایاں
کرنے کے لیے انہیں پختہ مواد سے بناتے تھے تاکہ ان کی قبروں کو عزت و احترام سے دیکھا
جائے۔ اسلام نے اس عمل کو روکا تاکہ لوگوں میں تکبر اور دنیاوی عزت کی نمائش سے
بچا جا سکے۔
سابقہ
قوموں، جیسے یہود و نصاریٰ میں بھی پکی قبریں بنانے کا رواج تھا۔ ان کی قومیں اپنے
پیغمبروں اور اولیاء کی قبریں بنا کر انہیں عبادت گاہوں میں تبدیل کر لیتی تھیں۔
رسول اللہ ﷺ نے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا"اللہ تعالیٰ یہود اور نصاریٰ
پر لعنت کرے، انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا"
اسلام
کے ابتدائی دور میں عرب اور وسطی ایشیا کے قبائل میں قبریں پکی بنانے کا رواج نہیں
تھا۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ مختلف غیر اسلامی اثرات کی وجہ سے یہ رواج ان علاقوں
میں داخل ہو گیا اور مسلمانوں میں بھی مقبول ہونے لگا۔اہل مغرب میں بھی قبریں پکی
بنانے کا رواج قدیم دور سے رہا ہے۔ رومی اور یونانی تہذیبوں میں مردوں کو خاص قسم
کی یادگار قبریں بنائی جاتی تھیں تاکہ ان کی شان و شوکت برقرار رہے۔
ہندو،
بدھ مت، اور دیگر مذاہب میں بھی قبروں کو مخصوص مقامات پر پکی بنا کر دفنایا جاتا
ہے یا یادگار کے طور پر تعمیر کی جاتی ہیں۔ ان مذاہب میں قبریں اکثر مقدس مان کر
عبادت کے لیے بھی استعمال ہوتی ہیں۔
جنوبی
ایشیا میں پکی قبریں بنانے کا رجحان زیادہ عام ہے، خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں۔
یہاں یہ تصور صوفی مزارات اور اولیاء کرام کی قبروں سے جڑا ہوا ہے۔ اسلام میں ایسی
قبروں کی تعمیر کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے تاکہ لوگ قبر کی پوجا سے بچ سکیں۔
زرتشت
مذہب میں بھی مرنے والے کی قبروں کو پکی بنانا عام تھا۔ زرتشتی لوگ مردوں کو
دفنانے کے بجائے انہیں مخصوص جگہوں پر چھوڑ دیتے تھے تاکہ قدرتی طریقے سے ختم ہو
جائیں۔ تاہم، بعد میں ان میں پکی قبریں بنانے کا رجحان آیا۔
اسلام
نے قبروں کو سادہ اور زمین کے برابر رکھنے کا حکم دیا ہے تاکہ تکبر اور دنیاوی عزت
کی نمائش نہ ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"قبروں کو پکی نہ بناؤ اور نہ
ان پر عمارتیں بناؤ"اس حکم کا مقصد یہ تھا کہ لوگ قبروں کو عبادت
گاہوں میں تبدیل نہ کریں اور نہ ہی مردوں کی شان و شوکت بڑھانے کے لیے انہیں نمایاں
کریں۔
دیوبند مکتبہ فکر: دیوبند علماء پکی قبریں بنانے کو بدعت اور شریعت کے خلاف
سمجھتے ہیں۔
اہل حدیث: اہل حدیث کے نزدیک قبروں کو پکی بنانا سنت کے خلاف ہے اور
اسے ترک کرنا واجب ہے۔
بریلوی مکتبہ فکر: بریلوی مسلک میں اولیاء کرام کے مزارات کو پکی قبروں کے
طور پر بنایا جاتا ہے، اور یہ ان کے عقیدے کا حصہ ہے۔
اہل تشیع: اہل تشیع میں ائمہ کی قبروں کو پختہ بنانا اور ان کی زیارت
کرنا جائز سمجھا جاتا ہے۔
احمدیہ: احمدی حضرات میں بھی قبریں پکی بنانے کا رواج موجود ہے۔
پاکستان
میں اس بدعت میں اضافہ کی وجوہات میں جہالت، عقیدے کی کمزوری، اور دنیاوی شان و
شوکت کا شوق شامل ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پکی قبریں بنانے سے وہ مردے کی عزت
افزائی کر رہے ہیں، حالانکہ یہ اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
اس
بدعت کو ختم کرنے کے لیے عوام میں دین کی صحیح تعلیمات کو عام کرنا ضروری ہے۔
علماء کرام کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو سنت کی پیروی کی ترغیب دیں اور بدعتوں سے بچنے
کی تلقین کریں۔پکی قبریں بنانا ایک بدعت ہے جو دین کی پاکیزگی کو متاثر کرتی ہے۔
ہمیں قرآن و سنت کی تعلیمات کو مضبوطی سے تھامنا چاہیے اور اس بدعت کو معاشرے سے
ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مزید
آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب
سائٹ وزٹ کریں۔
جوا کھیلنا، بیوی کو خاوندکے خلاف بھڑکانا، لعنت کرنا، احسان جتلانا، دیوث بننا، میلاد منانا، حلالہ کرنا یا کروانا، ہم جنس پرستی
جاندار کو آگ میں جلانا، پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا، سود کھانا، ظلم کرنا، رشوت لینا یا دینا،زنا کرنا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔