دنیا پر جاہلوں اور احمقوں کا غلبہ کیوں ہو جائے گا؟
دوستو! میں نے اپنی ویب سائیٹ پر کئی ایسے آرٹیکل لکھے
ہیں اگر آپ باری باری ان کا مطالعہ کریں
تو آج کا لکھا جانے والا آرٹیکل آپ کو باآسانی سمجھ آ جائے گا۔ اور اگر آپ اپنے
اردگرد دیکھیں تو یہ علامات قیامت معاشرے میں چلتی پھرتی دکھائی دیں گی۔کیونکہ ہم
ابھی بھی خواب غفلت میں ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر بتائی گئی نشانی پوری
ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ مگر افسوس نہ تو ہم خود بچ پا رہے ہیں اور نہ ہی اپنے آنے
والی نسل کو بتا پا رہے ہیں کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط۔
پہلا "آپ ﷺ
نے بے وقوف لوگوں کےبارے میں کیا پیشن گوئی فرمائی؟" دوسرا
" بے وقوف حکمرانوں کے بارے میں آپ ﷺ نے کیا فرمایا؟ " تیسرا " قوم کی قیادت گٹھیا اور فاسق لوگوں کے ہاتھوں میں کیوں ہوگی؟" چوتھا" بد کرداراورفسادی لوگوں کے ڈر سے ان کی عزت کی جائے گی" پانچواں "نیک لوگوں کا رخصت ہونا اور بُرے لوگوں کا ظاہر ہونے کےبارے میں آپ ﷺ نے کیا حکم فرمایا؟" چھٹا" قربقیامت لوگ جاہل لوگوں سے علم حاصل کرنے پر مجبور کیوں ہو جائیں گے؟" ساتواں" آپ ﷺ
نے امت کو علم کے اُٹھ جانے کے بارے میں کیا فرمایا؟"
دوستو! اگر یہ تمام دئیے گئے آرٹیکل آپ ایک ایک کر کے پڑھ لیں
تو یقینا آج کا آرٹیکل بھی اسی سے ملتا جلتا ہے۔ فرمایا گیا کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں
جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا۔ خائن کو امانت دار خیال کیا جائے
گا۔ امانت دار پر خائن ہونے کا شک کیا جائے گا۔ لوگوں کی قیادت بے وقوف انسان کریں
گے اور ذمہ داریاں نااہلوں کے سپرد کر دی
جائیں گی۔
ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی۔ جب تک کہ لوگوں میں
امیر ترین شخص وہ نہ بن جائے جو احمق ابن احمق اور جاہل ابن جاہل ہوگا"۔
ایک اور روایت کے مطابق فرمایا " قریب
ہے کہ دنیا پر جاہلوں اور احمقوں کا غلبہ ہو جائے"۔
پھر فرمایا "دنیا ختم نہ ہوگی جب تک یہ سب سے کمینے لوگوں کی ملکیت میں نہ
چلی جائے"۔
گھٹیا شخص سے مراد ایسا شخص جس کی بدخلقی کی وجہ سے کوئی بھی اس
کی تعریف نہیں کرتا۔ عربوں کے نزدیک اس کے معنی "بُرا غلام "
حماقت" یا "جہالت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
قرب قیامت ایسا شخص ہی سب سے زیاد ہ خوش حال ہوگا۔ اس کے پاس
مال و جاہ، گاڑیاں اور وسیع وعریض رہائش گاہیں ہوں گی۔ اس کے پاس دولت کی یہ کثرت
اس لئے ہوگی کہ وہ سب سے زیادہ احمق اور جاہل ہوگا اور ہر جائز و ناجائز طریقے سے
مال جمع کرے گا۔ وہ لوگوں کی خواہشات کے مطابق ان سے معاملہ کرے گا۔لہذا دنیا حاصل
کر لے گا۔
ان احادیث اور فرامین پر غور کریں تو ایسے حالات و واقعات کی
طرف بار بار اشارات بتائے گئے ہیں کہ گویا خود کو سمیٹ لو اور آخرت کی تیاری
کرلو۔ یہ علامت بھی پورے زور پر دکھائی دے
رہی ہے۔
لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ ان کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ وہ
کہاں استعمال کریں اور دوسری طرف اس قدر مفلسی، بے چارگی، غربت، تنگی دکھائی دے
رہی ہے کہ لوگوں روٹی تک میسر نہیں زندگی
گزارنا محال ہوگیا ہے۔ اخراجات کے ڈر سے لوگ خودکشی، جرائم ، دہشت گردی، ڈاکہ
زنی، کے راستے پر چلنے پر مجبور ہیں۔
احمق ابن احمق سے مراد نسل در نسل جہالت کی ایسی ترسیل جو
گمراہی کی عمیق گہرائیوں کی طرف دھکیلتی چلی جا رہی ہے۔ اور دوسرے لفظوں میں جہالت
کی لامتناہی سلسلہ جو تکلیف دہ مراحل کو جنم لیتا ہے۔ ایسے لوگ معاشرے میں
سراٹھا کر چلنا تو درکنار دوسروں کو کچل ڈالنے
میں سکون محسوس کرتے ہیں۔
آج کا حکومتی اور پارلیمانی نظام ہمارے سامنے ہے، سرکار ی نوکر محض اس غرض سے کام کرتے
دکھائی دیتے ہیں کہ اگلے الیکشن میں ہم کس
طرح جیتے گے اور اپنی نسل کو کس طرح پروان چڑھا سکتے ہیں۔ ان کو عوام سے کوئی غرض نہیں ، عوام کے سینوں پر قد م رکھ
کر آگے بڑھنے والے کبھی یہ نہیں سوچتے کہ روٹی کیسے کمائی جاسکتی ہے اور عوام کے
مسائل کیا ہیں ان کو کیا مشکلات درپیش ہیں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہم سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی
توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کے گناہ معاف فرمائے۔ آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔