google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 دھواں کا عذاب کیسا ہوگا؟ کافر اسے دیکھ کر کیا کہیں گے؟ - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

ہفتہ، 6 نومبر، 2021

دھواں کا عذاب کیسا ہوگا؟ کافر اسے دیکھ کر کیا کہیں گے؟

دھواں کا عذاب کیسا ہوگا؟ کافر اسے دیکھ کر کیا کہیں گے؟

دوستو!   اللہ رب العزت نے ہر قوم کو اس کے اعمال کے مطابق جزا وسزا دی ہے۔ عذاب کی نوعیت  مختلف ہو سکتی ہے ، اللہ نے بعض قوموں کو زمین سے تعلق رکھنے والے عذاب میں مبتلا کیا جیسے زمین کا دھنس جانا، خشک سالی وغیرہ، بعض کا تعلق لوگوں کی ذات سے ہے جیسے عورتوں کی کثرت اور مردوں کی قلت کا ہونا، جھوٹ کا پھیلنا،مختلف بیماریوں کا پھیلنا وغیرہ، کچھ کا تعلق انسانی اخلاقیات اور دائرہ اسلام سے ہے جیسے کہ زنا، سود، جوا، شراب اور قتل  وغیرہ، جبکہ بعض کا تعلق آسمانی عذاب سے ہے آسمان سےبجلی کا کثرت سے گرنا، بارشوں کی کمی یا زیادتی ہونا، سردی اور گرمی کا بڑھنا، زلزلہ اور سرخ آندھیوں کا چلنا، انہی بہت ساری نشانیوں میں سے ایک آسمانی نشانی دھواں (دخان) کا اٹھنا بھی ہے  جس کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن میں بیان فرمایا "تو آپ اس دن کا انتظار کیجئے جب آسمان صاف دھواں لائے گا، جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا(کہاجائےگا) یہ دردناک عذاب ہے۔ (کافر کہیں گے) اے ہمارے رب! ہم سے یہ عذاب ہٹا دے، بلاشبہ ہم ایمان لانے والے ہیں۔ ان کے لئے نصیحت کیونکر ہوگی جبکہ ان کے پاس ایک کھول کھول  کر بیان کرنے والا رسول آگیا "۔



دھواں  (دخان)  سے متعلق اہل علم کے مختلف مؤقف ہیں بعض کے نزدیک  اس دھواں سے مراد وہ دھواں ہے جو قریش کو شدت بھوک کی شکل میں اس وقت پہنچا جب اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ نے اک کے لئے دعوت کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے بددعا فرمائی تھی۔ وہ اپنی آنکھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر دیکھتے تو انھیں بھوک اور قحط کی وجہ سے دھوئیں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔(رسول اللہ نے جب بددعا فرمائی  کہ اللہ تعالیٰ  انھیں اسی طرح مصیبت میں ڈالے جس طرح اہل مصر کو مصیبت میں ڈالا گیا تھا، ان کے سات برس خشک سالی اور قحط میں گزرے حتی کہ بھوک اور افلاس کی شدت کے باعث وہ چمڑے اور مردار کھانے پر مجبور ہو گئے۔ ان میں سے جب کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک کے باعث اسے دھواں ہی دھواں نظر آتا)۔ جبکہ بعض کے نزدیک دھواں کی علامت گزر چکی ہے لیکن اکثریت کی رائے یہ ہے کہ دخان (دھواں) دو قسم کا ہے ایک آپ ﷺ کے زمانے میں ظاہر ہو چکا ہے اور دوسرا قرب قیامت  ظاہر ہو گا۔اور یقنناشدید ہوگا۔

ایک حدیث کے مطابق "جب دھوئیں کی علامت ظاہر ہوگی تو کفار کی سانسیں بند ہو جائیں گی جبکہ مومنوں پر اس سے صرف زکام جیسی کیفیت طاری ہوگی۔یہ سن کر حضرت ابن مسعود﷛غصے کی حالت میں سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا  لوگو! اللہ سے ڈرو، تم میں سے جسے کسی چیز کا علم ہو تو صرف اسے اپنے علم کے مطابق بیان کرے اور جسے کسی چیز کا علم نہ ہو وہ "اللہ اعلم" کہے۔

یک  روایت کے مطابق  پانچ چیزیں گزر چکی ہیں " اَللٌزام " وہ عذاب ہے  جو تکذیب کی صورت میں دیاگیا ہو۔ "الروم"رومی مغلوب ہوگئے، قریب ترین سرزمین (شام و فلسطین) میں اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد جلد غالب ہوں گے۔ "البطشۃالکبری"  سے مراد غزوہ بدر ہے   جبکہ "القمر"   چاند کے دو ٹکڑےہونے کی بات علامات صغریٰ جو پہلے میں اپنے آرٹیکل میں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں اور "الدخان" وہ دھواں جو قریش نے دیکھا تھا۔

ارشاد ربانی ہے " آپ اس   دن کے منتظر رہیں جب آسمان ظاہر دھواں لائے گا" یعنی اتنا نمایا ں ہوگا کہ ہر کوئی اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔ "اہل قریش کو بھوک اور افلاس کی شدت کے باعث مخص خیال ہوتا تھا کہ آسمان میں دھواں ہے لیکن وہ ان کا وہم تھا جبکہ یہ دھواں حقیقی ہوگا۔ یعنی وہ دھواں حقیقت میں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ جب یہ دھواں  انھیں پریشان کرے گا تو لوگوں سے کہا جائے گا کہ یہ درد ناک عذاب ہے۔

ایک دوسری روایت کے مطابق "آپ ﷺ نے فرمایا "بلاشبہ وہ  (قیامت) ہرگز قائم نہ ہوگی حتی کہ تم اس سے پہلے دس نشانیاں دیکھ لو۔۔۔۔۔۔ اور آپ نے دھو ئیں  اور دجال کا ذکرکیا۔۔

ایک اور مقام پر کچھ یوں بیان فرمایا "چھ چیزوں کے واقع ہونے سے پہلے پہلے نیک اعمال میں جلدی کر لو: سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، یا دھوئیں کا ظاہر ہونا، یا دجال کا ظاہر ہونا، یا خروج دابہ یا تم میں کسی کا خاص وقت (موت)  آجانا، یا سب کے لئے واقع ہونے والا معاملہ (قیامت ) کا قائم ہو جانا"۔

ایک اور حدیث کے الفاظ حضرت عبداللہ بن ابی سے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں ایک دن حضرت ابن عباس ﷛ کے پاس گیا تو انھوں نے کہا: میں رات بھر سو نہیں سکا حتی کہ صبح ہوگئی  میں نے پوچھا کس لئے؟ کہنے لگے : لوگوں نے بتلایا ہے کہ دم دار ستارہ طلوع ہو چکا ہے، مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں دھواں نہ آپہنچا  ہو، اسی خیال سے میں پوری رات نہ سو سکا"۔

اس حدیث سے واضح ہے کہ صحابہ کرام  کو کس قدر خوف تھا قیامت  کا، کہ وہ ساری ساری رات موت کے خوف سے ڈر کے زندگی گزارتے تھے اور ایک ہم ہیں کہ جسے موت تو دور کی بات ہے قیامت کی یہ نشانیاں محض قصے اور کہانیاں معلوم ہوتی ہیں۔ تبھی تو سوشل میڈیا پر دین کا مذاق اڑاتے ہوئے لوگ دکھائی دیتے ہیں ، چند دن پہلے 12 ربیع الاول کے دن لوگوں نے بدعت کے نام سے اتنی تبدیلیاں شروع کردی۔کہ  خدا خوفی تو درکنار شریعت محمدیہ سے ہی انکار  کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ گویا نعوذ باللہ اللہ نے دین مکمل ہی نہیں بھیجا یہ لوگ دین کو پورا کرنے میں لگے۔ اللہ رب العزت سے استدعا ہے کہ وہ ہمارے گناہوں اور خطاؤں  کو معاف فرما دے۔ اور ہمیں ہدایت نصیب فرما دے۔ ہمارے جو کام ہیں وہ معافی کے لائق تو نہیں لیکن پھر بھی اللہ سے معافی مانگتے ہیں کہ وہ دین پر چلنے اور درست طریقے سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔آمین

 

8 تبصرے:

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو