//gloorsie.com/4/6955992 //woafoame.net/4/6956026 //zeekaihu.net/4/6906862 قرب قیامت بیت المقدس آباد اور مدینہ منورہ برباد کیوں ہو جائے گا؟

قرب قیامت بیت المقدس آباد اور مدینہ منورہ برباد کیوں ہو جائے گا؟

قرب قیامت بیت المقدس آباد اور مدینہ منورہ برباد کیوں ہو جائے گا؟

 

دوستو! عربوں کی ہلاکت کے بارے میں کئی آرٹیکل آپ کی نظر کر چکا ہوں۔ کہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اہل عرب میں فتنے ظاہر ہونگے، کہیں فرمایا اونچی عمارات بنائیں گے، کہیں چراگاہوں کا ذکر ملتا ہے تو کہیں جنگ و جدل کا، غرض یہ کہ قیامت ہمارے اپنے اعمالوں کا نتیجہ ہوگا ۔ یہود ونصاریٰ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔اور ان کا ساتھ دینے کے لئے ہمارے نام نہاد لبرل، سیکولر اور مغربی سوج بوجھ کے مالک  بڑے ذوق وشوق سے گلہ کاٹنے کا عملی جامہ پہنانے میں سرگرم ہیں۔ یہ لوگ چند ڈالروں کے عوض مسلمانوں کو گمنامی اور احساس کمتری کے اندھیرے کنویں میں دھکیلتے جارہے ہیں۔ اور ہمارے کمزور ایمان ، اور عیش وعشرت کی پیداوار نسل یہ ثواب سمجھ کر کرنے میں مصروف عمل ہے۔

آج جو کچھ فلسطین کی سرزمین پر ہورہا ہے اس کے پیچھے کیا سازش ہے جو ہم نہیں سمجھ پارہے کیونکہ پاکستان سمیت دینا کے تمام مسلم ممالک خاموش ہیں کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ ان کے ملک کا مسئلہ ہے ہمارا نہیں۔ اگر ہم کچھ کریں گے تو ہمارے مغربی آقا ناراض ہو جائیں گے۔ہمارے کاروبار کا کیا ہوگا،  ہمارے نزدیک  اہل مغرب زیادہ مقدم ہیں بانسبت احکامات خداوندی کے (نعوذباللہ) کیونکہ جس دن اہل یہود نے بطور ایک قوم  یہ فیصلہ کیا تھا کہ تم دنیا کے کسی بھی کونے میں آباد کیوں نہ ہو جاؤ یاد رکھو ہم سب ایک خدا، ایک شریعیت اور ایک مقدس تورات کی بنیاد پر ایک مٹھی کی مانند ہیں۔ اور اس بات پر ڈٹ جاؤ اور مکمل ایمان رکھو کہ ایک دن تم میں سے ہر ایک نے ارض مقدس لوٹ کر واپس آنا ہے۔ وہی جگہ جہاں ان کا مسیحا دجال آئےگا اور وہ اس کرہ ارض پر ایسی حکومت قائم کرے گا جیسی حضرت سلیمان اور داؤد ؑ کی ہوا کرتی تھی۔ اسی عزم اور یقین کامل کے ساتھ وہ مسلسل تیاری کرتے چلے جارہے ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ مسلمان ہم سے ایک بڑی جنگ لڑیں گے لہذا ان کو اس عیاشی کی زندگی میں دھکیل دو تاکہ یہ ہم تک لڑنے سے پہلے سو بار سوچیں۔



یہودیوں کا یہ حلف نامہ اس قوم کے اندر اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ ان کا ادنی ٰ سا بندہ بھی مسلمانوں پر اتنا بھاری دکھائی دیتا ہے۔ اور مسلمان اس قدر کمزور اور بھٹکا ہوا گمراہی کا شکار دکھائی دے رہا ہے۔ امت مسلمہ کی خاموشی اس کی بہادری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تبھی تو دوست کے بھیس میں دشمن ہم پہچان ہی نہیں رہے۔اسی لئے ہر قسم کی  غلاظت ، بدتہذیبی ، قتل وغارت، چوری ڈکتی،زناکاری، عدل و انصاف ، حق تلفی ، شراور فسادات، بت پرستی، تعویزات، اکابرپرستی، دکھلاوا، ہمارے ہی ممالک میں پائی جارہی ہے۔ ہمارا چھپا دشمن مسلسل چال پر چال چلتا دکھائی دے رہا ہے۔کبھی قادیانیوں کا جھوٹا نبی ظاہر ہوجاتا ہے، کبھی نام نہاد سکالر ٹی وی پر آکر مذہبی تبلیغ کرکے گمراہ کرتا ہے، کبھی پیروں اور فقیروں کے بھیس بدل لیتا ہے، کبھی بھوک کے عوض عزتوں کو پامال کرنے میں مشغول دکھائی دیتا ہے، کبھی سیاسی سرگرمیوں میں دکھائی دیتا ہے، کبھی پراجیکٹس کی صورت میں یہ مصروفِ عمل دکھائی دیتے ہیں، غرض یہ کہ اپنے مشن کو سرانجام دینے کے  لئے  یہ ہمارے گھروں کے اندر گھس  چکے ہیں اور ہم کچھ بھی نہیں کرتے ہیں۔

دشمن تو پچھلے کئی سو سالوں سے اپنی عالمی جنگ لڑنے کے لئے مسلسل تیاری کررہا ہے یہاں تک کہ وہ اس جگہ پہنچ چکا ہے جہاں اس نے اپنا اور تیز کر دیا ہے ۔ وہ  اچھی طرح جانتا ہے کہ مسلمانوں کی کمزوری کیا ہے لہذا اس نے سعودیہ عربیہ میں سنیما گھر، شراب اور شباب کی محفلوں کا اہتمام، جوا خانہ جو کبھی اہل مغرب کیا کرتے تھے آج انہوں نے اپنے گلاسے اتار کر ڈھول مسلمانوں کے گلے میں پہنا دیا ہے۔ اور اپنے مشن کو مزید تقویت بخش رہے ہیں۔ کیو  ں کہ انہیں ایک ایسی سلطنت قائم کرنی ہے جو دریائے فرات کے ساحلوں تک اس طرح پھیلی ہوگی جس میں شام، قطر، اردن، بحرین، کویت ، یمن اور مدینہ منورہ تک کی حدود ہوگی۔ اور اسی مشن کو پورا کرنے کے لئے ایک سٹی بن چکا ہے جس کا نام Neom   ہے۔

یہودی پوری طرح سے تیار ہیں اور جانتے ہیں کہ کب اور کس وقت حملہ آور ہونا ہے۔ دنیا  کے ہر کونے سے یہودی اپنی کمائی کا زیادہ تر حصہ اسرائیل کو دیتا ہے اور اسرائیل ان سے اسلحہ کا کاروبار کرتا ہے۔پہلے عراق، شام اور دیگر ممالک وہ اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔جہاں جہاں وہ جارہا ہے ان ممالک میں امن بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔یوں سمجھ لیں کہ مشرق وسطیٰ میں امن نام کا کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ ہم سمجھ ہی نہیں پارہے کہ ان سے دوستی نبھانی ہے یا دشمنی نبھانی ہے۔وہ ہمارے ملک میں بیٹھ کر دہشت گردی کرتا ہے اور سرعام لوگوں کو مار کر چلاجاتا ہے اور ہم دوستی کے چکر میں خاموشی اختیار کرنے کو بہتر سمجھتے ہیں۔کیونکہ ہم یہ بھول چکے ہیں کہ بربادی اور موت ہمارے سروں پر ناچ رہی ہے۔ یاد رہے دجال اسی صورت نمودار ہوگا جب منبر پر اس کا ذکر نہیں کیا جائے گا۔ یعنی لوگ پوری طرح سے فراموش کر چکے ہونگے۔

ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا " بیت المقدس کی آبادی دراصل مدینہ کی بربادی ہوگی، مدینہ کی بربادی ہوئی تو عظیم معرکہ شروع ہو جائے گا، وہ معرکہ شروع ہوا تو قسطنطنیہ فتح ہو جائےگا اور جب قسطنطنیہ فتح ہوگیا تو پھر جلد ہی دجال ظاہر ہو جائے گا۔ " یہ کہہ کر معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اس کی شخص کی ران یا کندھے پر مارا جسے حدیث نے بیان کر رہے تھے اور فرمایا" یہ بات اسی طرح برحق ہے، جس طرح تمھاری یہاں موجودگی اٹل ہے۔

یثرب مدینہ منورہ کا پرانا نام ہے ۔ مدینہ کی بربادی سے مراد اس کا اپنے باشندوں اور زائرین سے خالی ہو جانا ہے۔ جیسے کہ ایک روایت میں ہے  کہ " عظیم جنگ، فتح قسطنطنیہ  اور خروج دجال ، یہ سب کچھ سات ماہ میں ہو جائےگا"۔

اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ نےجن واقعات کا ذکرفرمایا وہ کچھ اس ترتیب سے رونما ہونگے جیسا کہ پہلے بیت المقدس کی آبادی اور عمارتوں کی کثرت سے اس کی وسعت اور لوگوں کا اس شہر میں کثرت سے آباد ہو نا، پھر اس کے بعد مدینہ منورہ کا برباد ہونا، یعنی لوگوں کا مدینہ میں رہائش اختیار کرنے سے گریز کرنا اور مدینہ میں جدید تعمیرات کا سلسلہ رک جانا، یہ تمام چیزیں آج مدینہ میں ظاہر ہو چکی ہیں۔ لوگ بتدریج وہاں کم ہو رہے ہیں اور آبادی میں اضافے کا سلسلہ رک چکا ہے۔ مدینہ کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد آہستہ آہستہ وہاں سے دوسرے شہروں  کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔

ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے کچھ یوں ارشاد فرمایا " مدینہ منورہ کو عمدہ حالت میں چھوڑ دیا جائے گا حتی ٰ کہ نوبت یہ ہو جائے گی کہ ایک کتا یا بھیڑیا مسجد میں داخل ہو گا اور کسی ستون یا منبر پر پیشاب کرے گا۔ صحابہ نے عرض کی" اللہ کے رسول ! یہ فرمائیے کہ اس زمانے میں مدینے کے پھل کس کے کام آئیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پرندے اور درندے ان پھلوں کو کھائیں گے۔

بیت المقدس کی آبادی کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آخری زمانے میں خلافت وہاں منتقل ہو جائے گی۔جیسا کہ ایک حدیث میں صحابہ سے  روایت ہے کہ"آپ ﷺ نے ہمیں روزانہ فرمایا تاکہ ہم وہاں مال غنیمت حاصل کر سکیں لیکن ہم وہاں سے کوئی مال حاصل کیے بغیر ہی لوٹ آئے البتہ تھکن اور مشقت ہمارے چہروں سے عیاں تھی۔ آپ ﷺ ہماری حالت زار دیکھ کر ہمارے درمیان کھڑے ہو گئے اور یہ دعا فرمائی:

اے اللہ ! انھیں میرے حوالے نہ فرمانا کہ میں ان کی کفالت نہ کر سکوں اور نہ ہی انھیں ان کے نفسوں کے سپرد فرمانا کہ یہ عاجز ہوجائیں اور نہ انھیں لوگوں کے حوالے کرنا کہ وہ دوسروں کو ان پر ترجیح دیں، پھر آپ ﷺ نے میرے سر پر اپنا دست مبارک رکھا۔ یا انھوں نے یہ کہا کہ میری کھوپڑی پر اپنا ہاتھ رکھا۔ اور فرمایا " اے ابن حوالہ ! جب تم یہ دیکھو کہ خلافت ارض مقدس میں منتقل ہو جائے تو اس وقت زلزلے، پریشانیاں اور بڑی مصیبتیں  قریب آجائیں گی۔ اس دن قیامت اس سے بھی زیادہ نزدیک ہوگی جتنا یہ میرا ہاتھ تمھارے سر سے قریب ہے"۔

  

2/Post a Comment/Comments

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔