google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے 3-عرس میلے منانا - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

جمعرات، 3 اکتوبر، 2024

دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے 3-عرس میلے منانا



عرس میلے منانا دراصل کسی بزرگ یا ولی اللہ کے سالانہ وفات کی یاد میں منعقد کیا جانے والا مذہبی اور ثقافتی اجتماع ہے۔ اس موقع پر لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں، قرآن خوانی، نعت خوانی، اور خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں۔ عموماً عرس میں میلے جیسا ماحول ہوتا ہے جہاں مختلف اسٹالز لگائے جاتے ہیں، کھانا تقسیم کیا جاتا ہے اور لوگ اولیاء کرام کے مزارات پر جا کر فاتحہ خوانی اور نذریں پیش کرتے ہیں۔

 

عرس میلے منانا ایک بدعت ہے۔ بدعت ہر وہ نیا عمل ہے جو دین میں شامل کیا جائے لیکن اس کی اصل نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں نہ ہو۔ نبی ﷺ نے فرمایا:  "جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز نکالی جو اس میں سے نہیں تھی، وہ مردود ہے"عرس اور مزارات پر جانے کی کوئی تعلیمات اسلام میں موجود نہیں ہیں، بلکہ یہ عمل اسلام کے سادہ اصولوں کے خلاف ہے۔ صحابہ کرام یا تابعین نے کبھی کسی کی وفات کا جشن نہیں منایا اور نہ ہی اس کے لیے خصوصی میلوں کا انعقاد کیا۔


بدعت کا مطلب ہے دین میں کسی ایسے نئے عمل یا رسم کو شامل کرنا جس کی بنیاد قرآن یا سنت میں موجود نہ ہو۔ نبی کریم ﷺ نے ہر بدعت کو گمراہی قرار دیا:"ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم کی طرف لے جاتی ہے"عرس منانے کا رواج دین اسلام میں شامل نہیں تھا اور یہ مختلف غیر اسلامی معاشرتی اور ثقافتی اثرات کا نتیجہ ہے۔

 

بعض علماء اور مولوی حضرات نے عوام کے عقیدوں اور جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے عرس کے موقع پر کھانے پینے اور دیگر سرگرمیوں کو فروغ دیا ہے۔ اس سے دین کے اصل مقاصد اور سادگی کو نقصان پہنچا ہے، اور عرس منانے کا مقصد ایک مذہبی تقریب سے زیادہ ایک ثقافتی میلہ بن گیا ہے۔ مولوی حضرات اکثر اس رسم کو جاری رکھنے میں لوگوں کی مددکرتے ہیں تاکہ وہ معاشرتی دباؤ یا روایتی عقائد کی تسکین کے لیے اس میں شامل ہو سکیں۔

 

عرس منانے کی ابتداء کا اصل تعلق صوفی سلسلوں سے ہے جو برصغیر پاک و ہند میں پھیلے۔ یہ رسم صوفیاء کے بعد ان کے مریدین نے شروع کی تاکہ اپنے پیر کی یاد کو زندہ رکھ سکیں۔ اس کا رواج اسلام کے ابتدائی دور میں موجود نہ تھا اور بعد میں غیر اسلامی روایات سے متاثر ہو کر اسے مسلمانوں کے معاشرتی کلچر کا حصہ بنا دیا گیا۔

 

دورِ جاہلیت میں عرس میلے منانے کا رواج موجود نہ تھا، لیکن اس دور میں لوگ اپنے مرنے والوں کو یاد کرنے کے لیے مختلف رسوم اپناتے تھے، جیسے قبروں پر جشن منانا یا اپنے معزز افراد کے لیے خصوصی تقریبات منعقد کرنا۔ اسلام نے ان غیر شرعی رسوم کو ختم کیا اور لوگوں کو مرنے والے کے لیے صرف دعا اور ایصال ثواب کا حکم دیا۔

 

دیگر مذاہب میں بھی عرس جیسے رسوم کا تصور موجود ہے۔ ہندو دھرم میں مذہبی شخصیات یا دیوتاؤں کے نام پر میلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جہاں مختلف مذہبی اور ثقافتی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ اسی طرح عیسائیت میں بھی اولیاء کے نام پر تقریبات منائی جاتی ہیں، اور ان کی قبروں پر جانا اور دعائیں کرنا عام رواج ہے۔ یہ روایات مسلمانوں میں بھی غیر اسلامی اثرات کے نتیجے میں عرس کی صورت میں داخل ہوئیں۔

 

اسلام میں عرس میلے منانے کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ دین کی سادگی کو اپنانے اور غیر ضروری رسوم سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ قبروں پر جانا، انہیں پوجنا، یا مرنے والوں کے نام پر میلے منعقد کرنا اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔ عرس منانے کا عمل بدعت ہے، اور جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:"جو بدعت گمراہی کی طرف لے جائے، وہ جہنم کا راستہ ہے"عرس جیسے اعمال مسلمانوں کو توحید کی اصل روح سے دور کرتے ہیں اور انہیں شرک کی طرف لے جاتے ہیں۔

 

صحابہ کرام کی زندگی میں ہمیں عرس منانے کا کوئی تصور نہیں ملتا۔ صحابہ کرام نبی کریم ﷺ اور دیگر افراد کی وفات کے بعد ان کے لیے دعا اور صدقہ و خیرات کرتے تھے، لیکن وہ کبھی بھی مزارات پر نہیں گئے اور نہ ہی کسی کی وفات کا جشن منایا۔ ان کا طریقہ ہمیشہ قرآن و سنت کے مطابق تھا۔

 

ائمہ کرام جیسے امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک عرس منانے کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ ان کے مطابق دین میں بدعتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اور ہمیں صرف انہی اعمال کی پیروی کرنی چاہیے جو قرآن و سنت سے ثابت ہوں۔ ائمہ کرام نے ہمیشہ لوگوں کو بدعات سے بچنے کی تلقین کی ہے۔

 

پاکستان میں عرس منانے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس سے لوگوں کے عقائد اور دین کی سمجھ میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ اس رسم نے دین کو سادگی سے نکال کر ایک پیچیدہ اور ثقافتی میلے میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں لوگ خرافات اور شرک کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ عرس کے نام پر فضول خرچی، وقت کا ضیاع اور غیر شرعی سرگرمیاں عام ہو گئی ہیں، جس سے دین کی پاکیزگی اور عقائد کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

پاکستان میں ہر سال مختلف صوفیاء اور اولیاء کرام کے مزارات پر بڑے پیمانے پر عرس منایا جاتا ہے۔ یہ عرس مذہبی اور ثقافتی اجتماعات ہوتے ہیں جہاں لوگ عقیدت کے ساتھ شرکت کرتے ہیں۔ یہاں پاکستان کے مشہور مزارات اور ان پر منائے جانے والے عرس کی تفصیل دی گئی ہے:

 

داتا گنج بخشؒ (لاہور)

عرس کی تاریخ: صفر کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔

   مختصر تعارف: حضرت علی بن عثمان الہجویری، المعروف داتا گنج بخشؒ، لاہور کے مشہور صوفی بزرگ ہیں۔ ان کا مزار لاہور میں ہے اور ہر سال ان کے عرس میں لاکھوں زائرین شرکت کرتے ہیں۔

حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ (پاکپتن)

عرس کی تاریخ: محرم کے مہینے میں ہوتا ہے۔

مختصر تعارف: حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ پاکپتن شریف کے معروف صوفی بزرگ ہیں۔ ان کا عرس انتہائی عقیدت کے ساتھ منایا جاتا ہے اور ہزاروں عقیدت مند اس میں شریک ہوتے ہیں۔

 

حضرت شاہ رکن عالمؒ (ملتان)

عرس کی تاریخ: جمادی الثانی کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔

   مختصر تعارف: حضرت شاہ رکن عالمؒ جنوبی پنجاب کے شہر ملتان میں مدفون ہیں۔ ان کا عرس سالانہ بنیاد پر منایا جاتا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد مزار پر حاضری دیتی ہے۔

حضرت لال شہباز قلندرؒ (سہون شریف)

عرس کی تاریخ: شعبان کے مہینے میں ہوتا ہے۔

مختصر تعارف: حضرت لال شہباز قلندرؒ سندھ کے شہر سہون میں مدفون ہیں۔ ان کا عرس سندھ کا سب سے بڑا صوفی اجتماع ہوتا ہے، جہاں ملک بھر سے لوگ شریک ہوتے ہیں۔

حضرت عبد اللہ شاہ غازیؒ (کراچی)

   عرس کی تاریخ: ذوالحجہ کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔

مختصر تعارف: حضرت عبد اللہ شاہ غازیؒ کراچی کے معروف صوفی بزرگ ہیں۔ ان کا مزار کراچی میں واقع ہے اور ہر سال وہاں عرس کی تقریب منعقد کی جاتی ہے۔

حضرت بری امامؒ (اسلام آباد)

عرس کی تاریخ: رمضان المبارک میں عرس منایا جاتا ہے۔

   مختصر تعارف: حضرت بری امامؒ اسلام آباد کے نواح میں مدفون ہیں۔ ان کا عرس سالانہ بنیاد پر بڑی تعداد میں زائرین کو جمع کرتا ہے۔

حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ (بھٹ شاہ)

عرس کی تاریخ: صفر کے مہینے میں ہوتا ہے۔

مختصر تعارف: حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ سندھ کے مشہور صوفی شاعر اور بزرگ ہیں۔ ان کا عرس بھٹ شاہ میں منایا جاتا ہے اور لوگ وہاں پہنچ کر ان کی تعلیمات سے مستفید ہوتے ہیں۔

حضرت سچل سرمستؒ (خیرپور)

   عرس کی تاریخ: رمضان المبارک میں ہوتا ہے۔

مختصر تعارف: حضرت سچل سرمستؒ ایک عظیم صوفی شاعر اور بزرگ تھے۔ ان کا مزار خیرپور میں ہے اور ہر سال ان کے عرس کے موقع پر عقیدت مندوں کی بڑی تعداد جمع ہوتی ہے۔

حضرت بہاؤ الدین زکریاؒ (ملتان)

   عرس کی تاریخ: صفر کے مہینے میں ہوتا ہے۔

مختصر تعارف: حضرت بہاؤ الدین زکریاؒ ملتان کے مشہور صوفی بزرگ ہیں۔ ان کا عرس بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے۔

حضرت شاہ حسینؒ (لاہور)

عرس کی تاریخ: ربیع الاول میں منایا جاتا ہے۔

مختصر تعارف: حضرت شاہ حسینؒ، لاہور کے ایک مشہور صوفی شاعر تھے۔ ان کا مزار لاہور میں ہے اور ان کا عرس "مادھو لال حسین کا میلہ" کہلاتا ہے۔

حضرت پیر مکیؒ (لاہور)

عرس کی تاریخ: ربیع الاول کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔

مختصر تعارف: حضرت پیر مکیؒ لاہور کے معروف صوفی بزرگ ہیں۔ ان کا مزار لاہور میں واقع ہے، اور عرس میں ہزاروں زائرین شریک ہوتے ہیں۔

حضرت سیدہ بی بی پاک دامنؒ (لاہور)

عرس کی تاریخ: عموماً محرم یا ربیع الاول میں منایا جاتا ہے۔

مختصر تعارف: لاہور میں حضرت بی بی پاک دامن کا مزار مشہور ہے، اور وہاں ان کا عرس منایا جاتا ہے۔

 

حضرت پیر کرم علی شاہؒ (گولڑہ شریف)

عرس کی تاریخ: ربیع الثانی کے مہینے میں ہوتا ہے۔

مختصر تعارف: حضرت پیر کرم علی شاہ گولڑہ شریف میں مدفون ہیں، اور ان کا عرس ہر سال بڑی عقیدت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

 

یاد رہے! ان مزارات پر جو سرگرمیاں ہوتی ہیں چاہے اس کا تعلق نذونیاز سے ہو، منتیں مرادوں سے ہو غرض یہ کہ کچھ بھی ارداہ ہو وہ سب شرک کے زمرے میں آتے ہیں جنکا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان میں ان کے علاوہ بھی متعدد صوفی بزرگوں کے مزارات پر ہر سال عرس منایا جاتا ہے، جن میں ہزاروں زائرین شرکت کرتے ہیں۔ یہ اجتماعات مذہبی اور ثقافتی رنگ کے حامل ہوتے ہیں، جہاں مذہبی رسومات کے ساتھ ساتھ سماجی اور معاشرتی سرگرمیاں بھی جاری رہتی ہیں۔

اس گناہ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن و سنت کی تعلیمات پر سختی سے عمل کریں اور ان بدعات سے خود کو دور رکھیں۔ علماء کرام کو عوام کو صحیح تعلیمات فراہم کرنی چاہئیں، تاکہ لوگ بدعات اور شرک سے بچ سکیں۔ مرنے والوں کے لیے دعا کرنا اور ایصالِ ثواب کے نیک اعمال کرنا ہی درست طریقہ ہے، اور ہمیں عرس اور دیگر غیر اسلامی رسوم سے اجتناب کرنا چاہیے۔

 

مزید آرٹیکل پڑھنے کے لئے ویب سائٹ وزٹ کریں۔

جوا کھیلنا، بیوی کو خاوندکے خلاف بھڑکانا،  لعنت کرنا، احسان جتلانا، دیوث بننا، میلاد منانا، حلالہ کرنا یا کروانا،  ہم جنس پرستی

جاندار کو آگ میں جلانا، پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا، سود کھانا، ظلم کرنا، رشوت لینا یا دینا،زنا کرنا 

  

1 تبصرہ:

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو