google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے -31 بچوں کے نام رکھنے کے لئے مخصوص دنوں کا انتخاب - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

اتوار، 17 نومبر، 2024

دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے -31 بچوں کے نام رکھنے کے لئے مخصوص دنوں کا انتخاب




اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر پہلو میں انسان کو ہدایت فراہم کرتا ہے۔ بچوں کے نام رکھنے کے لیے مخصوص دنوں کا انتخاب اور پیر صاحب کی اجازت کو لازم سمجھنا ایک ایسی بدعت ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ذکر نہیں۔ یہ مضمون اس موضوع پر قرآن و حدیث، فقہی اقوال، اور مختلف مذاہب کے نقطہ نظر پر روشنی ڈالتا ہے۔

  

بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بچے کا نام رکھنے کے لیے کسی مخصوص دن (مثلاً جمعرات، جمعہ، عید، یا کسی خاص پیر کے دن) کا انتظار کرنا ضروری ہے۔ بعض اوقات یہ عمل پیر صاحب یا کسی روحانی شخصیت کی اجازت سے مشروط ہوتا ہے۔ یہ تصور اسلامی تعلیمات کے برخلاف ہے، کیونکہ اسلام میں نام رکھنے کی کوئی دن یا وقت کی قید نہیں ہے۔

 

 دورِ جاہلیت میں لوگ ستاروں کی گردش اور نجومیوں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے بچے کے نام یا کسی اہم کام کے لیے وقت مقرر کرتے تھے۔ 

جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:   "اور تمہارے لیے ستاروں کو اس لیے بنایا کہ تم ان کے ذریعے راستے معلوم کرو۔"

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:   "جو شخص کسی نجومی کے پاس جائے اور اس سے کچھ پوچھے، تو اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہوتی۔" یہ عمل جاہلیت کے دور کی باقیات ہیں جو توحید کے منافی ہیں۔

 

جنوبی ایشیائی ممالک میں یہ رجحان بہت عام ہے کہ نام رکھنے کے لیے مخصوص دن یا پیر صاحب کی اجازت کا انتظار کیا جاتا ہے۔اس بدعت سے معاشرے پر بہت ہی  برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جیسا کہ:

1. توحید کی پامالی: اللہ پر بھروسے کی بجائے انسانوں اور توہمات پر انحصار بڑھ جاتا ہے۔ 

2. وقت کا ضیاع: بچوں کے نام رکھنے میں غیر ضروری تاخیر ہوتی ہے۔ 

3. معاشرتی بگاڑ: پیر پرستی اور بدعات کو فروغ ملتا ہے۔ 

4. مالی استحصال: پیر حضرات اس عمل کے بدلے مالی فائدہ اٹھاتے ہیں۔

 

اس بدعت کا دیگر مذاہب عالم میں کیا  تصور اور رجحان ہے  جیساکہ:

 زرتشت:  زرتشتی مذہب میں ستاروں اور سیاروں کی گردش کو اہمیت دی جاتی ہے، اور اکثر اہم فیصلے انہی کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ 

 ہندومت:  ہندو دھرم میں نام رکھنے کی تقریب (نام کرن) کے لیے مخصوص دن اور مہورت کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ 

 بدھ مت:  بدھ مت میں بھی ستاروں اور دنوں کی گردش کو اہمیت دی جاتی ہے، اور اسی کے مطابق تقاریب کا انعقاد ہوتا ہے۔ 

 یہودیت:  یہودی مذہب میں بچے کا نام پیدائش کے آٹھویں دن ختنہ کی تقریب کے دوران رکھا جاتا ہے۔ 

 عیسائیت:  عیسائیت میں بچے کے بپتسمہ (Baptism) کے دن نام رکھا جاتا ہے، جو ایک مذہبی روایت ہے۔

 

یہ بدعت زیادہ تر جنوبی ایشیاء اور دیگر ثقافتی طور پر متاثرہ علاقوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کا آغاز جاہلانہ رسوم و رواج سے ہوا، جو بعد میں تصوف کے کچھ حلقوں میں شامل ہو گئیں۔ پیر حضرات کے ذریعے نام رکھنے کا رجحان برصغیر میں زیادہ عام ہوا۔یہ عقیدہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پیر صاحب کو اللہ کے مقابلے میں غیر ضروری اختیار دیا جا رہا ہے، جو کہ شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:   "سب سے اچھے نام وہ ہیں جو عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہوں۔" یہ واضح کرتا ہے کہ نام رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے، نہ کہ کسی پیر یا روحانی شخصیت کی۔

 

ائمہ اربعہ کے نزدیک بچے کا نام رکھنے کے لیے کسی دن یا وقت کی قید نہیں ہے۔ نام رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے، اور انہیں چاہیے کہ وہ اچھے اور اسلامی ناموں کا انتخاب کریں۔ 

 

  مختلف مسالک میں اس بدعت کے ماننے والوں   کے لئے احکامات بہت واضح ہیں یہ اور بات ہے کہ ہم کبھی ان تعلیمات کی پیروی نہیں کرتے ماسوائے باقی سارے کاموں کے ۔

 مسلک بریلوی:  کچھ بریلوی افراد پیر صاحب کی مشورے پر نام رکھتے ہیں، لیکن اعتدال پسند علماء اس عمل کی مخالفت کرتے ہیں۔ 

 مسلک اہل حدیث:  اہل حدیث علماء اس عمل کو بدعت قرار دیتے ہیں اور اس سے منع کرتے ہیں۔ 

 مسلک دیوبندی:  دیوبندی علماء اس عمل کو شرک اور غیر اسلامی تصور کرتے ہیں۔ 

 مسلک اہل تشیع:  اہل تشیع میں نام رکھنے کے لیے دن یا وقت کی قید نہیں ہے، لیکن بعض مقامات پر روحانی شخصیات کی مشاورت کا رجحان پایا جاتا ہے۔ 

 مسلک ندوی:  ندوی علماء اس عمل کو غیر اسلامی اور ناقابل قبول سمجھتے ہیں۔ 

 مسلک احمدی:  احمدی جماعت بھی اس عمل کو غیر ضروری اور بدعت سمجھتی ہے۔

 

اسلام میں نام رکھنے کے لیے کسی خاص دن یا شخصیت کی اجازت کی شرط نہیں ہے۔  جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:   "اور ہم نے تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔"

 اسی طرح نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:   "بچے کا نام پیدائش کے ساتویں دن رکھو اور اسی دن اس کا عقیقہ کرو۔"

 

بحثیت مسلمان ہم  اس گناہ سے کیسے بچیں؟  اور دوسروں کو کیسے بچائیں کیونکہ شرک اور بدعت دیمک کی طرح دین کی جڑوں کو کھوکھلا  کررہے ہیں۔ ہم چاہیے کہ :

1. علم دین حاصل کریں: والدین کو دین کی صحیح تعلیمات سیکھنی چاہئیں۔ 

2. توحید کی پابندی: اللہ پر مکمل بھروسہ رکھیں۔ 

3. علماء سے مشاورت: بدعتوں کے بارے میں علماء سے رہنمائی لیں۔ 

4. ثقافتی اثرات سے بچیں: معاشرتی دباؤ کو دین پر فوقیت نہ دیں۔ 

5. قرآنی ناموں کا انتخاب: بچوں کے لیے اچھے اور اسلامی نام منتخب کریں۔ 

بچوں کے نام رکھنے کے لیے مخصوص دنوں کا انتخاب اور پیر کی اجازت کا انتظار ایک غیر اسلامی بدعت ہے۔ اسلام نے والدین کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اچھے اور بامعنی نام رکھیں، بغیر کسی دن، وقت یا شخصیت کی اجازت کے۔ ہمیں اس بدعت سے بچنا چاہیے اور دین کی اصل تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے۔  



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو