google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے -32 کھانے پینے کی اشیاء کو مخصوص دنوں میں تقسیم کرنا - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

پیر، 18 نومبر، 2024

دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے -32 کھانے پینے کی اشیاء کو مخصوص دنوں میں تقسیم کرنا



کھانے پینے کی اشیاء کو مخصوص دنوں میں تقسیم کرنا یا انہیں پیر صاحب یا کسی روحانی شخصیت سے دم کرانے کے بعد تقسیم کرنا ایک غیر اسلامی عمل ہے، جسے بدعت کہا جاتا ہے۔ اس عمل میں عام طور پر کھانے کو کسی مخصوص دن (جیسے جمعرات، پیر یا کسی ولی کی برسی) کے لیے مختص کیا جاتا ہے اور اس پر دم یا دعا کے بغیر تقسیم کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ 

 

دور جاہلیت میں مشرکین مخصوص دنوں اور مہینوں کو اپنے بتوں کے نام منسوب کرتے تھے اور کھانے پینے کی اشیاء کو ان بتوں کے لیے وقف کرتے تھے۔  جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:   "اور وہ اللہ کے لیے اسی چیز کو مقرر کرتے ہیں جو خود انہوں نے کھیتی اور مویشیوں میں سے پیدا کیں، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے لیے ہے اور یہ ہمارے شریکوں کے لیے۔"

 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:   "جو کوئی ایسا عمل کرے جس کا حکم ہم نے نہیں دیا، وہ رد کیا جائے گا۔"

جنوبی ایشیائی ممالک (پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش) میں کھانے کو مخصوص دنوں میں تقسیم کرنا ایک عام روایت بن چکی ہے، خاص طور پر عرس، گیارہویں شریف، یا کسی پیر کی یاد میں۔  لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ جو کام وہ کر رہے ہیں یا ان سے کروایا جاتا ہے اس کام سے معاشرے پر کیا  برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔جیسا کہ: 

1. توحید کی پامالی: یہ عمل اللہ پر بھروسے کی بجائے لوگوں کو بدعات کی طرف مائل کرتا ہے۔ 

2. معاشرتی تقسیم: پیر پرستی اور طبقاتی فرقہ واریت کو فروغ ملتا ہے۔ 

3. وسائل کا ضیاع: معاشی وسائل غیر ضروری طور پر بدعات پر خرچ ہوتے ہیں۔ 

4. مالی استحصال: بعض پیر حضرات اس عمل کو مالی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ 

اس بدعات کی روایات اور تصور دنیا کے دیگر مذاہب میں نظر آتی ہے جیسا کہ :

 زرتشت:  زرتشتی مذہب میں کھانے پینے کی اشیاء کو آگ کی عبادت کے لیے وقف کرنے کی روایت ملتی ہے۔ 

 ہندومت:  ہندو دھرم میں پرساد کی تقسیم مخصوص دیوی دیوتاؤں کی عبادت کے بعد کی جاتی ہے۔ 

 بدھ مت:  بدھ مت میں بھی کھانے کو مخصوص مذہبی تقریبات کے دوران تقسیم کیا جاتا ہے۔ 

 یہودیت:  یہودی مذہب میں کھانے کو ربانی دعاؤں کے ساتھ برکت دی جاتی ہے، لیکن دن یا تاریخ کی سخت قید نہیں ہے۔ 

 عیسائیت:  عیسائیت میں بھی مقدس دنوں (جیسے ایسٹر یا کرسمس) پر کھانے کی تقسیم کا رواج ہے۔

 

کھانے کو مخصوص دنوں کے لیے مختص کرنے کی روایت جاہلیت کے دور سے شروع ہوئی اور مختلف معاشرتی و مذہبی اثرات کے تحت اسلامی دنیا میں بھی رواج پائی۔ جنوبی ایشیاء میں یہ بدعت زیادہ تر صوفی ازم کی غیر محتاط تعبیر سے جڑی ہوئی ہے۔  یہ عقیدہ دراصل روحانی شخصیت کو غیر ضروری اختیار دینے کے مترادف ہے، جو شرک کے قریب لے جاتا ہے۔ 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:   "برکت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، اور ہر وہ کام جو اللہ کے نام سے نہ کیا جائے، ناقص ہے۔" کھانے کو پیر یا کسی اور شخصیت کے دم پر منحصر کرنا ایک ایسی بدعت ہے جس کا دین میں کوئی ثبوت نہیں۔

 امام ابو حنیفہؒ:  مخصوص دنوں میں کھانے کی تقسیم کو غیر ضروری اور بدعت قرار دیا۔ 

 امام مالکؒ:  انہوں نے بدعت کو دین کے خالص اصولوں سے انحراف کہا۔ 

 امام شافعیؒ:  بدعات کو دین کے بنیادی اصولوں سے انحراف سمجھتے تھے۔ 

 امام احمد بن حنبلؒ:  انہوں نے کہا کہ ہر وہ عمل جو قرآن و سنت میں نہ ہو، اسے رد کر دیا جائے گا۔ 

 

 مختلف مسالک میں اس بدعت کا تصور  دیکھنے کو ملتا ہے جیسا کہ:

 مسلک بریلوی:  بعض بریلوی افراد مخصوص دنوں میں کھانے کی تقسیم کو روحانی عمل سمجھتے ہیں، لیکن معتدل علماء اس عمل کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔  لیکن جو حضرات اللہ کی توحید کی بجائے پیرعبدالقادر جیلانی کی پیروی کرتے ہیں وہ یہ عمل بخوبی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

 مسلک اہل حدیث:  اہل حدیث اس عمل کو بدعت اور غیر اسلامی تصور کرتے ہیں۔ 

 مسلک دیوبندی:  دیوبندی علماء اس عمل کو شرک کے قریب سمجھتے ہیں اور اس کی ممانعت کرتے ہیں۔ 

 مسلک اہل تشیع:  اہل تشیع میں بھی مخصوص دنوں پر کھانے کی تقسیم کی جاتی ہے، محرم الحرام کے مہینے میں یہ عمل بہت تیزی سے دکھائی دیتا ہے، جیسا کہ قبرستان  جانا، قبروں کی لپائی کروانا، قبروں پر پھول یا پتیاں پھینکنا، پانی کا چھڑکاؤ کرنا اور سبیل لگانا، نذرونیاز بنانا اور بانٹنا وغیرہ،لیکن یہ عمل متفقہ نہیں ہے۔ 

 مسلک ندوی:  ندوی علماء اس عمل کو غیر ضروری اور غیر شرعی سمجھتے ہیں۔ 

 مسلک احمدی:  احمدی جماعت بھی اس عمل کو دین کے خلاف سمجھتی ہے۔ 

 

اسلام میں کھانے کی تقسیم کو کسی دن یا شخصیت سے منسلک کرنے کا کوئی تصور نہیں۔  جیساکہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں "اللہ کی راہ میں خرچ کرو، لیکن اسراف نہ کرو۔" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:   "تم جو بھی خیرات کرو، وہ اللہ کی رضا کے لیے ہونی چاہیے۔"

 

روزِ معمورہ  معاشرے میں پھیلتی ہوئی بدعات  سے دین کی بنیاد مزید کھوکھلی ہوتی جارہی ہے۔ بحثیت مسلمان ہم سب کی ڈیوٹی ہے کہ غلط کو غلط کہیں  اور ہاتھ یا زبان سے روکنے کی کوشش کریں اگر ایسا نہیں کر سکتے تو کم از کم دل میں ہی برا جانیں کہ جو ہو رہا ہے وہ خالص دین نہیں ہے ۔یا دین کی تعلیمات نہیں ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب  مل کر توحید کی آواز بلند کریں۔ جیسا کہ:

 

1. توحید کی تعلیم: اللہ کی ذات پر مکمل یقین رکھیں۔ 

2. بدعتوں سے اجتناب: دین کی اصل تعلیمات پر عمل کریں۔ 

3. قرآنی رہنمائی: اللہ کی رضا کے لیے صدقات دیں، بغیر کسی بدعتی قید کے۔ 

4. علماء سے مشورہ: صحیح اسلامی تعلیمات کے لیے مستند علماء سے رجوع کریں۔ 

5. دوسروں کو تعلیم دیں: معاشرتی سطح پر بدعات کے نقصانات اجاگر کریں۔ 

 

کھانے پینے کی اشیاء کو مخصوص دنوں میں تقسیم کرنا یا پیر کی اجازت پر منحصر کرنا ایک غیر اسلامی بدعت ہے۔ اسلام سادگی، اخلاص، اور اللہ کی رضا کو ہر عمل کا محور بنانے کی تعلیم دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان بدعات سے اجتناب کریں اور دین کی اصل تعلیمات کو اپنائیں۔  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو