google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے – 33 درگاہوں پر عورتوں کی مخصوص حاضری - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

پیر، 2 دسمبر، 2024

دین کی پاکیزگی پر 50 بدعتی حملے – 33 درگاہوں پر عورتوں کی مخصوص حاضری



 

اسلام ایک کامل دین ہے جو توحید، عبادت، اور شریعت کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اس کے برخلاف، درگاہوں پر عورتوں کی مخصوص حاضری ایک بدعت ہے جو دین کی پاکیزگی پر ایک سنگین حملہ تصور کی جاتی ہے۔ یہ عمل اسلامی عقائد اور اصولوں سے متصادم ہے، کیونکہ قرآن اور حدیث میں قبروں کی تعظیم، وہاں عبادت کرنے یا کسی قسم کے وسیلے کی تلاش کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔ عورتوں کی مخصوص حاضری نہ صرف وقت اور وسائل کا ضیاع ہے بلکہ یہ ایک غیر شرعی رسم ہے جو توہم پرستی کو فروغ دیتی ہے۔ درگاہوں پر خواتین کا جانا اور وہاں مخصوص اعمال، جیسے کہ منتیں مانگنا، چادریں چڑھانا، اور نذر و نیاز کا اہتمام کرنا، معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے بگاڑ اور شرک جیسے سنگین گناہ کے پھیلاؤ کا سبب بن رہا ہے۔

یہ عمل نہ صرف اسلامی احکامات کے خلاف ہے بلکہ معاشرتی اور اخلاقی انحطاط کا باعث بھی ہے۔ خواتین کا درگاہوں پر جمع ہونا، وہاں غیر شرعی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، اور بعض اوقات اختلاط کی صورت پیدا ہونا، اسلامی اقدار کو مجروح کرتا ہے۔ قرآن میں واضح حکم ہے کہ عبادت اور دعا صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا" ۔نبی کریم ﷺ نے بھی قبروں کو عبادت گاہ بنانے سے منع فرمایا ہے ۔ ان تعلیمات کے باوجود، درگاہوں پر خواتین کی مخصوص حاضری ایک ایسی بدعت ہے جو دین کی اصل روح کو مسخ کر رہی ہے اور امت مسلمہ کے اتحاد کو کمزور کر رہی ہے۔ علماء کرام کا کہنا ہے کہ اس قسم کی بدعات سے بچنے اور دین کو پاک رکھنے کے لیے قرآن و سنت پر عمل کرنا ضروری ہے۔

 

درگاہوں پر عورتوں کی مخصوص حاضری سے مراد وہ روایت یا عمل ہے جہاں خواتین مخصوص دنوں میں مزاروں یا درگاہوں پر حاضری دیتی ہیں، وہاں منتیں مانگتی ہیں، دعا کرتی ہیں، اور بعض اوقات نذر و نیاز کا اہتمام کرتی ہیں۔ یہ عمل عموماً روحانی مدد کے لیے کیا جاتا ہے اور بعض اوقات اس میں غیر شرعی رسومات اور عقائد شامل ہو جاتے ہیں۔

 

یہ بدعت زیادہ تر اسلامی تعلیمات میں بگاڑ کے دور میں سامنے آئی، جب مسلم معاشروں میں غیر اسلامی روایات نے جگہ بنانی شروع کی۔

  • دورِ عباسیہ: تصوف کے بڑھتے رجحان کے ساتھ مزاروں کی تعمیر شروع ہوئی، جہاں عوام نے روحانی تسکین کے لیے جانا شروع کیا۔
  • جنوبی ایشیا: برصغیر میں تصوف کے ساتھ، غیر اسلامی رسم و رواج بھی شامل ہوئے، جن میں خواتین کی مخصوص حاضری شامل ہے۔
  • عوامی عقائد: ان عقائد کی جڑیں ہندو دھرم کی رسومات اور علاقے کی قدیم تہذیبوں میں پائی جاتی ہیں، جہاں مزاروں اور مندروں میں خواتین کی عبادت کا تصور عام تھا۔

 

یہ بدعت عموماً ان مسالک میں پائی جاتی ہے جو تصوف سے متاثر ہیں:

  • مسلک بریلوی: اس مسلک میں مزاروں اور درگاہوں کی تعظیم کی جاتی ہے، جہاں خواتین کی حاضری کا رجحان بھی نظر آتا ہے۔
  • تصوف پر مبنی مسالک: ان میں ایسے روحانی سلسلے شامل ہیں جو مزاروں کو مقدس سمجھتے ہیں۔
  • عوامی اسلام: وہ طبقہ جو اسلامی تعلیمات کو صحیح طور پر سمجھنے کے بجائے، رسم و رواج پر عمل کرتا ہے۔

 

دورِ جاہلیت میں مزاروں یا درگاہوں کا کوئی تصور نہیں تھا، لیکن کعبہ اور دیگر مقدس مقامات پر غیر اسلامی طریقوں سے عبادت کا رجحان تھا، جس میں عورتیں بھی شریک ہوتی تھیں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"جو شخص کسی قبر پر عبادت کے لیے جائے، وہ شرک کرتا ہے۔" (

برصغیر میں یہ بدعت تیزی سے پھیلی، خاص طور پر ہندوستان، پاکستان، اور بنگلہ دیش میں۔اس بدعت کے پھیلاؤ سے معاشرے میں پائے جانے والے بُرے اثرات مثلا:

1.    خواتین کے وقت اور وسائل کا ضیاع۔

2.    توہم پرستی اور غیر شرعی عقائد کا فروغ۔

3.    معاشرتی انتشار اور اسلام کے بنیادی عقائد سے انحراف۔

 

داتا دربار (لاہور)

داتا دربار، برصغیر کے معروف صوفی بزرگ حضرت علی ہجویریؒ کا مزار ہے، جہاں خواتین بڑی تعداد میں حاضری دیتی ہیں۔ یہاں پر منتیں مانگی جاتی ہیں، چادریں چڑھائی جاتی ہیں، اور خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں۔ یہ جگہ روحانی تسکین کا مرکز سمجھی جاتی ہے لیکن بعض اوقات غیر شرعی اعمال کا بھی مظاہرہ ہوتا ہے۔

عبداللہ شاہ غازی مزار (کراچی)

کراچی میں واقع حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کا مزار ساحلی علاقوں کے لوگوں کے لیے روحانی مرکز ہے۔ خواتین یہاں خاص طور پر بچوں کی صحت، شادی، اور دیگر مسائل کے حل کے لیے حاضری دیتی ہیں۔ اس مزار پر مختلف رسوم، جیسے نذر و نیاز، غیر اسلامی عقائد کو فروغ دیتی ہیں۔

بابا فرید گنج شکر (پاکپتن)

حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے مزار پر خواتین کی حاضری ایک خاص روایت بن چکی ہے، خاص طور پر عرس کے دنوں میں۔ یہاں چادریں چڑھانا، قوالی سننا، اور خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان رسومات کے دوران شرعی حدود کا لحاظ اکثر نہیں کیا جاتا۔

شاہ رکن عالم (ملتان)

حضرت شاہ رکن عالمؒ کے مزار پر خواتین کی بڑی تعداد حاضری دیتی ہے، جو ملتانی صوفی روایات کی علامت ہے۔ یہاں پر خواتین روحانی مسائل کے حل کے لیے آتی ہیں لیکن بعض اوقات غیر شرعی عقائد اور بدعات کا رجحان نمایاں ہوتا ہے۔

لعل شہباز قلندر (سیہون)

سیہون شریف میں حضرت لعل شہباز قلندرؒ کا مزار سندھ بھر میں روحانی مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہاں خواتین حاضری دے کر چادریں چڑھاتی ہیں اور دھمال میں حصہ لیتی ہیں، جو اسلامی تعلیمات کے برخلاف ایک بدعت سمجھی جاتی ہے۔

 

ائمہ کرام کا ان بدعات کے بارے میں جو احکامات ہیں وہ یہ ہیں مثلا

  • امام ابن تیمیہؒ: مزاروں پر حاضری کو شرک کے قریب تصور کرتے تھے۔
  • امام غزالیؒ: تصوف کی اصلاح پر زور دیتے ہوئے غیر شرعی اعمال کی مخالفت کی۔
  • فتاویٰ: جمہور علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قبر پرستی اور غیر شرعی رسومات اسلام میں ممنوع ہیں۔

اللہ رب العزت قرآن میں فرماتے ہیں "مساجد اور عبادت کے مقامات صرف اللہ کے لیے مخصوص ہیں"۔ اس طرح آپ ﷺ نے احادیث میں ذکر فرمایا کہ"تم سے پہلے قومیں اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا تھا۔" (ایک مقام پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا " اللہ کی لعنت ہو ان پر جو قبروں کو مسجد بنالیتے ہیں"۔ایک اور مقام پر اللہ رب العزت فرماتے ہیں "اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا ناقابل معافی گناہ ہے"

 

دیگر مسالک کا اس بدعت پر موقف

  • مسلک اہل حدیث: مکمل مخالفت؛ یہ عمل شرک کے زمرے میں آتا ہے۔
  • مسلک بریلوی: مزاروں پر حاضری جائز سمجھتے ہیں، لیکن شرعی حدود کا لحاظ کرنے پر زور دیتے ہیں۔
  • مسلک دیوبندی: عمومی طور پر مخالفت، لیکن بعض علماء اعتدال کا مشورہ دیتے ہیں۔
  • مسلک اہل تشیع: اولیاء کی قبروں پر حاضری کو جائز سمجھتے ہیں لیکن غیر شرعی اعمال کی مخالفت کرتے ہیں۔

 

اس گناہ سے کیسے بچیں؟

قرآن و حدیث کی تعلیمات پر عمل: قرآن و سنت کی تعلیمات کا مطالعہ کریں اور ان پر عمل کریں۔

علماء سے رجوع: مستند علماء اور اسلامی سکالرز سے رہنمائی حاصل کریں۔

دعوت و تبلیغ: لوگوں کو توحید کی دعوت دیں اور بدعات کے نقصانات سے آگاہ کریں۔

اصلاحی اقدامات: مزاروں پر غیر شرعی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے لیے سماجی شعور پیدا کریں۔

 

اللہ رب العزت سے استدعا ہے کہ ہر مسلمان کو ایسی خرافات اور بدعات سے دور رکھے اور شرک جیسی برائی سے محفوظ رکھے  ۔ آمین 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو