google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 والدین کی وفات کے بعد اولاد کی 10 اہم دینی ذمہ داریاں - Bloglovers

تازہ ترین پوسٹ

Post Top Ad

اتوار، 27 جولائی، 2025

والدین کی وفات کے بعد اولاد کی 10 اہم دینی ذمہ داریاں



اسلام ایک ایسا مکمل دین ہے جو انسان کی پیدائش سے لے کر وفات تک اور اس کے بعد کے مراحل تک کی رہنمائی کرتا ہے۔ والدین کا مقام اسلام میں انتہائی بلند ہے، حتیٰ کہ ان کے انتقال کے بعد بھی اولاد کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہوتیں بلکہ ان کی بخشش، درجات کی بلندی اور ان کے نام سے نیکیوں کا تسلسل جاری رکھنا اولاد کا عظیم فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ’’اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘

1- دعا اور استغفار کرنا

  والدین کی وفات کے بعد ان کے لیے دعا اور استغفار کرنا ایک ایسا نیک عمل ہے جو نہ صرف اُن کی آخرت کے درجات کو بلند کرتا ہے بلکہ خود اولاد کے لیے باعثِ رحمت اور اجر عظیم بنتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں سوائے تین چیزوں کے: صدقہ جاریہ، نفع بخش علم، اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔" اس حدیثِ مبارکہ میں واضح طور پر یہ بات بتائی گئی ہے کہ نیک اولاد کی دعا والدین کے لیے بعد از مرگ فائدہ مند عمل ہے، جو اُن کے حساب و کتاب میں جاری رہتا ہے۔ روزانہ والدین کے لیے مغفرت، بخشش، اور درجات کی بلندی کی دعا کرنا نہ صرف اولاد کا دینی فریضہ ہے بلکہ یہ احسان اور وفا کا اعلیٰ ترین درجہ بھی ہے۔ قرآن مجید میں ایک عظیم دعا سکھائی گئی ہے:

رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا  : ’’اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔‘‘

یہ دعا محض الفاظ نہیں بلکہ محبت، شکرگزاری، اور اخلاص کا ایک مضبوط مظہر ہے۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ والدین کے ساتھ احسان کا سب سے افضل ذریعہ اُن کے لیے دعا کرنا ہے۔ دعا ایک ایسا روحانی تحفہ ہے جو نہ قبر کی دیواروں میں رکتا ہے، نہ زمان و مکان کی قیود کا محتاج ہوتا ہے۔ ایک نیک اولاد جب سچے دل سے اپنے ماں باپ کے لیے استغفار کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اُن کی قبروں کو منور کر دیتا ہے، عذاب کو دور کر دیتا ہے اور اُنہیں جنت کے باغوں کی ہوا نصیب فرماتا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ روزانہ کم از کم ایک بار سچے دل سے اپنے والدین کے لیے دعا کرے، کیونکہ یہ اُن کا ہم پر سب سے بنیادی حق ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔

 

2- والدین کی وفات کے بعد صدقہ و خیرات کرنا

 والدین کی وفات کے بعد صدقہ و خیرات کرنا اُن کے حق میں ایک ایسا عظیم عمل ہے جو نہ صرف اُن کی مغفرت اور درجات کی بلندی کا سبب بنتا ہے بلکہ قیامت کے دن اُن کے لیے جاری نیکی کا خزانہ بھی بن جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "انسان کے والدین کے ساتھ بعد از وفات سب سے بہترین بھلائی یہ ہے کہ وہ ان کے لیے دعا کرے، استغفار کرے، ان کا قرض ادا کرے، ان کے دوستوں کی عزت کرے، اور ان کے رشتہ داروں سے تعلق جوڑے جن سے تعلق صرف ان کے ذریعے ہوتا تھا۔"

صدقہ جاریہ، جیسے پانی کا نل لگوانا، مسجد میں پنکھا یا قالین رکھوانا، قرآن پاک وقف کرنا، کھانے کا اہتمام کرنا، یا اسپتال میں مریضوں کے لیے سہولیات مہیا کرنا، ایسے اعمال ہیں جو مستقل طور پر والدین کے لیے نیکیوں کا ذریعہ بنتے ہیں۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ: "اگر اولاد اپنے والدین کی نیت سے صدقہ کرے تو اُس کا ثواب اُن تک ضرور پہنچتا ہے، کیونکہ اولاد والدین کا ہی جزو ہے۔" یہ عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ترین احسانات میں شمار ہوتا ہے۔

ایسے نیک اعمال والدین کے نامہ اعمال کو بعد از وفات بھی روشن رکھتے ہیں، قبر کی وحشت کو کم کرتے ہیں اور ان پر اللہ کی رحمت نازل کرتے ہیں۔ ایک پانی کا نل ہو یا ایک قرآنِ مجید، جب تک لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں گے، والدین کے لیے نیکی لکھی جاتی رہے گی۔ ہمیں چاہیے کہ والدین کی بخشش کے لیے زندگی بھر صدقہ و خیرات کا اہتمام کرتے رہیں، کیونکہ یہ اُن کی ابدی راحت کا بہترین ذریعہ ہے۔

 

3- والدین کے قرض یا نذر ادا کرنا

اسلام میں قرض کی ادائیگی اور نذر پوری کرنے کو نہایت سنجیدہ ذمہ داری قرار دیا گیا ہے، خصوصاً جب یہ ذمہ داری والدین کی طرف سے رہ گئی ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا "مومن کی روح اس کے قرض کی ادائیگی تک معلق رہتی ہے۔" یعنی جب تک کسی مرحوم مومن کا قرض ادا نہ ہو، اُس کی روح کو مکمل نجات نہیں ملتی۔ یہ حدیث والدین کے قرض کے حوالے سے ہماری ذمے داری کو اجاگر کرتی ہے۔ اگر والدین نے کسی کا قرض دینا تھا یا کوئی نذر مانی تھی (مثلاً صدقہ دینا، روزہ رکھنا، یا قربانی کرنا)، اور وہ ان کے دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے پوری نہ ہو سکی، تو اُسے ادا کرنا اولاد کا شرعی اور اخلاقی فرض ہے۔

امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ قرض کی ادائیگی تاخیر سے کرنا یا اُسے اہمیت نہ دینا گناہ کبیرہ میں شامل ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف مرحوم کی روح متاثر ہوتی ہے بلکہ اللہ کے ہاں اس کا سخت محاسبہ بھی ہو سکتا ہے۔ والدین کی زندگی میں جو حقوق دوسروں پر باقی رہ گئے ہوں، ان کی ادائیگی والدین کی مغفرت، قبر کی راحت، اور آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ اولاد والدین کے ترکے یا اپنی ذاتی حیثیت سے اُن کا قرض چکائے، اُن کی نذری عبادات یا صدقات کو مکمل کرے، تاکہ اُن کی روح کو سکون اور رحمت نصیب ہو۔ یہ عمل والدین کے ساتھ اخلاص، وفاداری، اور حقیقی نیکی کی علامت ہے جس کا صلہ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں عطا فرماتا ہے۔

 

 -4والدین کے رشتہ داروں سے حسن سلوک

اسلامی تعلیمات میں صلہ رحمی (رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا) کو بڑی فضیلت دی گئی ہے، اور یہ عمل والدین کی وفات کے بعد اُن کے ساتھ وفاداری کا ایک عظیم مظہر سمجھا جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:  "سب سے بڑی نیکیوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے والد کے دوستوں اور تعلق داروں سے اُن کے بعد بھی تعلق قائم رکھے۔"

والدین کے قریبی رشتہ دار جیسے چچا، خالہ، ماموں، پھوپھی سے ملاقات، ان کے ساتھ ادب و محبت کا رویہ، عیادت کے وقت اُن کی خبر گیری، عیدین یا مواقع پر تحائف دینا، ان کی مالی یا اخلاقی مدد کرنا، اور وقتاً فوقتاً میل جول رکھنا، یہ سب وہ اعمال ہیں جو والدین کی نیکیوں کا تسلسل بن جاتے ہیں۔ یہ صرف ایک معاشرتی رویہ نہیں بلکہ ایک شرعی فریضہ اور اعلیٰ اخلاقی عمل ہے۔

امام ابو حنیفہؒ صلہ رحمی کو والدین کے بعد سب سے افضل نیکی قرار دیتے ہیں، کیونکہ رشتہ داروں سے تعلق والدین کی عزت اور اُن کے مقام کا احترام بھی ہوتا ہے۔ والدین جب دنیا سے رخصت ہو جائیں، تو ان کے چھوڑے گئے رشتے، اُن کی یادگار ہوتے ہیں، اور ان سے تعلق جوڑنا والدین سے محبت اور وفاداری کی عملی دلیل ہے۔

لہٰذا، جو اولاد اپنے والدین کے رشتہ داروں سے نرمی، محبت، اور خیر خواہی کا برتاؤ کرتی ہے، وہ نہ صرف اپنے ماں باپ کو خوشی پہنچاتی ہے بلکہ اللہ کی طرف سے بھی مغفرت اور صلہ رحمی کے انعامات کی مستحق بن جاتی ہے۔

 

 5-  والدین کے دوستوں سے حسن سلوک

والدین کے انتقال کے بعد ان کے دوستوں سے حسن سلوک اور تعلق نبھانا ایک نہایت افضل عمل ہے، جسے نبی کریم ﷺ نے “ابر البر” یعنی سب سے بڑی نیکیوں میں شمار فرمایا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے "سب سے بڑی نیکیوں میں سے ایک نیکی یہ ہے کہ بیٹا اپنے والد کے دوستوں سے تعلق قائم رکھے۔"

یہ عمل والدین کے ساتھ حقیقی وفاداری اور ان کی یاد سے جڑے احترام کا مظہر ہوتا ہے۔ والد کے پرانے دوستوں سے ملاقات کرنا، ان کے ساتھ ادب، محبت اور عزت سے پیش آنا، کسی موقع پر ان کی مدد کرنا، اُن سے خیر خیریت معلوم کرنا، یا ان کے بچوں سے تعلق رکھنا—یہ سب وہ نیکیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ ہیں۔

امام مالکؒ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ والدین کے دوستوں سے تعلق رکھنا بھی ایک دینی عمل ہے، اور یہ گویا والدین سے تعلق کو برقرار رکھنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ ماں باپ کے بعد اُن کے عزیز و اقارب اور دوست وہ افراد ہوتے ہیں جن سے جڑا رشتہ دراصل والدین کی زندگی کی ایک جھلک ہوتا ہے۔

آج کے دور میں جب تعلقات سرد پڑتے جا رہے ہیں، اگر کوئی اولاد والدین کے پرانے ساتھیوں سے رابطہ قائم رکھے، تو یہ نہ صرف والدین کے حق میں جاری نیکی بن جاتا ہے بلکہ معاشرے میں محبت، عزت اور وفا کا ایک روشن نمونہ بھی پیش کرتا ہے۔ یہ عمل والدین کے لیے باعثِ اجر اور خود اولاد کے لیے ذریعۂ برکت و مقبولیت بن جاتا ہے۔

 

6- ایصالِ ثواب (نیک اعمال کا ہدیہ کرنا)

اسلام میں ایصالِ ثواب ایک مبارک اور مؤثر ذریعہ ہے جس کے ذریعے زندہ افراد اپنے مرحوم والدین یا دیگر عزیزوں کو نیکیوں کا تحفہ پیش کر سکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اقْرَؤُوا القُرْآنَ على مَوْتَاكُمْ"    : "اپنے مرحومین پر قرآن پڑھو۔" ابوداؤد: 3121

ایصالِ ثواب کا مطلب یہ ہے کہ انسان کوئی نیک عمل جیسے تلاوتِ قرآن، نفل نماز، صدقہ، روزہ، حج، عمرہ، قربانی، یا دعا وغیرہ کرے اور اُس کا ثواب اللہ کے حضور اپنے والدین یا دیگر مرحومین کو بخش دے۔ یہ عمل صرف ایک روایتی رسم نہیں، بلکہ ایک عظیم روحانی تحفہ ہے جو مرحوم کے درجات بلند کرنے، قبر کی تکلیف میں کمی، اور اللہ کی رحمت کے نزول کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

ائمہ اربعہ (امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ) میں سے تین امام ایصالِ ثواب کے مکمل قائل ہیں، جب کہ امام شافعیؒ نے قرآن کے ایصالِ ثواب پر اختلاف کیا ہے، تاہم وہ بھی دوسرے اعمال جیسے صدقہ، روزہ، نماز، دعا وغیرہ کا ثواب مرحومین کو پہنچنے پر اجماع رکھتے ہیں۔

جب کوئی اولاد سچے دل سے والدین کے لیے قرآن کی تلاوت کرتی ہے، نوافل پڑھتی ہے، صدقہ دیتی ہے یا روزہ رکھ کر اُن کے لیے دعا کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس عمل کو قبول فرما کر اُس کا پورا اجر والدین کی مغفرت، درجات کی بلندی اور ان کی قبر میں راحت کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔ ایصالِ ثواب صرف مرحومین کے لیے نہیں بلکہ کرنے والے کے لیے بھی باعثِ سکون، دل کی نرمی، اور آخرت کی تیاری کا ذریعہ بنتا ہے۔

لہٰذا، ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنے والدین کے لیے نیک اعمال کا ہدیہ کرتا رہے، کیونکہ یہ وہ سلسلہ ہے جو والدین کے انتقال کے بعد بھی محبت اور نیکی کی ڈور کو مضبوطی سے باندھے رکھتا ہے۔

 

7- والدین کی وصیت پوری کرنا

والدین کی زندگی میں کی گئی شرعی وصیت کو ان کی وفات کے بعد پورا کرنا اولاد کی ایک اہم دینی، اخلاقی اور شرعی ذمہ داری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:  "وصیت ہر مسلمان پر حق ہے۔"

وصیت دراصل کسی مسلمان کی آخری خواہش یا حکم ہوتا ہے جو اس نے اپنی زندگی میں اللہ کی رضا اور بھلائی کے لیے کیا ہو، جیسے مسجد یا مدرسے میں کچھ مال دینا، یتیم خانہ کی مدد کرنا، کسی کو معاف کرنا، صلح کروانا یا خاص کسی کام کی ہدایت دینا۔ والدین اگر اپنی زندگی میں کوئی ایسی وصیت کر جائیں جو شرعی حدود کے اندر ہو، تو اس کو پورا کرنا نہ صرف واجب ہے بلکہ ان کے ساتھ نیکی اور وفا کا عظیم مظہر بھی ہے۔

امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ ایسی تمام وصیتیں جو شریعت کے دائرے میں ہوں، اُن کو پورا کرنا لازمی ہے، اور ان سے غفلت کرنا گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر وصیت کسی مالی رقم سے متعلق ہو تو اس کی ادائیگی ترکے سے کی جائے، بشرطیکہ وہ ایک تہائی مال سے زیادہ نہ ہو اور ورثاء کی رضا بھی ہو (اگر زائد ہو)۔ اگر وصیت کا تعلق کسی معاف کرنے یا صلح کرنے کے عمل سے ہے، تو اس پر عمل کرنا والدین کی آخرت کے لیے بہترین تحفہ ہے۔

وصیت کو پورا کرنا نہ صرف والدین کے لیے راحت و رحمت کا سبب بنتا ہے بلکہ یہ اولاد کے دل میں تقویٰ، عدل اور نیکی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا جو اولاد والدین کی وصیت کو اخلاص کے ساتھ پورا کرتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عظیم اجر کی مستحق بنتی ہے اور اُس کے عمل سے والدین کی روح کو سکون اور خوشی حاصل ہوتی ہے۔

 

8-  علمِ نافع یا صدقۂ جاریہ کا بندوبست کرنا

والدین کی وفات کے بعد ان کے لیے علمِ نافع یا صدقۂ جاریہ کا بندوبست کرنا ایک ایسی دائمی نیکی ہے جو اُن کے نامۂ اعمال میں مسلسل اضافہ کرتی رہتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا"جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں سوائے تین کے: صدقۂ جاریہ، نفع بخش علم، اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔"

علمِ نافع سے مراد ایسا علم ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے اور جس سے دین و دنیا میں بھلائی ہو۔ والدین کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن کی تعلیم کا انتظام کرنا، دینی کتابیں شائع کروانا، مسجد یا مدرسے کی تعمیر میں حصہ لینا، مفت آن لائن اسلامی کورسز کا انعقاد، اسلامی ایپلیکیشنز یا یوٹیوب چینلز بنانایہ سب ایسے ذرائع ہیں جو نہ صرف صدقۂ جاریہ میں شامل ہیں بلکہ والدین کے درجات میں بلندی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔

امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ "علمِ نافع کا پھیلانا والدین کے لیے جاری عملِ خیر کا بہترین ذریعہ ہے، کیونکہ علم کے اثرات وقت، جگہ اور نسلوں کو عبور کرتے ہیں۔"

اگر کوئی اولاد اپنے والدین کے نام سے دینی علم پھیلانے کی کوشش کرے، چاہے وہ ایک چھوٹا آن لائن لیکچر ہو یا کسی یتیم بچے کو قرآن سکھانا ہو، تو اس کا اجر والدین کو مسلسل پہنچتا رہتا ہے جب تک اس علم سے فائدہ اٹھایا جاتا رہے۔ یہ وہ عمل ہے جو دنیا کی حدوں سے گزر کر آخرت میں بھی روشنی بکھیرتا ہے۔

لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ ہم والدین کے لیے علمِ نافع کے ذریعے ایک دائمی نیکی کا دروازہ کھولیں، تاکہ اُن کی قبر میں روشنی، بخشش، اور درجات کی بلندی کا سامان مہیا ہو۔ یہ ایک ایسی سرمایہ کاری ہے جس کا نفع دنیا و آخرت دونوں میں ظاہر ہوتا ہے۔

 

9- والدین کی قبر پر جانا اور دعا کرنا

والدین کی قبر پر جانا، ان کے لیے دعا اور تلاوت کرنا نہ صرف ایک سنت عمل ہے بلکہ والدین کے ساتھ محبت، وفاداری اور آخرت کی تیاری کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"قبروں کی زیارت کیا کرو، یہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتی ہے۔"

والدین کی قبر پر حاضری کا مطلب صرف ایک رسمی عمل نہیں بلکہ یہ دل کی سچائی اور روح کی وابستگی کا مظہر ہے۔ جب کوئی اولاد والدین کی قبر پر جا کر سلام پیش کرتی ہے:

السلام علیکم یا أهلَ القبور، یغفر الله لنا و لکم

تو یہ ایک روحانی رابطہ بن جاتا ہے جو دنیا سے پردہ کر جانے والے والدین کے لیے مغفرت اور راحت کا سبب بنتا ہے۔قبر پر جا کر دعا، قرآنِ پاک کی تلاوت، سورہ فاتحہ، سورہ یٰسین یا دیگر اذکار پڑھنا والدین کے لیے ایصالِ ثواب کا ذریعہ بنتا ہے اور قبر کے عذاب یا وحشت کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ائمہ اربعہ (امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ) سب اس بات پر متفق ہیں کہ قبر کی زیارت سنت ہے، بشرطیکہ وہاں بدعات، شرکیہ افعال یا خلافِ شریعت حرکات نہ کی جائیں۔ مقصد صرف دعا، مغفرت، اور آخرت کی یاد ہو۔

یہ عمل نہ صرف والدین کی روح کو سکون بخشتا ہے بلکہ اولاد کے دل میں نرمی، شکرگزاری، اور موت کی تیاری کا احساس پیدا کرتا ہے۔ والدین کی قبر پر جانا دراصل اُن کی زندگی کے بعد بھی اُن سے محبت کے تسلسل کا ثبوت ہے—ایک ایسا عمل جو دنیا و آخرت دونوں میں برکت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

 

10- والدین کے نام سے اجتماعی نیکی کا انتظام

والدین کی وفات کے بعد اُن کے نام سے اجتماعی نیکیوں کا اہتمام کرنا ایک عظیم صدقۂ جاریہ ہے، جو ان کے لیے دائمی رحمت، درجات کی بلندی، اور مغفرت کا ذریعہ بنتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔" ایسی نیکیاں جن سے متعدد افراد کو فائدہ ہو، والدین کے لیے صدقہ جاریہ بن جاتی ہیں۔ مثلاً:

  والدین کے نام پر کنواں یا پانی کا نل کھدوانا جہاں لوگ پیاس بجھائیں

  یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا

  قرآن مرکز، دینی ادارہ یا مدرسہ قائم کرنا

  اُن کی طرف سے حج و عمرہ کی نیابت کرنا


یہ سب وہ کام ہیں جن کا ثواب نہ صرف والدین کو مسلسل پہنچتا رہتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرماتا ہے، اور یہ نیکی دنیا و آخرت دونوں میں اولاد کے لیے برکت کا ذریعہ بنتی ہے۔

امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ نے واضح طور پر یہ بات بیان فرمائی ہے کہ "والدین کی طرف سے حج و عمرہ، صدقہ، خیرات، اور دیگر نیک اعمال انجام دینا مکمل طور پر جائز اور باعثِ اجر ہے۔" ان اعمال سے نہ صرف والدین کو قبر کی تنہائی میں راحت ملتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے جنت کی راہیں آسان فرماتا ہے۔

اجتماعی نیکی کے یہ منصوبے ایک ایسا روحانی صدقہ جاریہ ہیں جن کے اثرات نسلوں تک پہنچتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے والدین کے نام پر مسلسل ایسے کام کریں جو نہ صرف اللہ کی رضا کے لیے ہوں بلکہ اُن کے لیے جاری نیکی کا ذریعہ بھی بنیں—یہی والدین سے سچی محبت، وفاداری، اور خیر خواہی ہے جو اُن کے بعد بھی کبھی ختم نہیں ہوتی۔

مرتے ہیں ماں باپ، مگر ان کی محبت باقی ہے

اولاد کا فرض ہے کہ رہے یہ نسبت باقی ہے

دعا، صدقہ، حج، اور سلوکِ قرابت

یہ سب ہیں برِ والدین کی حقیقت باقی ہے

 

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کے حقوق کو پہچاننے اور ان کے لیے نیکی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

 

1 تبصرہ:

  1. اللہ پاک ہم سب کو والدین کی خدمت کرنے کی توفیق فرمائے۔۔ آمین

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم اپنی رائے ضرور دیں: اگر آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں میں شئیر کریں۔

Post Top Ad

مینیو